پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خطے کو تباہی سے بچایا

88

یہ 1987ء کا سال تھا جب بھارت اور پاکستان کی سرحدوں پر سخت کشیدگی تھی۔ عین اُسی وقت پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سگنل موصول ہوئے کہ بھارت پاکستان پر ایک بڑا حملہ کرنے والا ہے۔ اِن اطلاعات کے فوراً بعد صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے بھارت پہنچ گئے۔ میچ کے بعد صدر پاکستان کو الوداع کہنے کے لئے اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو مجبوراً ایئرپورٹ آنا پڑا۔ یہی وہ موقع تھا جب جنرل محمد ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کے نتائج حاصل کئے۔ انہوں نے راجیو گاندھی کو الوداعی ہاتھ ملاتے ہوئے صرف یہی کہا کہ ”جو آپ کے پاس ہے وہ ہمارے پاس بھی ہے“۔ اُس وقت کے راجیو گاندھی کے ملٹری سٹاف افسر کے مطابق جنرل ضیاء کی یہ بات سن کر راجیو گاندھی سناٹے میں آگئے اور ضیاء الحق کے وطن واپس پہنچنے سے پہلے پہلے بھارت نے سرحد سے اپنی فوج واپس بلانا شروع کردی۔ گویا پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خطے کو ایک بڑی تباہی سے بچالیا۔ یہ 1999ء کا سال تھا جب پاکستانی فوجیں کارگل میں برسرپیکار تھیں۔ عین اُسی وقت پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سگنل ملے کہ بھارت مکمل شکست سے بچنے کے لئے ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے اور یہ ایسی تباہی ہوتی جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ایٹمی جنگ میں فوراً مرجانے والے خوش قسمت اور بچ رہنے والے بدقسمت ہوتے ہیں۔ ان اطلاعات پر اُس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے انٹرنیشنل پلیئرز کی مدد سے اس خطرے کو ٹالا۔ گویایہاں بھی پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خطے کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔ یہ 2002ء کا سال تھا جب روایتی دشمن بھارت اور پاکستان کی فوجیں تمام سازوسامان کے ساتھ سرحد پر آمنے سامنے موجود تھیں۔ عین اُسی وقت پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سگنل ملے کہ آج رات انڈین ایئر فورس پاکستان کے حساس مقامات اور کچھ شہروں کو نشانہ بنانے والی ہے۔ ان اطلاعات پر اُس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے پاکستان ایئر فورس کو ہائی ریڈ الرٹ کا آرڈر بھیجا کہ ایسی کسی ایکٹیویٹی کا فوری جواب دیا جائے اور پاکستان ایئر فورس انڈین ایئر فورس کے جواب میں دو مرتبہ حملہ کرے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اس پیغام کو پھیلانے کے لئے ایک ٹیکنیکل سٹریٹجی کا استعمال بڑی سمجھداری اور مہارت سے کیا۔ انہوں نے یہ پیغام اوپن وائرلیس پر دیا جسے دشمن کی ایجنسیوں نے بھی سنا اور یہی جنرل پرویز مشرف چاہتے تھے۔ ان کے اس پیغام کا بھارتی جی ایچ کیو میں پہنچنا تھا کہ انڈین ایئر فورس کی مہم جوئی ٹل گئی اور آہستہ آہستہ سرحدوں سے فوجوں کی واپسی بھی شروع ہوگئی۔ گویا یہاں بھی پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خطے کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔ یہ 2019ء کا سال تھا جب پلوامہ حملے کے بعد بھارت اپنی انٹیلی جنس ناکامیوں کا غصہ پاکستان پر اتارنے کے لئے بضد تھا۔ عین اُسی وقت پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سگنل ملے کہ راجستھان بیس کیمپ سے پاکستان کی حساس جگہوں سمیت کراچی اور بہاولپور کو انڈین ایئر فورس کے ذریعے نشانہ بنایا جانے والا ہے۔ نیز یہ بھی پتا چلا کہ بھارت سیکنڈ حملے کے طور پر میزائلوں کا سہارا بھی لے گا۔ ان اطلاعات کا موصول ہونا تھا کہ پاکستان نے واضح ذرائع استعمال کرتے ہوئے بھارت اور انٹرنیشنل پلیئرز کو دوٹوک بتا دیا کہ بھارت کے کسی بھی حملے کی صورت میں اُس کی مقدار سے تین گنا بڑی جوابی کارروائی کی جائے گی۔ بیشک پاکستان کی تین گنا بڑی جوابی کارروائی بھارت کے لئے جہنم کی آگ کے برابر ہی ہوسکتی تھی۔ اس خوف سے انٹرنیشنل پلیئرز نے بھارت کو ایسی کسی بھی مہم جوئی سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ گویایہاں بھی پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خطے کو ایک بڑی تباہی سے بچالیا۔ مندرجہ بالا چند بڑے واقعات اور رپورٹ نہ ہونے والے بیشمار واقعات کو جان کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے بل بوتے پر بھارت کے بیشمار مہم جوئیانہ عزائم کو کسی خون خرابے کے بغیر ناکام بنایا۔ گویا بھارت کی مسلح افواج کی تمام خفیہ حکمت عملیاں پاکستانی انٹیلی جنس کے آگے شکست کھا گئیں۔ دوسری طرف صرف ایک مثال کو لیتے ہیں۔ انڈین ایئر فورس نے 2019ء میں بالاکوٹ میں مبینہ ٹریننگ سنٹر کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا جس کے چند ہی گھنٹے بعد زمینی حقائق اور سیٹلائٹ کی تصویروں نے اس بھارتی دعوے کو غلط ثابت کر دیا۔ یعنی بھارتی انٹیلی جنس نے خود انڈین ایئر فورس کو شرمندہ کرا دیا۔ یہاں ایک بات لمحہ فکریہ ہے کہ 80ء کی دہائی میں جب پاکستان افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف افغان وار کا حصہ تھا اُس وقت بالاکوٹ کی اِسی جگہ پر مجاہدین کو ٹریننگ دینے کے لئے ایک ٹریننگ سنٹر قائم تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب افغان وار ختم ہوگئی تو بالاکوٹ کا وہ مبینہ ٹریننگ سنٹر بھی ختم ہو گیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ 80ء کی دہائی کے اُس ٹریننگ سنٹر کی معلومات صرف چند بین الاقوامی اداروں کو تھیں۔ بھارت کو بالاکوٹ کے اس پرانے ٹریننگ سنٹر کی نشاندہی کس نے کی اور کیا اُس نشاندہی کرنے والے نے بھارت کو بھی دھوکا نہیں دیا؟ کیونکہ وہ ٹریننگ سنٹر تو 30 برس پہلے سے ختم ہوچکا تھا۔ بھارت کی ناکامیوں کے نتائج میں سے بھارت کو ایک نتیجہ یہ بھی دیا جارہا ہے کہ اس کا موجودہ اسلحہ ناکارہ ہوچکا ہے۔ اسلحہ بیچنے اور خریدنے والے بیوپاریوں کے لئے یہ پراپیگنڈہ بھارتی عوام کے ساتھ دوستی سے زیادہ اُن کے اپنے کاروباری منافع سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں بھارت کو اسلحہ فروخت کرنے سے ان کا کاروبار اور کمیشن خوب چمکے گا۔ دوسری طرف بھارت کے لئے موجودہ ناکارہ اسلحے کی جگہ نئے اسلحے کی خرید کے لئے خطیر رقم کا حصول معیشت کا مکمل خون چوس لینے کے مترادف ہوگا۔ اگر بھارتی حکام نے خون چوسنے کا ارادہ کرہی لیا تو انہیں اپنے انجام کے ساتھ ساتھ بھارت کے انجام کو بھی سامنے رکھنا ہوگا کیونکہ ریاست کو ویپنری سٹیٹ بنانے کا انجام سوویت یونین کے انجام کی ہسٹری پڑھ کر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اگر یہ ہوا تو پھر اِس موقع پر پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھارت کو اُس کے حال پر چھوڑ دیں گی۔

تبصرے بند ہیں.