ڈیرہ اسماعیل تھانے پر دہشت گردانہ حملے میں دس اہلکاروں کی شہادت اور دیگر کے زخمی ہونے کی اطلاعات انتہائی افسوس ناک ہی نہیں بلکہ پریشان کن بھی ہیں تھانے پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا دستی بم پھینکے گئے، فائرنگ کی گئی اور دہشت گرد رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔ یاد رہے ڈیرہ اسماعیل خان، علاقہ غیر نہیں بلکہ بندوبستی علاقہ ہے، کے پی کے کا اہم حصہ ہے یہاں دہشت گردوں کا اس طرح حملہ آور ہو کر نکل جانا معمولی بات نہیں ہے۔ ہمارے فوجی اور غیرفوجی ادارے اور ان کے اہلکار ایک عرصے سے نہ صرف ایسے دہشت گردوں کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں انہیں واصل جہنم بھی کر رہے ہیں اور اس عمل میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان 2 سے زائد دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے ویسے ہم نے 2001 میں بذات خود 9/11 کے بعد امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کی افواج کے ساتھ طالبان کے افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا ہم طالبان حکومت کے حمایتی تھے ان کے ممدومعاون بنے ہوئے تھے طالبان حکومت کا سفارتخانہ بھی یہاں پاکستان میں موجود تھا ہماری فوجی قیادت نے جو اس وقت ملک پر قابض تھی امریکی دھمکی کے جواب میں فوراً امریکی اتحادی بننے کا فیصلہ کیا حالانکہ ہم 1979 سے افغان قوم کے ساتھ اشتراکی افواج کشی کے خلاف افغان مجاہدین کی جدوجہد آزادی کے حمایتی تھے۔ اشتراکی افواج کشی کے خلاف افغان مجاہدین کی جدوجہد آزادی کے حمایتی تھے ہم نے ان مجاہدین کو اپنی سرزمین دی، 70 لاکھ سے زائد مہاجرین کو یہاں پاکستان میں پناہ دی۔ اقوام مغرب اور اقوام مسلم کی امداد کے لئے ہماری سرزمین مرکز بنی۔ ہم نے انہیں گولی اور روٹی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر سفارتی مدد بھی فراہم کی۔ جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی کامیاب رہی ہم نے اسی جہادی دور میں اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھا اقوام مغرب افغان جہاد کے حوالے سے جنرل ضیاء الحق کی ممنون بھی تھیں اور مجبور بھی تھیں اس لئے انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے صرف نظر کیا۔ افغان جہاد کامیاب ہوا۔ اشتراکی افواج کو افغانستان سے نکلنا پڑا۔ پھر جہادی تنظیموں میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا اور پھر طالبان آئے اور چھا گئے۔ 2001 میں امریکہ طالبان کے افغانستان پر چڑھ دوڑا اور ہم اپنی افغان پالیسی فوری طور پر تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جنرل مشرف نے جو حکمت عملی اپنائی وہ ’’دہرا معیار‘‘ تھا ایک طرف ہم امریکی اتحادی تھے ہماری زمین، فضا اور ادارے افغانستان پر حملہ آور ہونے اور افغانوں کو تباہ کرنے والوں کے ممدومعاون بنے دوسری طرف درپردہ ہم طالبان قیادت کو پروٹیکشن بھی فراہم کرتے رہے۔ اسی دور میں کوئٹہ شوریٰ کا ذکر بھی ہوتا رہا، حقانی نیٹ ورک کے بانی مولانا جلال الدین حقانی کی اسلام آباد میں موجودگی کی خبریں بھی آتی رہیں۔ پھر ایبٹ آباد آپریشن میں القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی موجودگی بھی ثابت ہو گئی اور ہماری دہری افغان پالیسی کا پول بھی کھل گیا۔ امریکہ ایک طرف ہمارے ساتھ ہماری مدد کے ساتھ افغانوں کی تحریک آزادی کچل رہا تھا تو دوسری طرف وہ انڈیا، افغان دشمن حکومت اور دیگر گروپوں کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کی حمایت اور مدد بھی کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ اس جنگ کے دوران پاکستان نے سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھایا۔ ہندوستان اور افغان حکومت ڈٹ کر ایسے گروہوں کے پشتیان بنے ہوئے تھے جو سرحد پار سے یہاں پاکستان آ کر دہشت گردی کرتے تھے دہشت گردوں کی پاکستان کے خلاف یہ جنگ سرحدی علاقوں سے آگے بڑھتے بڑھتے بندوبستی علاقوں تک ہی نہیں بلکہ کراچی کے ساحلوں تک پھیل گئی تھی۔ پاکستان نے ایسی جنگ کا شاندار انداز میں سامنا کیا۔ ہماری عسکری و نیم عسکری تنظیموں نے بڑی حکمت عملی اور بہادری کے ساتھ نہ صرف اس جنگ کا سامنا کیا بلکہ دہشت گردوں کو شکست سے ہمکنار کیا۔ 2021 میں امریکی دوہا معاہدے کے تحت جب یہاں سے واپس گئے تو ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ اب افغانستان کی طرف سے ہمیں اچھی خبریں ملیں گی کیونکہ دوہا معاہدہ بھی ہماری کاوشوں سے ہی انجام پذیر ہوا تھا اور ہماری حمایت طالبان کے ساتھ رہی تھی ہم نے کابل پر طالبان کے قبضے کا جشن بھی منایا لیکن تین سال گزرنے کو ہیں افغان سرزمین ابھی تک پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں استعمال ہو رہی تھی۔ افغان طالبان حکومت اپنی سرزمین پر قائم دہشت گرد تنظیموں کے مراکز بند نہیں کرا سکی ہے۔ دہشت گرد ابھی تک پاکستان کے خلاف افغان سرزمین پر مورچہ زن ہیں طالبان حکومت ان کے خلاف کچھ بھی نہیں کر رہی ہے پاکستان امریکی افواج کی واپسی کے بعد بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ امریکی فوج کے چھوڑے ہوئے ہتھیاروں کی دستیابی کے ساتھ، دہشت گردوں کی حملہ آور ہونے کی طاقت اور صلاحیت بھی بڑھ گئی ہے۔ ہم طالبان سے جو امیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ طالبان ہماری سرحدی باڑ کا بھی احترام نہیں کرتے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت کے لئے بھی ہمارے ممنون نہیں ہیں، سفارتی محاذ پر بھی پاکستان کی مدد کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں ڈیورنڈ لائن کے بارے میں بھی ان کے خیالات موافق نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں ہمیں جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی افغان پالیسیوں کے اثرات بارے غوروخوض کر کے اپنے قومی مفاد کے مطابق ایسی افغان پالیسی تشکیل دینی چاہئے جو حالات حاضرہ سے ہم آہنگ ہو۔
تبصرے بند ہیں.