کل8 فروری کو ہونے والے انتخابات ملکی تاریخ کے 12ویں عام انتخابات ہونگے جس میں عوام اپنے بہتر مستقبل کا چنائو کریں گے اور ووٹرزکا ماضی کے نکمے سیاستدانوں سے بدلہ لینے کا موقع بھی ہے دوسری طرف گھر میں کھانے کو ہو نہ ہو ہم سیاسی موضوع پر ضرور ٹانگ اڑاتے ہیں، ہمیں الف ب نہ آتی ہو پھر بھی اپنے آپ کو سکالر گردانتے ہیں، اپنا نام تک نہ لکھنا آتا ہو پھر بھی پی ایچ ڈی کہلواتے ہیں، تین تین ڈگریاں لے کربھی عقل سے عاری ہیں، ’’پھوڑی‘‘ پر بیٹھے ہوں تو بھی مردے کے لئے دعا کم اور سیاستدانوں پر مغز ماری زیادہ کرتے ہیں حلقہ کے ایم این اے اور ایم پی اے کو کوستے ہیں، ان کے بارے میں کیا کیا کچھ نہیں کہتے تھے کہ ووٹ لینے کے بعد حلقہ سے غائب ہو گئے کام نہیں کراتے، گلیاں بازار ٹوٹے پھوٹے ہیں، یہ ہے وہ ہے لیکن ہم نے کبھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکا کہ اس میں کہیں نہ کہیں تو غلطی ہماری بھی ہے کیونکہ ٹھپہ لگاتے وقت ووٹر امیدوار کے کردار کے بجائے اس کی برادری دیکھتا ہے کہ یہ بھی میری برادری کا ہے ٹھپہ لگاتے وقت محلے داری کو سامنے رکھا جاتاہے، ٹھپہ لگاتے وقت امیدوار کا حسب نسب بھول جاتے ہیں، کبھی ہم نے باکردار امیدوار کو ترجیح نہیں دی کبھی ہم نے سوشل ورکر کو ترجیح نہیں دی اگر ترجیح دی ہے تو تعلق داری کو، اس کے بدلے چاہے وہ لچا لفنگا ہو چاہے وہ جوئے کے اڈے چلاتا ہو، چاہے لوٹ مار میں سر سے پائوں تک ڈوبا ہوا ہو ہم کہتے ہیں کہ بھئی یہ ہمارا محلے دار ہے یہ فلاح کا رشتہ دار ہے، یار فلاں نے کہا تھا کہ ووٹ اس کو دینا ہم نے کبھی ضمیر کے مطابق ووٹ دیاہی نہیں پھر گلے شکوے کرتے ہیں کل ایک بار پھر ایک نئی صبح کا آغاز ہونے جا رہا ہے، کل پھر ملک کی باگ ڈورمخلص ایماندار قیادت کو سونپے جانے کا دن ہے کل پھر ملک کا مستقبل سنوارنے کے لئے فیصلے کی گھڑی ہے کل پھر ملک سے لاقانونیت، بے روزگاری، لوٹ کھسوٹ ختم کرنے کے لئے آگے بڑھنے کی شروعات ہے کل پھر یہ سوچ کر آگے بڑھناہے کہ ماضی میں کیا ہوا، کل پھر کل کو سنوارنے کے لئے قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کا عزم کرنا ہے کل پھر اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر پاکستانی بن کر پاکستان کے لئے سوچنا ہے، کل پھر روزانہ 5 ارب کی کرپشن کا راستہ روکنے کے لئے ایسے امیدوار کا چنائو کرنا ہے جو تابعدار نہ ہو، رضاکار ہو کل پھر اپنے اور اپنی نئی نسل کے بہتر مستقبل کے فیصلے کا دن ہے ہم نے محلے دار کو ووٹ نہیں دینا ہم نے تعلق داری کو ووٹ نہیں دینا ہم نے اپنی پارٹی کےبندے کو ووٹ نہیں دینا ہم نے اپنی برادری کے امیدوار کو ووٹ نہیں دینا ہم نے ووٹ اس امیدوار کو دینا ہے جوایماندار ہو جو کرپشن سے پاک ہو جو دنیا دار نہ ہو دیندار ہو کیونکہ ایک غلط ٹھپہ لگانے سے ہم مزید دلدل میں پھنس سکتے ہیں ایک غلط ٹھپہ لگانے سے وہی جھوٹے مکار سیاستدان ہم پر مسلط ہو سکتے ہیں جنہوںنے ماضی میںموروثی سیاست کو پروان چڑھایا جنہوں نے ملکی اداروں کو تباہ کیا، جنہوں نے اربوں کے قرضے ہڑپ کئے، جنہوں نے عوام کا مستقبل سنوارنے کے بجائے اپنا، اپنی اولادوں کا مستقبل سنوارا جنہوں نے ہر بار روٹی کپڑا اور مکان، ووٹر کو عزت دو، چہرے نہیں نظام بدلیں گے جیسے نعرے لگا کر عوام کو بے وقوف بنایا جنہوں نے ہر بار دین کی ٹھیکیداری کی جنہوں نے ہر بار ملکی غیرت کا سودا کیا جنہوں نے ہر بار عوام کو شیشے میں اتارا جنہوں نے ہر الیکشن میں اصلی چہرے پر نقلی چہرے کو سجا کر ملک اور قوم کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا غلام بنایا ایسے لوگوں کو مسترد کیجئے، ووٹ ایک امانت ہے اس امانت میں خیانت نہ کیجئے گا ، واہ واہ اور بلے بلے سے جان چھڑایئے، شکوے شکایات کو دفن کر دیں ملک کا مستقبل سنوارنے کے لئے اب گیند آپ کی کورٹ میں ہے اس ساری منطق کے باوجود یہ کہنا پڑے گا کہ پاکستان کی تاریخ کے انوکھے الیکشن ہو رہے ہیں جس میں انتخابات سے پہلے ہی رزلٹ خاص واضع ہے اس حوالے سے انڈیا،بنگلہ دیش اور پاکستان میں قدریں مشترک ہیں اس لئے کہ مودی، حسینہ واجد اورنواز شریف تینوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں معاملہ تھوڑاالٹ ہے کہ یہاں خارجہ پالیسی کا بحران ہے،سیاست کا بحران ہے،ایک تجربہ 2018میں ہوا تھا کہ جب ایک طاقت ورحکومت تو بنی لیکن وہ مخالفین سے کمپرومائز نہ کر سکی جس کی وجہ سے سابقہ حکومتوں کی طرح وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکی ایک تجربہ اب کیا جا رہا ہے جس میں لگ رہا ہے کہ یہ ایک کمزورحکومت ہو گی ماضی میں سانحات بھی ہوئے کہ جب کسی وزیر اعظم کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا کسی کو جلاوطن کردیا گیا تو کسی کو وقت سے پہلے ہی گھربھیج دیا گیا 2024 کے الیکشن میں جہاں اورکئی مشکلات کا سامنا ہے وہاں ماضی میں ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے والی پی ڈی ایم ایک دوسرے کی جانی دشمن بن کر میدان میں ہے جس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سیاستدان اپنے مفادات کیلئے کیسے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھتے ہیں اور میثاق جموریت بھی کر لیتے ہیں ایک عوا م ہیں کہ وہ ایویں ای سیاستدانوں کے پیچھے مرنے مارنے کوتیار رہتے ہیں اس لئے بعد میں رونے دھونے کے بجائے سوچ سمجھ کر ووٹ کا استعمال کریں حالیہ الیکشن میں 6 کروڑووٹرز جن کی عمریں 18 سے35 سال کے درمیان ہیں ان کا کردار اہم ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ نوگوایریا والے کیا گل کھلاتے ہیں یہ جاننے کیلئے 9 فروری کا انتظار کریں۔
تبصرے بند ہیں.