8 فروری الیکشن: ریاست کے امتحان کا دن

91

الیکشن کیوں نہیں ہوں گے اِس کی مضبوط اور قابلِ تسلیم دلیل ابھی تک میرے سامنے نہیں آئی۔ ایک دوست کا خیال ہے”میرا دل کہتا ہے، الیکشن نہیں ہوں گے“ جبکہ اسی دوست نے کہا تھا ”میرا دل کہتا ہے کہ پاکستان ورلڈ کپ کرکٹ میچ جیت جائے گا“ اور آخری دن پاکستان کرکٹ سلیکشن کمیٹی، کوچ، کھلاڑی اور ہندوستان اُس کے زیر عتاب تھے۔ عجیب و غریب ماحول بن چکا ہے جس کے جی میں جو آتا ہے نہ صرف کہہ رہا ہے بلکہ کر گزرنے میں بھی کوئی شرم یا عار محسوس نہیں کرتا۔ کچھ سینیٹرز کو خیال آیا کہ الیکشن نہیں ہونے چاہئیں تو انہوں نے سینیٹ سے قرارداد منظور کرا لی۔ اب کوئی پوچھے کیا یہ آپ کے دائرہ اختیار میں آتا تھا تو اِس کا جواب کوئی نہیں دے گا۔ کوئی اُن سینٹرز پر آرٹیکل 6 کے اطلاق کا خواہش مند ہے تو کوئی اُسے توہین عدالت سے تعبیر کر رہا ہے لیکن الیکشن تو ہوں گے اور اگر الیکشن نہیں ہوتے تو پھر بدترین حالات کیلئے پاکستان کے سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں کو تیار رہنا چاہیے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ افواہ سازی کی ان گنت فیکٹریاں پاکستان میں بیک وقت کام کرنا شروع ہو چکی ہیں۔ ایک شہری کی خبر دوسرے سے نہیں ملتی اور سوشل میڈیا کی موجودگی نے اِس کام کو اور آسان کر رکھا ہے۔ کون الیکشن کرانا چاہتا ہے اورکون چاہتا ہے کہ الیکشن نہ ہوں، کیا یہ زیادہ ضروری ہے یا پھر الیکشن کا ہونا زیادہ اہم ہے؟ پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل چکی ہے اور اُن کے نوزائیدہ سابق چیئرمین بیرسٹر گوہر کے علاوہ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ بھی اِس بات پر متفق ہیں کہ الیکشن ہونے چاہئیں کیونکہ اُن کی ضرب تقسیم کے مطابق اتنے امیدوار جیت جائیں گے جتنے پاکستان پیپلز پارٹی کا اتحادی بننے کیلئے مرکز میں ضروری ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں تحریک انصاف مرکز یا پنجاب تو دور کی بات خیبر پختون خوا میں بھی حکومت بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ہر جماعت کی عملی سیاست ہی اُس کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ جو حرکتیں تحریک طالبان پاکستان میں کرتی رہی ہے وہی حرکتیں تحریک انصاف بھی پاکستانی اداروں کے ساتھ کرے اور اُس کے مجرموں کو گناہگار سمجھ کر اُن کا فیصلہ روزِ قیامت پر چھوڑ دیا جائے۔ بے شک! اللہ فیصلے کے دن کا مالک ہے لیکن وہ دن گناہگاروں کے فیصلے کا ہے مجرموں کو سزا دینے کیلئے ریاست کا نظام ِ عدل حرکت میں آتا ہے۔ ہم جب اللہ کے قانون کو توڑتے ہیں تو گنہگار کہلاتے ہیں لیکن جب ہم ریاست کے قانون کو توڑیں تو ہمارا شمار مجرمین میں ہو گا۔ جرم کی معافی کا اختیار مدعی کے پاس ہوتا ہے اور مدعی فرد بھی ہو سکتا ہے، ریاست بھی۔ یہ انتہائی سیدھی سادھی باتیں ہیں جو قانون کے پہلے سال میں پڑھنے کو مل جاتی ہیں بلکہ اگر آپ سیاسیات یا سماجیات کے طالبعلم ہیں تو گناہ اور جرم کا فرق قانون نہ بھی پڑھا ہو تو معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو جب الیکشن پر اعتراض نہیں تو پھر اِس بات کا پتہ تو ضرور چلنا چاہیے کہ کون ہے یا کس کے اشارے پر اِن سینیٹرز نے یہ جرأت کی ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کرا لی ہے۔ گو کہ اُس کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت تو نہیں لیکن افواہ سازی میں سماجی مکالمے کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

کیا کسی دماغ میں آئینی طریقہ کار کے علاوہ بھی کوئی تخیلاتی جمہوریت پاکستان کیلئے کارفر ما ہے تو اُس کو علاج کی ضرورت ہے ورنہ جو کچھ آئین میں لکھ ہے اُس کے خلاف زور آزمائی کرنا واقعی آرٹیکل 6 ہے گو کہ ہم اِس شق کو آئین کا حصہ ہی نہیں سمجھتے ورنہ سیدھی سے بات ہے جو اسمبلی آرٹیکل 6 کے مجرم پر اس آئینی آرٹیکل کا اطلاق نہیں کرتی وہ خود آرٹیکل 6 کی مجرم ہو جاتی ہے۔ جہاں تک رہی بات موسم کی تو سرد موسم کا حوالہ دینے والوں کے علم میں ہونا چاہیے کہ پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہی 7 دسمبر 1970 کو ہوئے تھے گو ہم نے اُس کے نتائج نہیںمانے لیکن الیکشن دسمبر کی شدید ٹھنڈ میں ہوا تھا۔ 1977 کے انتخابات 7 مارچ کو ہوئے تھے یعنی جنوری اور فروری میں کمپین اور بعد ازاں حکومت مخالف تحریک 5 جولائی 1977 تک زوروں پر تھی۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات جن کا محترمہ بے نظیر بھٹو نے بائیکاٹ کیا اور بعد ازاں اسے اپنی بدترین غلطی تسلیم کیا 25 فروری کو ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والے الیکشن 3 فروری کو کرائے گئے۔ پاکستان کی تاریخ کے خونی ترین الیکشن کی پہلی تاریخ 8 جنوری 2008ء تھی جو محترمہ کی شہادت کے بعد 18 فروری 2008ء میں کرائے گئے۔ صرف 2013 اور 2018 کے انتخابات بالترتیب مئی اور جولائی میں ہوئے اِس کے علاوہ پاکستان کے تمام انتخابات یا شدید سردی میں ہوئے یا آتی سردیوں میں یا پھر جاتی سردیوں میں اُن کا اہتمام کیا گیا۔ سو میں نہیں سمجھتا کہ الیکشن کرانے میں موسمی خرابی کو جواز بنایا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ الیکشن کا حکم دے چکی، الیکشن کمیشن تاریخ اور شیڈول جاری کر چکا، انتخابی عملہ اپنی ٹریننگ مکمل یا ابھی زیر تربیت ہے۔ سیاسی جماعتوں کا ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل مکمل ہونے اور انتخابی نشان ملنے کے ساتھ ہی پوری دھوم دھام سے الیکشن شروع ہو جائے گا اور یہی لوگ جو الیکشن کو ایک معما بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں اُس الیکشن کا سب سے جاندار حصہ ہوں گے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اب الیکشن میں تاخیر کسی آسمانی آفت کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے تمام ادارے الیکشن کرانے کیلئے تیار ہیں۔ باقی پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا یہ تاثر ضرور دے رہا ہے کہ پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی الیکشن نہیں کرانا چاہتی یا پھر”مرشد“ کے بغیر الیکشن کیسے ہو گا۔ تو اُن گمنام سپاہیوں کو میں صرف یہی بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے تقریباً سال پہلے روزنامہ ”نئی بات“ کے ادارتی صفحہ پر ایک کالم باعنوان: ”قبر ایک اور مردے دو“ تحریر کیا تھا اور کھل کر لکھ دیا تھا کہ عمران نیازی پر اب اعتماد کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں اور مجرموں سے مذاکرات نہیں ہوا کرتے۔ باقی رہی سہی کسر آنے والے دنوں میں عدالتی فیصلے پوری کر دیں گے۔ الیکشن 8 فروری کو ہی ہوں گے ورنہ میرے پاکستان میں اداروں کے وقار نامی کوئی چیز باقی نہ رہے گی کہ عمران نیازی نے پہلے ہی باجوہ اور فیض حمید کی زیر نگرانی وہ سب کچھ کر دیا ہے جس کو دھوتے دھوتے ابھی بہت وقت لگ جائے گا اور فوج ایسا کوئی نیا تجربہ کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی کیونکہ عمران نیازی کا ورکر اب گھروں میں تو ہو سکتا ہے میدان میں ہرگز نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.