سینیٹ کی پُراسرار قرارداد

61

میں جمعہ کو سینیٹ سے چھٹی پر تھا۔ جو کچھ ہوا، سب منظر عام پر آ چکا ہے۔ میں نے پریس گیلری میں موجود دو مستند صحافیوں سے پوری روداد سنی۔ یہ جاننے میں کچھ دن لگیں گے کہ فتنہ ساماں قرارداد کی کھچڑی سینیٹ کے باورچی خانے میں خود ”میرِ مطبخ“ کی نگرانی میں تیار ہوئی یا مارگلہ کی فضاؤں میں آنکھ مچولی کھیلتی چڑیاں اس کے لیے دال چاول کے دانے چُن کر لائیں۔ گمانِ غالب یہی ہے کہ یہ ایک ”خود رو واردات“ تھی۔ شواہد بتاتے ہیں کہ فیصلہ ساز قوتیں یکسو ہو چکی ہیں۔ وہ جان گئی ہیں کہ 8 فروری کو انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے ورنہ ملک عدمِ استحکام اور بے یقینی کی صلیب پر جھولتا رہے گا۔ کچھ دِن قبل کور کمانڈرز اجلاس نے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی ہر ممکن مدد کا عہد دہرایا۔ قراردادی کرداروں کا شجرہ سیاست طاقت کے انہی معروف مراکز سے جڑا ہوا ہے لہٰذا میڈیا میں ایک کہرام بپا ہو گیا۔ قرارداد کے ڈانڈے ”بارگاہِ خاص“ سے ملائے جانے لگے۔ نتیجہ یہ کہ 8 فروری کا چہرہ ایک بار پھر دھُندلانے لگا۔

سینیٹ کے ’رُولز آف پروسیجر‘ کا باب 13، ایوان میں پیش کی جانے والی قراردادوں کے بارے میں واضح طریقہ کار طے کرتا ہے۔ کسی بھی رُکن کو سات دِن کا نوٹس دیتے ہوئے اپنی قرارداد کا مسودہ سیکرٹریٹ میں جمع کرانا ہوتا ہے۔ ایک سے زیادہ قراردادوں کی صورت میں ایوان میں لانے کی ترتیب کا تعیّن کرنے کے لیے کھلی قرعہ اندازی ہوتی ہے۔ قرارداد کے لیے ضروری ہے کہ وہ سینیٹ رولز آف پروسیجر کے مطابق ہو۔ رُول چونتیس (4-D) قرار دیتا ہے کہ ”پیش کی جانے والی قرارداد ایسی بحث کا دروازہ نہیں کھولے گی جو عوامی مفاد کے منافی ہو۔“

ایوان میں پیش کی جانے والی قرارداد ”فرمانِ امروز“ (ORDER OF THE DAY) میں شامل کر کے ایک دن قبل تمام سینیٹرز کو فراہم کر دی جاتی ہے تا کہ وہ مسودہ پڑھ کر اپنے موقف کی تیاری کر سکیں۔ یومِ جمعہ کی قرارداد نے یہ سب کچھ روند ڈالا۔

مجھے سینیٹ میں تین سال ہونے کو ہیں۔ یاد نہیں پڑتا کہ کبھی نمازِ جمعہ کے بعد بھی اجلاس ہوا ہو۔ ہفتہ اتوار کی چھٹی اور پیر کو شام کے اجلاس کے باعث اکثر سینیٹرز دور دراز کے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ 5 جنوری کو نمازِ جمعہ سے قبل اجلاس ختم ہونے کو تھا کہ پی ٹی آئی کی ایک خاتون نے کہا ”میں مسئلہ فلسطین پر کچھ کہنا چاہتی ہوں۔” چیئرمین سینیٹ نے فراخ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ نمازِ جمعہ کے بعد 2 بجے پھر مل لیتے ہیں۔ 2 بجے اجلاس شروع ہوا تو واحد رُکن پیپلز پارٹی کے سینیٹر شہادت اعوان، ایوان میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ جناب چیئرمین! تقریر کی خواہش مند خاتون بھی نہیں آئیں، بہتر ہو گا اجلاس برخاست کر دیا جائے۔ شہادت اعوان، قائمہ کمیٹی داخلہ میں شرکت کے لیے چلے گئے تو ”باپ“ اور سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے درجن بھر ارکان ہال میں آ گئے۔ دوسری جانب کی نشستوں پر صرف پی پی پی کے بہرہ مند تنگی اور مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر افنان اللہ موجود تھے۔ چیئرمین کی اجازت سے بہرہ مند تنگی نے خود کو ملنے والی دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال، بڑھتی دہشت گردی اور سکیورٹی معاملات پر زور دار تقریر کی۔ انہوں نے انتخابات کے التوا کا مطالبہ تو نہ کیا لیکن اِس نوع کے مطالبے کے لیے اچھی خاصی زمین تیار کر دی۔ یہی لمحہ تھا کہ 2018 میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹ میں آنے لیکن ثاقب نثار کے شہرہ آفاق فیصلے کے باعث دیگر مسلم لیگی سینیٹرز کی طرح ”آزاد“ قرار پانے اور مسلم لیگی بندھن سے واقعی آزاد ہو جانے والے سینیٹر دلاور خان نے قرارداد پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ چیئرمین نے کہا کہ یہ معاملہ ایجنڈے پر نہیں۔ اس کے لیے رولز کو معطل کرنا ہو گا۔ دلاور خان نے جیب سے کاغذ نکالا اور رولز معطل کرنے کی عرضداشت پڑھ دی۔ رولز معطل کر دئیے گئے تو سینیٹر دلاور نے اپنی قرارداد کا انگریزی مسودہ پڑھا۔ بلند آواز کے ذریعے رائے لی گئی تو ”بھاری“ اکثریت نے قرارداد کی حمایت کی۔ گیلری میں موجود رپورٹرز کے مطابق قرارداد کے خلاف ”نو“ (No) کی صرف ایک آواز سنائی دی جو ڈاکٹر افنان اللہ خان کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر تنگی، پی ٹی آئی کے سینیٹر گردیپ سنگھ اور مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کامل علی آغا کی خاموشی بھی ”ہاں“ میں شامل کر لی گئی۔ بہرہ مند تنگی اور گردیپ سنگھ کی نشستیں ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہیں لیکن ’ڈرامے‘ کے دوران دونوں ساتھ ساتھ جڑے بیٹھے رہے۔ قرارداد کے خلاف واحد تقریر بھی صرف سینیٹر افنان اللہ کی تھی۔ ایوان کے باضابطہ (IN ORDER) ہونے کے لیے کم از کم پچیس ارکان کی حاضری ضروری ہے ورنہ کورم ٹوٹ جاتا ہے اور اجلاس جاری نہیں رہ سکتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی رُکن نے کورم ٹوٹنے کی نشاندہی نہ کی اور اجلاس چلتا رہا۔

پیچ در پیچ کئی سوالات، جواب مانگتے ہیں۔ اس قرارداد کا بیج کس کے دماغ میں پھوٹا؟ کیا یہ واقعی خود رو تھا یا کاشت کیا گیا؟ خلافِ روایت، نمازِ جمعہ کے بعد اجلاس کیوں رکھا گیا؟ وہ دِن کیوں چُنا گیا جس دِن سینیٹ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو رہا تھا؟ قرارداد کے اصل اہداف و مقاصد کیا تھے؟ نہایت برق رفتاری کے ساتھ یہ قرارداد تمام متعلقہ اداروں کو کیوں بھیج دی گئی؟

کچھ حقائق اور بھی ہیں۔ سینیٹر دلاور خان، چیئرمین صادق سنجرانی کے سب سے قریبی دوست ہیں۔ سنجرانی صاحب سمیت قرارداد کے بیشتر ہمنوا، خود بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ایک اور ”دردِ مشترک” یہ ہے کہ سنجرانی صاحب سینیٹر دلاور خان سمیت بیشتر ’معاونینِ قرارداد‘ مارچ میں سینیٹ سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ الیکشن میں التوا امکانی طور پر اُن کی معیادِ رُکنیت بڑھا سکتا ہے۔ ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ سینیٹر دلاور خان اپنا سیاسی مستقبل، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام سے جوڑ چکے ہیں۔ ان کا بھائی اور بیٹا، دونوں نہ صرف باضابطہ طور پر جمعیت میں شامل ہو چکے ہیں بلکہ دونوں ہی جمعیت کے ٹکٹ پر انتخاب بھی لڑ رہے ہیں۔

حکومت اور متعلقہ اداروں پر قرارداد کا جواب لازم ہے۔ قواعد و ضوابط اِس کے لیے دو ماہ کا وقت دیتے ہیں۔ گمان یہ ہے کہ الیکشن کمشن اور دیگر ادارے جواب دینے میں زیادہ تاخیر نہیں کریں گے۔ یہ ایک رسم ہے جو جلد پوری ہو جائے گی۔ پُراسرار قرارداد کے محرکات جو بھی تھے، اس کے نتائج واردات کے بالکل برعکس نکلے ہیں۔ 8 فروری زیادہ قوی ہو گیا ہے۔ پتھر پہ لکیر مزید گہری، مزید نمایاں ہو گئی ہے۔ البتہ ایوان بالا کے مرتبہ و مقام پر ضرور ضرب لگی ہے اور ”اربابِ قرارداد“ بھی پارلیمانی کردار پر فخر کرنے کے بجائے اپنے کیے کی توضیحات، توجیہات، تشریحات اور تاویلات میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔

پارلیمنٹ کے ایوانوں کو شکار گاہ کی مچانوں کا درجہ دیتے ہوئے گھاتوں اور وارداتوں کے لیے استعمال کیا جانے لگے تو صرف ایوان ہی نہیں، جمہوریت بھی بے توقیر ٹھہرتی ہے اور وہ نمائندے بھی جنہیں اُجلی جمہوری اقدار کے تحفظ اور باوقار طرز عمل کی توقعات کے ساتھ ایوانوں کی زینت بنایا جاتا ہے۔ پوری قوم نے جمعۃالمبارک کی سہ پہر سینیٹ کے مطبخ میں تیار ہونے والی کھچڑی کو بدذائقہ قرار دے کر جس کراہت کے ساتھ اُگل دیا ہے، وہ اُسے پکانے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.