آنے والا دور تکنیکی ترقیوں سے بھرپور ہوگا۔ مصنوعی ذہانت، خودکار کاریں، اور نئی طبی دریافتوں نے ہماری زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی، اس سے نئے چیلنجز بھی پیدا ہو رہے ہیں۔نئے دور میں آب و ہوا میں تبدیلی، بے روزگاری اور سائبر سکیورٹی جیسے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تکنیکی ترقی اور مصنوعی ذہانت ہر شعبے میں انقلاب لا رہی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے چند برسوں میں خودکار کاریں سڑکوں پر عام ہو جائیں گی اور ڈرون ڈیلیوری سروسز بھی عام ہوں گی۔ صحت کے میدان میں بھی بہت سی حیرت انگیز تبدیلیاں جلد دیکھنے میں آئیں گی۔ نئی طبی دریافتوں سے کئی بیماریوں کا علاج ممکن ہو جائے گا۔ جینیاتی انجینئرنگ سے انسان کی زندگی کی مدت میں اصافہ ہو سکتا ہے۔ساتھ ہی آب و ہوا میں تبدیلی سب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آ رہی ہے۔ اگر ہم نے اس پر قابو نہ پایا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ آنے والے دور میں تکنیکی ترقی کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنی نوکریاں کھو سکتے ہیں۔ اسی طرح آن لائن دنیا میں جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سائبر سکیورٹی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ہم آنے والے دور کی بڑی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں؟ اس بات کا اندازہ ہمارا تعلیمی سسٹم اور اس کی ترجیحات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ نظام تعلیم میں زیادہ سے زیادہ تحقیقی اور تخلیقی امکانات کو پیدا کرنا اب ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں موجودہ فیکلٹی، ریسرچرز اور مینجمنٹ کے افراد کی نئی طرز پر ٹریننگز کرانا ہے۔ اس حوالے سے NAHE نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کچھ اقدامات ضرور کیے ہیں جن کا دائرہ کار مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
نیشنل اکیڈمی آف ہائر ایجوکیشن (NAHE)، جسے لرننگ انوویشن ڈویژن (LID) کے طور پر تیار کیا گیا تھا، اب پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے ذریعہ با ضابطہ طور پر NAHE کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ NAHE ملک بھر میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اندر فیکلٹی اور مینجمنٹ کی صلاحیت بڑھانے اور مسلسل پیشہ ورانہ ترقی کے لیے قومی مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔NAHE ایک طرح کے متحرک تعلیمی ماحول میں بہترین کارکردگی کے لیے ضروری مہارتوں، علم اور دیگر سہولیات کی مدد سے سے فیکلٹی اور مینجمنٹ کو اعلیٰ تعلیمی معیار کو بڑھانے کے قابل بنا رہا ہے۔
یہ باہمی تعاون پر مبنی تعلیمی ماحول کو فروغ دیتا ہے اور ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جہاں فیکلٹی اور سکالرز باہمی تعاون سے ترقی کر سکتے ہیں، تنقیدی جانچ کر سکتے ہیں اور علمی طور پر مل جل کر کام کر سکتے ہیں۔ اپنی ٹریننگ کے ذریعے سے NAHE دراصل تعلیمی ڈسپلن کو تشکیل دیتا ہے۔
اس کے کئی پروگرام متنوع سماجی، معاشی اور نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کے حصول میں یہ پروگرامز محروم کمیونیٹیز پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ایسے پروگرام مختلف اداروں میں فعال اور قابل فیکلٹی اور مینجمنٹ کے افراد تیار کرتے ہیں۔ کسی بھی ادارے میں کام کرنے والے افراد کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اصافہ ہی اس ادارے کی حالیہ ترقی کی رفتار اور اس کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے اور اس رفتار کو بہتر بنانے اور تیز تر کرنے میں NAHE موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر نور آمنہ ملک، ڈاکٹر سلیمان احمد (ڈائریکٹر) اور محمد سلیم قمر (ڈپٹی ڈائریکٹر) نے تھوڑے ہی عرصے میں ملک بھرکے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اپنی سروسز، کنسلٹنسی اور تعاون فراہم کر کے بہت سے امور کو بہتر بنایا ہے۔سلیم قمر صاحب نہایت فعال شخصیت کے مالک ہیں۔ جس سخت کوشی سے وہ ٹریننگ سیشن کے انتظامات اور ان کی مانیٹرنگ کے امور انجام دیتے ہیں وہ قابلِ داد ہے۔ میرے خیال سے NAHE کو ڈاکٹر سلمان عباسی (ایسوسی ایٹ پروفیسر) یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جیسے ماہر ٹرینرز کا میسر آنا بھی غنیمت سے کم نہیں ہے۔ ایسے ماہرینِ تعلیم سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں جو اپنی صلاحیتیں پوری متانت اور ذمہ داری سے بروئے کار لاتے ہیں۔
اعلیٰ تعلیمی کمیشن مجموعی طور پر بھی پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے بین الاقوامی تعاون اور ایجوکیشن کے تبادلے کو فروغ دینے کے لیے پْرعزم ہے۔ سٹرٹیجک شراکت داری پر ٹھوس اقدامات کے ذریعے اس کا مقصد عالمی تعلقات کو مضبوط بنانا اور تعلیم اور تحقیق کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔
ایسے اقدامات تعلیمی رہنماؤں اور فیکلٹی کے لیے پیشہ ورانہ ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ یہ سرپرستی، قیادت، اور STEM ایجوکیشن میں بہترین طریقوں کو فروغ دیتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ علم کے تبادلے اور رہنمائی کے مواقع کو آسان بنا کر ایجوکیشنل کمیونٹی کو مضبوط کرتے ہیں اور کام کی عمدگی کو فروغ دیتے ہیں۔
یوں NAHE عالمی سطح پر رسائی کی کوششوں سے پاکستانی یونیورسٹیوں کو بین الاقوامی تعلیمی منظر نامے میں فعال شراکت داروں کے طور پر پوزیشن دیتا ہے۔ ساتھ ہی یہ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیاں گلوبلائزڈ دنیا میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے اچھی طرح سے تیار ہیں۔
ہم اساتذہ کو اپ گریڈ کیے بغیر اور ان کی بہترین اور متواتر ٹریننگز کے بغیر جدید دور میں اپنے تعلیمی اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔ اکیسویں صدی میں، جدید تدریسی تکنیک کے بارے میں اساتذہ کی تربیت تعلیمی نظام کی مجموعی بہتری میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آج کل طلباء کو ماضی کے فرسودہ تدریسی طریقے استعمال کر کے مستقبل کے لیے تیار نہیں کیا جا سکتا۔ اساتذہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر طالب علم میں سیکھنے کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوں۔ اس طرح، انھیں تدریس کے ایسے طریقوں یا حکمت عملیوں کا اطلاق کرنا چاہیے جو ہر طالب علم کی ضروریات کو پورا کریں۔ ایک استاد کے طور پر آپ کے لیے اس حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے کہ آپ کے طلباء مختلف طرز کی سیکھنے کی صلاحیتوں کے حامل منفرد افراد ہیں۔ اگر آپ کو اپنے طلباء کی ضروریات کا واضح ادراک ہے تو آپ طلباء کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرتے ہوئے تدریسی مقاصد حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ اساتذہ کی تربیت آپ کو اپنے طلباء کے سیکھنے کے عمل میں موجود خلا کو پہچاننے اور پْر کرنے میں مدد دے سکتی ہے تاکہ آپ ان کے علم کی سطح کو بڑھانے میں ان کی مدد کر سکیں۔ در حقیقت مناسب مہارت، علم اور جدید ٹولز کے بغیر اساتذہ کے لیے ان چیلنجوں کی نشان دہی کرنا ممکن نہیں ہے۔ مسلسل تبدیلیوں کے دور میں اساتذہ کے تربیتی پروگرام نئی نسل کو جدید علم اور ہنر تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ سیکھنے کا بہترین تجربہ حاصل کر سکے۔
تبصرے بند ہیں.