غداری کا مجرم الیکشن لڑ سکتا ہے، معمولی غلطی پر تاحیات نااہلی کیوں؟ جسٹس منصور، منافق کافر سے زیادہ خطرناک ہے: چیف جسٹس

301

اسلام آباد: ارکان پارلیمنٹ کی آرٹیکل 62 ون ایف اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 232 کے تحت نااہلی کی مدت سے متعلق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے کیس کی سماعت شروع کر دی ہے۔

 

عدالت کے اس لارچر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

 

چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ گذشتہ سماعت پر ہم نے ریما عمر، عزیز بھنڈاری اور فیصل صدیقی کو عدالتی معاون مقرر کیا تھا۔جس میں سے ریما عمر نے اپنا تحریری جواب بھیجوایا ہے۔

 

درخواست گزار سجاد الحسن کے وکیل خرم رضا جنھوں نے گذشتہ سماعت پر تاحیات نااہلی کے حق میں اپنی رائے دی تھی۔

 

انھوں نے بینچ سے سوال کیا کہ یہ اپیلیں کس قانون کے تحت چل رہی ہیں۔ کیا آرٹیکل 187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کے لیے مقرر کی گئیں؟

چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں۔

 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ فوجی آمر لوگوں کو انتخابی دوڑ سے باہر رکھنے کے لیے اپنی مرضی کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایک آمر آ کر کہتا ہے کہ ڈگری کی شرط لازمی ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ صادق اور امین ہونا ضروری ہے۔

 

چیف جسٹس نے درخواست گزار سجادالحسن کے وکیل خرم رضا سے کہا کہ ’فوجی آمر کے سامنے آپ لوگ کوئی بات ہی نہیں کرتے۔‘چیف جسٹس نے کہا کہ ’ریپ کرنے والا انتخاب لڑ سکتا ہے مگر ایک سول نوعیت کے مقدمے کا سامنے کرنے والا سیاست سے تاحیات نااہل ہو جاتا ہے۔‘

 

چیف جسٹس نے وکیل خرم رضا سے کہا اب آپ دلائل میں آگے نہیں بڑھ رہے ہیں ’تھوڑا رفتار بڑھا دیں، ہم اس کیس کو بغیر حل کے نہیں چھوڑنا چاہتے۔

 

ایک اور وکیل نے جب اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات تو سچ ہے کہ فوجی آمروں نے آئین میں ترامیم متعارف کروائیں مگر اس کے بعد منتخب پارلیمان بھی ان ترامیم کے خلاف نہیں گئیں، لہٰذا اس کا مورد الزام صرف آمروں کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ ’یہ بات آپ کی درست ہے۔

 

وکیل خرم رضا نے عدالت کے دائرہ کار پر سوال اٹھا تے ہوئے کہاآرٹیکل 62ون ایف کی ڈکلیئریشن دینے کااختیار الیکشن ٹربیونل کے پاس ہے،،ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف اپیل  سپریم کورٹ   سنتی ہے ۔چیف جسٹس نے استفسار کیا ،، کیا 62 ون ایف ٹربیونل کو بھی تاحیات نااہلی کااختیار دیتا ہے۔سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62 ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے۔آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق نظرانداز نہیں کرسکتے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہلی کااختیار استعمال کرسکتا ہے تو یہ سپریم کورٹ کے پاس بھی ہوگا،،کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی پر کہا جاسکتا ہے آپ امین نہیں،کسی کو تاحیات الیکشن لڑنے سے تو روکا نہیں جاسکتا۔

 

انہوں نے ریمارکس دیے کہ تاحیات نااہلی کاآئین میں کہاں لکھاہواہے؟ بجلی بل یابینک کانادہندہ ہوتونااہلی ہوسکتی ہے۔ اسلام کوتاحیات نااہلی کیس میں نہ لائیں۔منافق کافروں سےزیادہ خطرناک ہے۔

 

آمروں نےاپنےلیےآرٹیکل62ون ایف کیوں نہیں رکھی؟ پارلیمنٹ نےآئین بنایا،ڈکٹیٹرنےآئین اورسیاستدان کوباہرپھینک دیا۔ مناسب وجہ بتائیں،یہاں بیٹھے5افرادپارلیمنٹ سےکیسےزیادہ عقلمندہیں۔

 

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ غداری ،زیادتی کامجرم سزاکاٹ کر الیکشن لڑسکتاہے۔ معمولی غلطی پر تاحیات نااہلی کیوں؟

 

 

وکیل خرم رضا نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈکلئیریشن دینے کا اختیار الیکشن ٹریبونل کا ہے۔ آرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لاء درج ہے۔ سپریم کورٹ نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ واضح بتائیں کہ تاحیات نااہلی کے حق میں ہیں یا نہیں ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ  بہتر ہو گا ہمیں الیکشن ٹریبونل کے اختیارات کی طرف نا لے کر جائیں ۔آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لا کی بات کرتا ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ  آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟  وکیل خرم رضا کا کہنا تھا کہ ٹریبونل سے آنے والے فیصلے کیخلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیار میں سنتی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ درست لیکن کیا 62ون ایف ٹریبونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے؟ یا تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سیدھا سپریم کورٹ کے پاس ہے؟ سوال تو یہ ہے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائر ہوتی ہیں ۔ الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے۔

 

وکیل خرم رضا نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ سپریم کورٹ اپیل میں آنے والے مقدمات پر فیصلہ دے سکتی ہے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا۔ ایک الیکشن میں کوئی گریجویٹ نہ ہونے پر نااہل ہوا اور اگلی بار گریجویشن کی شرط ہی نہیں تو اگلی بار نااہل کیسے ہو گا؟  ایک شخص دیانتداری سے کہتا ہے وہ میٹرک پاس ہے اس پر وہ اگلے الیکشن میں بھی نااہل کیسے ہے؟

 

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے جو تفریق بتائی اس سے متفق نہیں ۔ ایسے تو کوئی غیر ملکی بھی الیکشن لڑ کر منتخب ہو سکتا ہے۔شروع میں تو مسلمان صرف دو چار ہی تھے۔ اسلام میں توبہ کا تصور موجود ہے۔ اسلامی احکامات کے خلاف تو کوئی استدعا یا دلیل نہیں سنیں گے۔

 

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے آئین میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے صرف قانون کو واضح کیا گیا ہے۔  آپ آرٹیکل 62 اور 63 کی پہلی پہلی سطر پڑھیں۔ عدالت نے صرف 62ون ایف کی تشریح کرنی ہے۔  خرم رضا آپ کہتے ہیں ہم 62 اور 63 کو ملا کر نہیں تشریح کر سکتے۔

 

انہوں نے کہا کہ عدالتی ڈیکلیریشن کسی نہ کسی قانون کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔وہ قانون اب کہتا ہے یہ مدت پانچ سال ہو گی۔  وکیل خرم رضا نے کہا کہ  پارلیمانی بحث میں تسلیم کیا گیا 62 ون ایف مدت پر خاموش ہے۔

 

چیف جسٹس نے پوچھا کہ نااہلی کی یہ شقیں ایک ڈکٹیٹر نے شامل کیں درست یا غلط؟  یا تو ہم پھر ڈکٹیٹر شپ کو ٹھیک مان لیں۔ ایک ڈکٹیٹر آیا، دوسرا آیا، تیسرا آیا سب کو اٹھا کر پھینک دیا۔ پارلیمنٹ نے ایک قانون کتاب بنا کر ہمیں دی۔ ایک شخص ٹہلتا ہوا آتا ہے کہتاہے نہیں یہ سب ختم ۔ آمروں نے صادق و امین والی شرط اپنے لئے کیوں نہ ڈالی؟ آئینی ترامیم کا حوالہ رہنے دیں، ترامیم بھی گن پوائنٹ پر آئیں۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ  کچھ لوگوں نے کہا چلو آدھی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے۔ آئین کا تقدس تب ہو گا جب اسے ہم مانیں گے۔ یا تو ہم کہہ لیتے ہیں کہ بندوق کا تقدس مانیں گے۔ یہاں بیٹھے پانچ ججز کی دانش ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ کیسے ہو سکتی ہے؟  جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں وہ جھوٹا ہے۔

 

وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان نے تسلیم کر لیا کہ آئین خاموش ہے تو بھی آئینی ترمیم ضروری تھی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ 326 ارکان کی دانش کم اور پانچ ججز کی زیادہ ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان نے سزا دینی ہوتی تو آرٹیکل 63 کی طرح 62 میں بھی شامل کر دیتی۔

 

وکیل خرم کا کہنا تھا کہ پارلیمان نے نااہلی کو برقرار رکھی ہے لیکن اس کی مدت کا تعین نہیں کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ  اگر فیصلے میں لکھا جاتا کہ نااہلی کی مدت مقرر نہیں اس لئے نااہلی دو سال ہوگی تو کیا ہوتا؟ فیصلے کی کوئی نہ کوئی منطق ہونی چاہیے۔

 

خرم رضا نے کہا کہ دو سال نااہلی کا آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے تو تاحیات نااہلی کا بھی کہیں نہیں لکھا ہوا۔ خرم رضا بولے اگر عدالت 187 کا اختیار استعمال کرے تو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے غیرآئینی ہونے پر دلائل دوں گا۔

 

جسٹس محمد علی مظہر نے کاہ کہ ا الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کی؟ خرم رضا نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج کی گئی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ  نااہلی کی مدت کی تشریح پہلے سپریم کورٹ نے کی پھر پارلیمان نے۔ کیا پارلیمان کی تشریح عدالت سے کم تر ہے؟

 

خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان کا کام قانون سازی اور عدالت کا کام تشریح کرنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ  عدالتی ڈیکلریشن کے بغیر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہی نہیں ہوسکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کی بنیاد ڈیکلریشن ہے جس کی معیار اب مقرر کی گئی ہے۔

 

وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان نے تسلیم کیا ہے کہ آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پر آئین خاموش ہے۔ چیف جسٹس ایک ڈکٹیٹر نے ایبڈو کے ذریعے بھی کئی سیاستدانوں کو باہر کیا تھا۔میرے والد سمیت کئی لوگوں کو جنرل ایوب نے الیکشن کیلئے نااہل قرار دیا تھا۔  ڈکٹیٹرز کی جانب سے لائی گئی ترامیم کی حمایت کیوں کی جا رہی ہے؟

تبصرے بند ہیں.