دانشور طبقہ اپنے تئیں بڑا آرٹ تخلیق کرتا ہے نئے نئے خیال کو لفظوں کے پیرہن پہناتا ہے رنگوں سے موسموں کو کینوس پرڈھال لیتا ہے بات سیاست کی ہو تونعرے تراشے جاتے ہیں بڑے دانشور بیٹھے سطحی لوگوں کیلیے تقاریر لکھ رہے ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ بزدار کو ”اہل“ ثابت کرنے کے لیے ایسے ایسے دانشور خودرائیگاں ہوئے کہ جس کی مثال نہیں ملتی …دانشور طبقہ اپنے کمال فن اور اوج ہنر سے بڑے بڑے ہسپتال پل سڑکیں عمارتیں بناتا ہے بڑے بڑے ایوان تعمیر کرکے وہاں حکمرانوں کو بٹھاتا ہے …
دولت مند طقبہ تمام کا تمام آرٹ ایک چیک پہ سائن کرکے خرید لیتا ہے …
پلوں انڈر پاسز کی تعمیر میں ہاتھ کسی کے قلم ہوتے ہیں اور پھٹی کسی کے نام کی لگتی ہے۔
ریاست تخت تراشتی ہے اور سیاست دان ایک مشترکہ حکمت عملی ماتحت اس پر بیٹھتا ہے۔ سیاست دان کی تنہاحیثیت کچھ بھی نہیں ہوتی …اداروں کی جکڑن میں آخری دستخط کرنے والا شخص …اور بس …
رنگ ورس کی ہوس اور بس
مسئلہ دسترس اور بس
اس کے بعد پرانے طبقے نئے بہانے چند نعرے چندلالی پوپ حلقہ جاتی سیاست میں کئے گئے اخراجات کی بھرپائی اور آنے والے جلاوطن ہو، اسیری وکیلوں کی فیس اور دیگر لٹ مار کے بندوبست کرکے رخت سفر باندھا جاتا ہے۔
پرانے مردود حرام کی باری آتی ہے انہیں ”دھومانجھ“ قلعی کروایا جاتا ہے پرانے والے عدل کے درباروں سے دھو چمک کر پاک صاف ہوکر آجاتے ہیں اور نئے والے انہیں الزامات کی زد میں آجاتے ہیں جو کبھی وہ دوسروں پر لگاتے رہے …الزام لگانے اور الزام بھگتنے والے تو کارسیاست ہی کے دوسکے ہوتے ہیں جبکہ خریداریا طاقتور طبقہ یا بذریعہ طاقت وکرنسی خریدار طبقہ ان دونوں ظالم ومظلوم کو باری باری اقتدار و اسیری میں لاتا رہتا ہے ۔یہ خود ہی ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں ”تیسرے“ پر لگانے کی ان کی ہمت نہیں ہوتی …
تیسرا بااقتدار یا مراعات دینے والا (مراعات یافتہ نہیں) خریدار طبقہ حسن طاقت اقتدار آرٹ تخلیق سب کچھ خرید لیتا ہے یا خرید لینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
کسی بھی بڑے پینٹر مصور کے گھر اس کی سب سے مہنگی مشکل اور اعلیٰ تخلیق یعنی فن پارہ نہیں آویزاں ہوتا بلکہ بک بکا کرکسی گورنر ،مل اونر سیاست دان یا سیاست دان + کاروباری کے ہاں ٹنگا ہوتا ہے جو اپنے برش سے کئے گئے ”ٹچز“ سے ہی انحراف نہیں کر رہا ہوتا بلکہ پورے تخلیقی طبقے کا بھی مذاق اڑا رہا ہوتا ہے۔
خریدار اور اس کے مہمانوں کیلئے اس فن پارے کا مہنگا ہونا ہی سٹیٹس سمبل ہوتا ہے۔ اس کی تخلیق کے مراحل کی باریکی اور پس تخلیق معانی نہیں…
ایک وقت ایسا آتا ہے کہ تخلیق خود اپنے جائے مقام پر آویزاں خنداں ہوتی ہے۔
حکمران بھی بعینہہ تخت پر بٹھائے اور اٹھائے جاتے ہیں تاج پہنائے اور اچھالے جاتے ہیں۔
پاکستان تیزی سے ”پل چرخی“ کی طرف رواں دواں ہے راجہ انور نے پل چرخی لکھی تو پنجاب یونیورسٹی میں اس کی تقریب پذیرائی رکھی گئی۔ مجھے نظامت کرنا تھی محترمہ مریم نواز تب ابتدائے سیاست میں وہی تشریف لائیں۔ پل چرخی کا مدعا یہ تھا کہ یہ افغانستان کی سب سے بڑی جیل ہے۔ جہاں پر تخت سے اترنے والی پوری کی پوری کابینہ قید کے دن کاٹتی ہے اور پہلے سے اسیر کابینہ تخت کی طرف چل پڑتی ہے۔ مع وزیر اعظم …اس ”پل چرخی“ میں کچھ نیا نہیں ہوتا تبدیلی کے خواب دیکھے ہی نہیں جاتے تو ریزہ ریزھ کیونکر ہوں گے۔
گزشتہ تیس پینتیس برس جو میرے اپنے شعور کے ہیں ( کہ اس سے پہلے تو کچی نیندوں ادھ کھلی آنکھوں اور وہم ووبال کے زمانے ہیں) میں یہ ’’پل چرخی‘‘بار بار دیکھ رہی ہوں اسیروں کی رہائی اسیروں کی کلین چٹ اسیروں کی تخت پوشی اور تخت برادر لوگوں کی اسیری تنہائی سرزنش (اور آج کل نئی اصطلاح سافٹ ویئراپ ڈیٹ) مسلسل ہے۔ مقام حیرت صرف دوطبقات پر ہے مجھے …
ایک وہ جو چند برس کی حکمرانی (جو کبھی بھی معطل ہوسکتی ہے ) پر نازاں ہمت مرداں سے نعرے مارتے آتے ہیں، دوسرے وہ جو ان کے جلسوں جلوسوں، عوامی مقامات اور نجی محفلوں میں ان کے حمایتی بن کر لڑتے جھگڑتے ہیں۔
آج کل جو بڑے لیڈر ہونے کے فضائل مروج ہیں ان میں جیل جانا مقدمات اور ایف آئی آر ہونا شامل ہیں قطع نظر اس کے کہ جرائم اخلاقی ہیں یا قانونی بس اسیری جیسے ایک ڈگری ہے وہاں بھی اسیروں کی اسیری کی مدت انہیں زیادہ یا کم محترم کرتی ہے۔
سارے کے سارے بقول ان کے پھانسی کی کوٹھری میں جاتے ہیں مگر نہ جانے وہاں کیسا تیرتھ ہے کہ ”پوتر“ ہو کر دوبارہ گدی نشین ہوجاتے ہیں …
آج کل اسیری کے ساتھ ساتھ ایک اصطلاح اور بھی ہے اور وہ ”جلاوطنی“ کی ہے یہ جلاوطنی نہیں جو فیض احمد فیض کو لینن پرائز دلاتی ہے جو کیمونزم کی خاطر ہے اور جو انقلاب کی کوششوں میں نصیب ہوتی ہے مگر موجودہ جلاوطنی نہایت پرآسائشں ہوتی ہے بڑے بڑے لگژری بنگلوز لائف سٹائل وطن کی سیاسی ڈوریں اور سیاسی کرسیوں کے دعوے داروں کی بیٹھکوں والی …جب چاہیں وہیں پاکستان کا دربار سج جاتا ہے بڑے بڑے وکیلوں قانونی موشگافیاں کرنے والے اور آئنیوگان کے طرز حکمرانی کے معاملے طے ہوتے ہیں۔
مگر کریڈٹ پر یہ جلاوطنی بھی”سند“ کے طور پر کام آتی ہے جہاں بڑے بڑے ڈاکٹرز آئندہ کی پنج سالہ حکومت کیلئے صحت مند کر کے بھیجتے ہیں۔
ان اسناد کے علاوہ یہ خریدار طبقہ جب چاہیں بین الاقوامی اداروں سے بھی حمایت خرید سکتا ہے۔ ایسے ایسے سروے آجاتے ہیں کہ بندہ دانتوں میں انگلیاں داب لے …
تو جناب آج نوحہ لکھنا تھا اجناس اور خریدار کا جس میں ابھی تک خریدار کی برتری نظر آرہی ہے اور فن بکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اعلیٰ سے اعلیٰ شاعری گائیگی بڑے بڑے ڈرائنگ روم کی زینت بن جاتی ہے۔
دیوار پر ٹنگی ہوئی مہنگی پینٹنگ مسکراتی ہے سازوں آوازوں اور شاعری کی تحقیر پر خنداں زن …یہ لوگ بڑے قیمتی بلابازوں کے بیٹ بھی خرید لیتے ہیں ومبلڈن میں جتوانے والا ٹنس بھی …گردے توخیر عام بکتے ہیں۔
آخر میں نوحہ…تھوڑا سافرق بیان کرنا چاہتا ہے جوہے تو مہین سا مگر جب فنکار کا دل ٹوٹتا ہے خواب شکستہ ہوتے ہیں آنکھوں میں کانچ چبھنے لگتا ہے تو فن کا مینہ (بارش) کھل کر برستا ہے … اور جب سرمایہ کار کا دل شکستہ ہوتا ہے کاروبار میں گھاٹا پڑتا ہے تو وہ سیدھا کارڈیالوجی جاتا ہے …
تبصرے بند ہیں.