انسانی آنکھ نے معصوم کلیوں کے خلاف ایسی جنگ شاید ہی پہلے دیکھی ہو جس میں کرہ ارض میں رہنے والے تمام فرعون اکٹھے ہو چکے ہیں۔ کوئی براہ راست حملے کررہاہے، کوئی اتحادی بن کر مدد کر رہا ہے توکوئی بالواسطہ کردار ادا کر کے معصوم کلیوں کی نسل کشی میں حصہ ڈال رہا ہے۔ ابلیس کے پیروکاروں نے رعونیت بھرے انداز میں جنگ بندی کی تمام اپیلیں مسترد کر دی ہیں۔ اللہ کی زمین پر یہ کیسی جنگ ہے؟ جو بے گناہ بچوں کے خلاف لڑی جارہی ہے، جہاں ملعون یہودیوں نے ابلیس کے رفقاء کے ساتھ مل کر 4000سے زائد نہتے بچوں کے چیتھڑے اڑا دیئے۔جبکہ 1100 ماؤں کے لخت جگر منوں ٹن ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کی سسکتی، تڑپتی زندہ لاشوں کی حالت کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے؟ 7000 نوعمر ہسپتال کی راہداریوں میں شدید زخمی حالت میں موت وحیات کی کشمکش میں ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی شہادت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود وحشت کا یہ دجالی کھیل رکا نہیں بلکہ پوری شدت سے جاری ہے۔ جہاں ہر پانچ منٹ بعد مسلم بچہ فرعونی نسل پرستی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ یہ کیسی جنگ ہے جہاں نہتے اور بے گناہ بچوں کا پانی، ادویات اور غذائی خوراک پر پابندی لگا کر چاروں طرف سے گھیر کرشکار کیا جارہا ہے؟۔ گلی کوچوں، فٹ پاتھوں، سڑکوں پر پھیلی ہوئی بے گورکفن لاشوں کے لیے اب کوئی جگہ باقی نہیں بچی۔لیکن دشمنِ دین کا رقصِ ابلیس تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
یہ کیسی جنگ ہے؟ معصوم کلیوں کو کھلے آسمان کے نیچے مسلنے کے لیے خونی درندوں کے سامنے پھینک دیا گیا ہے۔ جبکہ ان کی مدد کرنے والوں کو پابند وسلاسل کر دیا گیا، ان کے ہاتھوں کو جکڑ دیا گیا۔ یوم الحساب کو اگر معصوم کلیوں نے اللہ سے شکایت کردی کہ جب تیرے باغی ہمیں زندہ جلا رہے تھے کچل رہے تھے نوچ رہے تھے۔ اپنے ماننے والوں سے پوچھ ذرا پوچھ یہ ہماری مدد کو کیوں نہیں آئے؟۔ جبکہ ایسی قیامت خیز حالت میں تمہارا اور تمہارے نبی مجاہد اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم واضح تھا۔ ایمانی حمیت سے عاری اے امت، اگر رب ِ ذوالجلال والقہار نے پوچھ لیا، تب کیا جواب دو گے؟۔ یہ کیسی جنگ ہے؟ جہاں ماؤں کے پیٹ میں پرورش پانے والے چند ماہ کے بچوں کو میزائلوں کے ذریعے شہید کیا جا رہا ہے۔ ماں کی چھاتی سے چمٹے دودہ پیتے معصوموں کو چیتھڑوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ کی یہ کیسی جنگ ہے؟ جہاں بے رحم درندے گھروں میں کھلونوں سے کھیلتے ہوئے بچوں پر آسمان سے آتش و آہن کی برسات برسا رہے ہیں۔ یہ کیسی جنگ ہے؟ جہاں نومولود کلمہ توحید کی پہلی آواز سننے کی بجائے بموں، میزائلوں کے پھٹنے، جنگی طیاروں کی گھن گرج اور گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سنتے ہیں۔ کیا ان نومولودوں کے خوف کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے؟ جہاں پہلی آنکھ کھلتے ہی اپنے پیاروں کی گلی سڑی لاشیں دیکھنا پڑتی ہیں۔ کیا کوئی ان معصوموں کی کیفیت محسوس کر سکتا ہے۔؟ کیا اللہ کی مخلوق نے ایسی جنگ دیکھی ہے کہ جہاں صرف ایک ایک محلے میں ایک ایک ٹن کے چھ چھ بم برسا کر پورے رہائشی محلے کو تاراج کر دیا گیا اور والدین اپنے جگر گوشوں سمیت بموں کی آگ کی حدت سے جل کر خاکستر ہو گے۔ جنگ تو بڑوں کے درمیان ہوتی ہے لیکن یہ کیسی جنگ ہے؟ کہ انسان نما درندے نومولودوں، شیرخواروں، نہتے اور نابالغ بچوں کے خلاف مہلک ترین اسلحہ وحشیانہ طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ اللہ کی سرزمین پر فرعونیت ایک دفعہ پھر پوری رعونیت سے سر کشی پر اتر آئی ہے آج جس میدان کو نہتے اور بے گناہ بچوں کے خون سے رنگین کیا جارہا ہے۔ مت بھولنا اے دشمنِ دین: یہی ہر مجدون کا علاقہ تمہاری نسلوں کے خاتمے کا سبب بنے گا، ان شاء اللہ
یہ کیسی جنگ ہے؟ جہاں نسل پرست یہودی محض تین ہفتوں کے دوران 19ہزار ٹن بارود برسا چکا ہے۔ ہر کلومیٹر کے فاصلے پر تقریباََ 50 ٹن سے زائد بارود برسا کر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والوں کے لیے غزہ جہنم زار بنا دیا گیا۔ یہ کیسی جنگ ہے؟ جہاں والدین کے سامنے شیر خوار، روتی، بلکتی، سسکتی معصوم کلیوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے۔ حقیقت میں یہ اللہ اور اس کے رسول مجاہد اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ ہے۔ جہاں ابلیس کے تمام لشکر نہتے مسلمان بچوں کے خلاف صف آراء ہو چکے ہیں۔ دراصل یہ آخری معرکوں کا ہی تسلسل ہے۔ اپنے مرمٹنے کے خوف سے دشمن ذہنی توازن کھو چکا ہے۔ یہ کیسی جنگ ہے؟ اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر بلک بلک کر اپنے بچوں کی سلامتی کی بھیک مانگ رہا ہے لیکن وقت کے فرعون، سفیر موصوف کی بے بسی کا تماشا دیکھتے رہے۔شیطانی درندوں کا شر پوری شدت سے پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ غزہ کی معصوم کلیاں اپنے پیاروں کے بازؤں میں لٹکتی لاشے بنی بے نور نظروں سے متلاشی ہیں کہ اے صلاح الدین ایوبیؒ تم کب آؤ گے؟ اے خالد ابن ولیدؓ تم کہاں چلے گے ہو؟۔ آہ عمرؓ ابن خطاب کا انتظار کرتے کرتے فاسفورس کی ہلاکت خیز بو سے اکھڑے اکھڑے سانسوں کے ساتھ اپنی جان آفرین کے سپرد کر دی۔ اے امت مسلمہ تو غفلت کی نیند سوتی رہی تیرے بچے کٹتے رہے۔ تو دنیا کی عیش وعشرت حرص وہوس میں کھوئی رہی۔ تیری معصوم کلیاں تیرے سامنے زندہ لاشوں میں تبدیل ہوتی رہی۔ غیرت حمیت سے عاری اے امت مسلمہ: تمہارے لیے اب کوئی راہ فرار نہیں، (اللہ کا عذاب) تباہی وبربادی تمہارا مقدر بن چکا ہے۔
تبصرے بند ہیں.