حسن نیت کے باوجود اگر کسی اقدام کا ثمر مضر ہو تو مراجعت میں حجت کیسی۔ یہ تسلیم کرنے میں کیا تا مل و تردد کہ اقوام و ملل کے کمزور کندھے پہاڑ جیسی اغلاط کا بوجھ اٹھایا نہیں کرتے۔پیپلز پارٹی پھر ماقبل میثاق جمہوریت والی ہمالیائی غلطیوں کو دہرانے چلی ہے؟مسلم لیگ انتخابات کی تیاریوں کے لیے یکسو ہے اور نواز شریف نئی ترتیب سے صف بندی کرنے چلے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی؟پیپلز پارٹی نے سوشل میڈیا پر ایک ہاہا کار مچائی ہے،طوفان برپا کیا ہے اور ایک غل مچا ہے کہ ہائے ہائے نواز شریف کو الیکشن جتوانے کے جتن جاری ہیں۔جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں توں توں بلاول بھٹو پر تشنج کی حالت اور تشتت کی کیفیت طاری ہونے لگی ہے۔کہنے کو تو وہ کہا کیے کہ اب ہم ماضی کی سیاست نہ کریں گے مگر پی پی کے جیالے سوشل میڈیا پر 80 اور90 کی دہائی میں پہنچے ہوئے ہیں۔پیپلز پارٹی کے اعصاب پر ایک طرح کا خوف سوار ہے جو ثبوت ہے کہ نواز شریف چوتھی بار بھی مقدر کے سکندر ٹھہریں گے۔یہ تو خیر ابھی ممکن نہیں کہ پاک سر زمین پر گلاب کے پھول کھلیں،چنبیلی کی کلی چٹکی ہو یا پھر زیتون کی شاخ لہلہاتی پھرتی ہو۔لیکن یہ تو کوئی مشکل نہیں کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں انتخابی معرکے میں سیاسی وقار کا مظاہرہ کریں۔ماضی کے الزام و دشنام،لڑائی جھگڑے اور قصے کہانیاں گہرے کنویں میں دفن کریں اور جمہوری لحاظ سے آگے بڑھیں۔
شاعر مچل جائے تو وصل کی آرزو کرتا ہے، بچہ بہل جائے تو کھیلنے کو چاند مانگنے لگتا ہے اور اگر پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ ن کی جیت کا یقین ہو جائے تو وہ نواز شریف پر چاند ماری کرنے لگتی ہے۔ ابھی نواز شریف نے نئی صف بندی کے لیے اجلاس و اجتماع اور نئی ترتیب کے لیے جلسہ و جلوس شروع ہی کیے ہیں کہ سیاسی حریف میثاق جمہوریت کو بھلا کر اپنی پرانی روش پر چلنے لگے ہیں۔ نواز شریف کی شکست کا خواب آنکھوں میں سجائے پیپلز پارٹی اب تحریک انصاف کا دست و بازو بننے کی سوچ میں غلطاں و پیچاں ہے۔ اب بلاول بھٹو کو کپتان کی یاد ستانے لگی ہے اور نواز شریف برے لگنے لگے ہیں۔کوئی جائے اور بلاول کو بتائے کہ حضور اپنی ساکھ کو بیساکھیوں کے سہارے کھڑا کرنے کے بجائے اپنے منشور پر انتخابی مہم استوار کیجئے۔ اوروں کو تو چھوڑیے پی پی کے دانشور ٹائپ حضرات کا بھی حال پتلا اور اکہرا رہا۔انہیں بھٹو کی محبت اپنا محاسبہ نہیں کرنے دیتی اور نواز شریف کی عداوت تنقیدی تجزیے سے روکے رکھتی ہے۔ وائے افسوس کہ پاکستانی سیاسی جماعتیں آگ سے گزرنے کے بعد بھی کندن ہو نہ سکیں اور بحرانوں سے نکلنے کے بعد بھی پختہ ہو نہ پائیں۔ پروجیکٹ عمران کی بدولت مسلم لیگ اور نواز شریف کوآگ کے دریا سے گزرنا پڑا بلکہ جبرکے سمند رکا سینہ چیر کر ساحل پر آنا پڑا۔آج اگر نواز شریف کے لیے ہوا سازگار، فضا ہموار اور سیاسی موسم سہانا ہے تو پیچھے آزمائشوں اور قربانیوں کی پوری تاریخ بکھری پڑی ہے۔اس لحاظ سے پیپلز پارٹی کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرنا اور راستہ دینا چاہئے۔
اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی رکھنے اور اختیارات کی سراغرسانی پانے والے بتاتے ہیں نواز شریف کی نئی صف بندی میں اب الیکشن سے آگے کی چیزیں ٹھہریں۔ نئی ترتیب میں معیشت پہلے رتبے پر ہو گی۔ دوسرے درجے میں وہ پاک بھارت تعلقات کا دھاگہ وہیں سے گانٹھیں گے جہاں سے ٹوٹا تھا۔تیسرے مرحلے میں عوام کی خوشحالی اور مہنگائی میں کمی پر کام ہو گا۔کہا جاتا ہے جاتی امرا میں ابھی سے مستقبل اور آئندہ کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ شاید یہی وجہ ٹھہری کہ بلاول بھٹو کو اپنا خواب چکنا چور ہوتا نظر آیا اور انتخابی نتائج سے قبل ہی ان کے نرالے نالے سنے جاتے ہیں۔حیرت ہے۔حیرت سی حیرت ہے؟ زرداری کی جانب سے وہ گرم ماحول اور تلخ معاملہ نہیں جو ان کے صاحبزادے کی جانب سے ہے۔البتہ نواز شریف یا مریم نوازکی طرف سے ہی نہیں،دوسرے لیگی لیڈروں کی سمت سے بھی تاحال اک وقار اور اعتبارکا مظاہرہ ہوا۔گماں گزرتا ہے باپ سیاست کا اک نیا باب رقم کرنا چاہتا ہے اور یہ سیاسی باب مثبت اور معتبر ہوگا۔دلوں اور نیتوں کا حال تو اللہ جانتا ہے لیکن زرداری صاحب سے ڈھلتی عمر میں کم ازکم شائستگی کی توقع بہت سوں کو ہے۔وزیر اعظم کے ضمن میں تو خیر کوئی ابہام و اشکال نہیں رہا لیکن آئندہ صدر مملکت کے بلند منصب پرکون متمکن ہو گا؟اک ذرا ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لیجئے کہ چند ماہ بعد اس راز سے بھی پردہ اٹھا چاہتا ہے۔
آنے والے سیاسی موسموں میں اگر خزاں رک نہ گئی تو پھر بہت کچھ بدل جائے گا۔ اگر منہ زور طاقت کا جن دستوری بوتل میں بند رہا اور جمہورکے شعور پر برابر اعتبار جاری رہا تو مصیبتیں اور آفتیں کم ہوتی جائیں گی۔ جاننا اور ماننا چاہئے یہ سب اگر مگر کی باتیں ہیں کہ یوں ہوا تو ووں ہو جائے گا۔سچ جانیے تو پاکستان آج ایسے انہونے دوراہے پر آن کھڑا ہے کہ اس سے پہلے ایسے مرحلے نہ آئے۔اب پاکستانی سیاستدانوں کے لئے سکون کی نیند سونا کچھ آساں نہیں۔شاید یہ انہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو کسی امپائر کی انگلی کے بھروسے سوتے یا جیتے ہیں۔سامروں اور ساحروں کی مصنوعی مقبولیت اور ان کے اسطوری موقف کی غیر محسوس سرایت کے آگے شاید آئین کی چھوٹی موٹی رکاوٹیں یا ننھی منی کاوشیں اب برگ و بار لائیں۔ مفاہمت کے تحت سیاسی نظام کی پختگی اور پارلیمانی برتری کا سہانا نعرہ اب سیاستدانوں سے قربانی مانگتا ہے۔ جان سے بھی بڑھ کر بھی قیمتی چیز کی قربانی۔ باالفاظ دیگر یوں کہیے کہ انا کی قربانی مانگتا ہے۔بلاول بھٹو کی شعلہ بیانی اورگرم کلامی کو چھوڑیئے زرداری صاحب کی خاموشی دیکھئے بس۔نئی صف بندی میں جب پردہ اٹھے گا تو شاید بڑے بڑے ہوش کھودیں اور چلا اٹھیں کہ ہوا کیا ہے۔اک ذرا صبر کہ انتخابی مہم کے بعد اونٹ کی کروٹ کا پتا پڑ جائے گا۔
تبصرے بند ہیں.