جس طرح کسی مقدمہ میں اس کے مختلف پہلو اجاگر کرنے کے لیے مختلف قوانین اور ان کی دفعات، سیکشن یا آئین کے آرٹیکل کو ساتھ ملا کر پڑھنے یا لکھنے سے معاملہ کی وضاحت ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات بھارتی عدالتوں کے حوالے اور بلیک ڈکشنری کا سہارا لینا پڑتا ہے اسی طرح ہماری معاشرت کی وضاحت کے لیے یہاں پھیلی انگنت غزہ کی پٹیاں آباد ہیں۔ جن کے حالات اور واقعات کا تذکرہ کیے بغیر بات کی وضاحت نہیں ہو سکتی۔ کچھ مناظر ہیں بالکل چند مناظر جن میں ایک تو یہ ہے کہ ان دنوں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بہت زیادہ تھی، یوسف رضا گیلانی کا دور تھا، بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے ایک رینٹل پاور پلانٹ معاہدہ ہوا جو غالباً ہمارے سمندروں میں لنگر انداز بھی ہو گیا۔ مگر اس وقت اپوزیشن اور میڈیا فیم کے مریض جو اپنی موت کی خبر بھی اخبار میں خود پڑھنا اور ٹی وی میں دیکھنا چاہتے تھے، افتخار محمد چودھری سیاسی فیصلوں اور خبروں میں رہنے کے مرض میں مبتلا تھے نے رپھڑ ڈال دیا۔ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم (سابق) کا نام ہی راجہ رینٹل رکھ دیا گیا۔ قیامت کی لوڈ شیڈنگ چل رہی تھی، اخبار میں خبر پڑھنے کو ملی کہ 24 گھنٹے بعد بجلی آنے پر موبائل فون پہلے چارج کرنے پر تلخ ہو کر ایک شخص نے اپنے سگے بھائی کو قتل کر دیا۔ پھر ایک خبر جو بہت دن دلوں کو دکھی کیے رہی، بلوچستان میں ایک مسلک کے قبائلی کئی دن رات 80 سے زائد لاشیں رکھ کر احتجاج کرتے رہے۔ یہ احتجاج ہمارے ہاں آسمان کو دیکھنے کو ملا ہو گا۔ پھر وزیراعظم اور وزیر داخلہ گئے اور لاشوں کی تدفین کی گئی۔ پھر اسی طرح کا منظر دیکھنے کو ملا، بلوچستان میں ہی شہادتیں ہوئیں، لواحقین نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم آئے تو ہی ہم تدفین کریں گے۔ مگر وزیراعظم نے کہا کہ بلیک میل نہیں ہوں گا پہلے دفن کریں پھر میں آؤں گا۔ کئی روز گزر گئے مگر وزیراعظم نہیں گئے۔ تدفین ہو گئی۔ یہ وزیراعظم عمران نیازی تھے۔ جن کے لیے ایک اینکر فرماتے ہیں کہ عمران کو جیل میں ہی رہنے دیں، صرف اعلان کریں کہ ان کا کیک کاٹا جائے گا اور ریگل چوک میں پورا لاہور آ جائے گا۔ شاید بھول رہے ہیں کہ جب نیازی صاحب کو ریاست، عدالت اور مختلف سیاسی جماعتوں اور جنونیوں کی پوری حمایت حاصل تھی، ان کے دونوں بیٹے بھی ٹرک پر سوار تھے، سارے دن لاہور کی خاک چھاننے کے باوجود سات آٹھ ہزار سے زائد لوگ نہ تھے، بعد میں طاہر القادری کے لوگوں نے رونق لگائی۔ بات دوسری طرف نکل گئی ان کو میرا جواب ہے خاطر جمع رکھیں اگر انتخابات ہوئے اور نواز شریف ملک میں ہوئے تو لاہور میں میاں نواز شریف کا امیدوار ایک حلقے میں اتنے ووٹ لے گا کہ نیازی صاحب پورے لاہور کے تمام حلقوں سے اتنے ووٹ نہ لے سکیں گے۔ یہی صورتحال سندھ اور کراچی میں بلاول بھٹو کے ساتھ ملاکھڑا ہونے پر ہو گی۔ بہرحال چلتے ہیں اگلی ناقابل فراموش خبر کی طرف، ایک شخص نے غربت کی وجہ سے اپنے بیٹے کو بغیر کفن کے دفن کر دیا بعد میں اہل علاقہ (فیصل آباد) کے لوگوں نے قبر کشائی کر کے اس بے کفن کو کفن پہنایا۔ سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کے ساتھ ٹریجڈی تو شاید میں اگلی دنیا میں بھی نہ بھول پاؤں مگر اس وقت وزیراعلیٰ بزدار تھا جس وجہ سے فوری انصاف نہ ہو سکا۔ ویسے ہماری معاشرت کی گنگا بھی الٹی ہی ہے۔ سال دو سال پہلے لاہور کی ایک سماجی حیثیت رکھنے والی شخصیت کو شہر کا نمبر ون ڈان ڈکلیئر کر کے جن پولیس آفیسرز نے گرفتار کیا، ایک فیک ایف آئی آر بنائی گئی بعد ازاں مساجد میں اعلانات کرائے گئے۔ میں نے تب لکھا تھا، اس وقت کے CCPO اور آئی جی پولیس کے متعلق بھی اگر مساجد میں اعلان کرا دیے جائیں تو ہزاروں نہیں تو سیکڑوں لوگ زیادتی کی شکایات لے کر آ جائیں گے۔ بعد ازاں صفائیاں پیش کرتے رہے کہ میں نہیں فلاں تھا، اصل حکم فلاں کا تھا، بہرحال انصاف یہاں بالکل صاف ہے۔ پہلی اپیل دنیا بھر میں کسی بھی مقدمہ میں بطور حق سنی جاتی ہے مگر ہماری سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے صرف ایک شخص کو مد نظر رکھتے ہوئے یعنی میاں نواز شریف یا دیگر لوگوں کو یہ حق آئندہ تو دیا مگر سابقہ مقدمات میں نہیں دیا کہ کہیں اُن میں سے کسی کو انصاف نہ مل جائے۔ ابھی یہ خبریں تو پرانی نہیں ہوئیں کہ پولیس ملزم کا ریمانڈ مانگے اور عدالت مقدمہ ختم کر دے۔ ہائی کورٹ کا ہائی پاور بینچ (جسٹس سیٹھ وقار) سزا سنائے اور سپریم کورٹ جانے کی غرض سے جج صاحب وہ عدالت ہی ختم کرنے کا حکم سنا دیں۔ جسٹس منیر کا فیصلہ، بھٹو صاحب کی پھانسی، زرداری اور محترمہ پر مقدمات کے قصے تو نئی نسل کو یاد نہیں مگر حالیہ دنوں میں عدالتیں جو کریز سے باہر آ کر کھیل رہی ہیں، جس طرح بزدار دور میں ہر چند مہینے بعد ٹرانسفر پوسٹنگ کی سیل لگی رہی کوئی نئی بات نہیں، کوئی ایک تعمیری کام نہیں ہوا، کوئی عوامی فلاح کا قانون نہ بنا۔ جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ اور بس جھوٹ میں سچ کہیں یوں کھو گیا جیسے ساؤتھ افریقہ میں کوئی نامعلوم کالا مارا جاتا ہے۔ بے روزگاری، وطن عزیز سے ہر طبقہ کے لوگوں کی بیرون ملک ہجرت کے سلسلے، مہنگائی، جرائم میں اضافہ، انصاف ناپید، ہر کسی کی عزت غیر محفوظ، دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بننے کا دعویٰ کرنے والا ملک اور قوم، ملک دو لخت ہونے کے بعد کم از کم 9 قومی نظریات بلکہ انگنت قومی و مسلکی نظریات میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ضلع کچہری، تحصیل آفس، رجسٹریشن آفس، واپڈا، تھانہ غرض یہ کہ کسی بھی سرکاری یا نیم محکمہ یا شعبہ، بازار، مارکیٹ، ٹریفک، مکتب کے حالات مد نظر رکھیں۔ پرائیویٹ سکولوں کے بچوں کی فیسیں اور نوکریاں یا روزگار ناپید، ولیمہ ہاؤس کو مات دیتے ہسپتال اور ڈاکٹروں کی فیسیں آپ معاشرت پر جدھر بھی نظر دوڑائیں اور ان سب کو ایک ایک خبر بنائیں پھر اِس خبر کو اُس خبر کے ساتھ ملا کر پڑھیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کی شادی پر ہزار، 500 کے نوٹوں کی گڈیاں پنکھوں میں ماری گئیں۔ کوئی تنخواہ دار تو نہیں مار سکتا۔ اُس بازار کی یاد تازہ کر دی اس انداز نے۔ جسٹس اسجد جاوید گھرال کے بیٹے کی شادی کی خبر اور روداد کو آج کی معاشرت کے ہر پہلو کی خبر، غزہ اور کشمیر کی خبروں سے ملا کر پڑھیں تو وضاحت ہو جائے گی۔
تبصرے بند ہیں.