یہ تحریر ویسے تو ہر اُس انسان کیلئے ہے جو صاحبِ اولاد ہے لیکن خاص اُن دوستوں کیلئے جن کے گھروں میں ننھی منی بیٹیاں ہیں۔ وہی بیٹیاں جن کے بارے میں رسالت مآبؐ نے فرمایا کہ ”بیٹیوں کے باپ کو بُرا مت جانو کیوں کہ میں خود بیٹیوں کا باپ ہوں“۔ میرے نزدیک اولاد مذکر یا مونث نہیں ہوتی صرف رحمت اور احسان ہوتا ہے۔ جن کے پاس بیٹی نہیں وہ بیٹی کیلئے ترس رہے ہیں اور جن کے گھروں میں بیٹا نہیں وہ روزانہ بیٹے کیلئے سجدہ ریز ہوئے ہوتے ہیں اور جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں وہ روزانہ آسمان کی طرف دیکھ کر بلا امتیاز بیٹا اور بیٹی صرف اولاد کے تمنائی ہیں۔ ایسے مناظر روزانہ میں اور آپ اپنے گرد و نواح میں دیکھتے ہیں۔ میرے نزدیک اولاد کی محبت فطرت نے انسان میں ودیعت کر رکھی ہے۔ میں نے کمزور ترین جانور کو اپنے سے سو گنا زیادہ طاقتور اور خونخوار درندوں سے صرف اولاد کیلئے لڑتے اور مرتے دیکھا ہے۔
ہزاروں تحاریر وہ سب کچھ سمجھانے سے قاصر ہوتی ہیں جو چند سیکنڈ کی فوٹیج انسانوں کو سمجھا دیتی ہے۔ میں کبھی مجرم کا حمایتی نہیں رہا خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اور مدعی جتنا مرضی کمزور ہو اُس کی حمایت سے دستبردار ہونا اپنے انسان ہونے کی نفی تصور کرتا ہوں۔ مجھے آج بھی وہ صبح یاد ہے جب ایف آئی ا ے کی بلڈنگ پر پہلا خود کش حملہ ہوا تو پورا لاہور لرز اٹھا تھا۔ وقوعہ چونکہ گھر سے دو سو میٹر کے فاصلے پر تھا سو فوراً جائے وقوع کی طرف دوڑ لگا دی اور جب میں گھر سے باہر نکلا تو میں نے مائیں ننگے سر اور باپ ننگے پاؤں سکولوں کی طرف دیوانہ وار بھاگتے دیکھے۔ اُس وقت تک میرا کوئی بچہ نہیں تھا میں نے دیر تک یہ تمام مناظر دیکھے اور سیدھا اپنی ماں کے پاس چلا گیا۔ اُس دن مجھے اپنی ماں کی آغوش دنیا کی سب سے محفوظ پناہ گاہ محسوس ہوئی۔ بچے سے والدین کا رشتہ کائنات کی سب سے لاثانی اور لافانی ڈور سے بندھا ہوتا ہے۔ میں ہمیشہ اپنی ماں کا فرماں بردار بیٹا رہا ہوں لیکن اُس دن مجھے ایک عجیب جذبے سے آشنائی ہوئی۔ گھنٹوں میں انپی ماں کے پہلو میں لیٹا اُس حدت کو محسوس کرتا رہا جس پر ہزاروں جنتیں قربان کی جا سکتی ہیں۔ شام کو معلوم ہوا کہ ایف آئی اے کی عمارت کے ساتھ واقع گھر میں ڈاکٹر سیموئل کی تین سالہ بیٹی مریم کا دل دھماکے کی آواز سے بند ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ اگلے دن میں نے ”بیٹی مریم معاف کرنا“ کے عنوان سے کالم لکھا جس میں واضح طور پر لکھ دیا تھا کہ ”تمہارے دل نے دھڑکنا بند نہیں کیا میں نے دہشت گردوں سے صلح کے تمام رستے بند کر دئیے ہیں اور اگر کسی نے کھولنے کی کوشش بھی کی تو تمہارے قصاص سے پہلے نہیں کھولیں گے“۔
مسٹر آئی جی پنجاب: میرے سامنے آج بھی ایک فوٹیج ہے جس میں ایک ماں اپنی چھ سات سال کی بچی کے ساتھ تھانہ لٹن روڈ لاہور کی حوالات میں بند ہے۔ ماں نے کیا جرم کیا ہے میں نہیں جانتا، اُس کا شوہر بھی پاکستان میں نہیں لیکن میرا تعلق اُس کی ماں کے جرم یا باپ کے پاکستان نہ ہونے سے نہیں ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ وہ معصوم بچی، دنیا کے ہر جرم سے بے خبر تھانہ لٹن روڈ کی سلاخو ں کے پیچھے کھڑی کیا کر رہی تھی؟ اُسے کس نے حوالات میں بند کیا؟ اُس کا جرم کیا تھا؟ اور اگر کوئی جرم ہے بھی تو کیا اتنے چھوٹے بچے کو حوالات میں بند کیا جا سکتا ہے؟ اللہ جانتا ہے کہ مجھے اُس بچی میں اپنی بیٹی کی شکل نظر آ رہی تھی۔ بربریت کی یہ کونسی سے شکل ہے، لاقانونیت کا یہ کونسا چہرہ ہے جسے قانون کی وردی کے تحفظ میں سر انجام دیا جا رہا ہے۔ کیا یہ بھی کوئی جواز ہے کہ بچی ماں کے بغیر نہیں رہ پا رہی تو اُس کی بھی گرفتاری ڈال کر اُسے ملزمہ بنا دیا جائے اور وہ معصوم اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے حوالات کے اندر سے باہر کی دنیا کو دیکھ رہی ہے۔ یہ واقعہ اُسے عمر بھر یاد رہے گا کہ ایک بار اُسے پنجاب پولیس نے نہ صرف جیل میں ڈال دیا تھا بلکہ اُس کا ریکارڈ بھی بنا دیا تھا جب اُس کی عمر ابھی بلوغت سے آدھی بھی نہیں تھی۔
مسٹر آئی جی پنجاب: یہ لاہور ہے جہاں آپ خود تشریف فرما ہیں اور ہمارے دوست ضمیر آفاقی نے روزانہ آپ کیلئے کوئی نہ کوئی تعریفی کلمات لکھے ہوتے ہیں جو ہماری نظر سے گزر تے رہتے ہیں لیکن تشہیر کبھی کارکردگی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ بھلا کسی با غیرت اور با ضمیر انسان کا ضمیر اُسے ایسا گھناؤنا جرم کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے اور اگر لاہور میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو پھر راجن پور تو جا کر دیکھنا پڑے گا کہ کچے کے ڈاکو نے اُس کے ساتھ کیا سلوک کر رکھا ہے۔ آپ ممکن ہے بہت زیادہ نیک، ایماندار اور پروفیشنل آفیسر ہوں لیکن جناب، اِس ایک واقعہ نے میرے دل سے تو آپ کا ذاتی احترام ختم کر دیا ہے کیونکہ ابھی تک مجھے کسی چینل سے آپ کے کوئی احکامات ایسے موصول نہیں ہوئے جس میں ملزمان کو نشانِ عبرت بنایا گیا ہو۔ بیٹیاں تو سارے سماج کی سانجھی ہوتی ہیں اور پھر معصوم بچیوں کی نگہبانی تو سارے سماج کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن حیرت ہے کہ بچیوں کو تحفظ دینے والے سب سے بڑے ادارے نے ہی بچی کو ہی حوالات میں بند کر کے سارے سماج کو دکھا دیا ہے۔ اتنے چھوٹے بچوں کا بھلا حوالات، ایف آئی آر، پولیس اور خوفزدہ ماحول سے کیا تعلق؟ اُن کے تو چھوٹے بہن بھائیوں کے سنگ کھیلنے کے دن ہوتے ہیں، ریت کے گھروندے بنانے اور توڑنے کے دن ہوتے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض اور راضی ہونے کے دن ہوتے ہیں، اُن کے ساتھ مجرموں ایسا سلوک میرے سمجھ سے بالکل باہر ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اُس بچی کے وارث کتنے بااثر ہوں گے لیکن ایک بات ضرور جان گیا ہوں کہ جس کے کہنے پر ایف آئی آر درج ہوئی ہے اور ایس ایچ او نے معصوم بچی کو بھی مقدمہ میں نامزد کر کے حوالات میں بند کر دیا ہے وہ یقینا ایک طاقتور اور بے رحم شخص ہو گا اور اُس سے زیادہ بے رحم وہ شخص ہے جس نے اُس ظالم کے ساتھ مل کر قانون کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا ہے۔ اُس معصوم پر تو ابھی اللہ کا قانون لاگو ہونے کی عمر شروع نہیں ہوئی چہ جائیکہ اُس پر پنجاب پولیس اپنی من مرضی کا قانون لاگو کر دے۔
مریم بیٹی کی موت پر میں نے کچھ سوچا تھا اور آج تک اُس پر کاربند ہوں۔ مجھے آج بھی کچھ سوچنا ہے پولیس کے بارے میں، اُن انگنت واقعات کے بارے میں جو تذلیل کے ہزاروں منظر اُن لوگوں کے ہاتھوں دیکھنا پڑے جن کے بچوں کے منہ میں نوالہ ہمارے ٹیکسوں سے جاتا ہے۔ جن کے ماں باپ کا علاج ہمارے پیسوں سے ہوتا ہے، جن کو شہادتوں پر چیک اور سہولتیں ہمارے خزانے سے دی جاتی ہیں، جو آئین میں ہمارے ملازم لکھے ہوئے ہیں۔ جناب یہ کیسے ملازم ہیں جو انپے آقاؤں کے بچوں کو انسان کیا جانور کا بچہ بھی نہیں سمجھتے۔
تبصرے بند ہیں.