مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ اسرائیل فلسطین جنگ طول پکڑے گی، کیوں کہ ایک طرف اسرائیل نے اپنے تین لاکھ ریزرو فوجیوں کو کال کر کے غزہ کے بارڈر پر پہنچنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں، جو بھرپور طریقے سے فلسطین پر زمینی حملہ کر کے اس پر قابض ہوں گے، دوسری طرف امریکا نے اپنا چھٹا بحری بیڑا سمندر میں اتار دیا ہے، جو جلد ہی اسرائیل کے ساتھ مل جائے گا یہ بحری بیڑا مشرقی بحیرہ روم میں اسرائیل، لبنان اور شام کے ساحل کے قریب لنگر انداز ہو گا۔ تاکہ اگر غزہ کی نسل کشی کے دوران جنوبی لبنان سے ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ یا شام اسرائیل کی توجہ بٹانے کے لیے کوئی الٹی سیدھی حرکت کریں تو ان کے کان رہیں۔ تیسرا ایران نے بھی اسرائیل کو خبردار کر دیا ہے کہ اگر اس نے جارحیت جاری رکھی تو وہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔ چوتھا اس وقت فلسطین کے اندر کے حالات یہ ہیں کہ غزہ کی پٹی پر قیامت گزر رہی ہے۔ اس میں رہنے والے لمحہ لمحہ اور باری باری شہادتوں کی طرف جا رہے ہیں۔ معصوم بچے، عورتیں، بوڑھے کسی کی کوئی تخصیص نہیں۔ مسلح اور غیر مسلح، جنگجو اور بے گناہ کی کوئی تفریق نہیں۔ بم نہیں پھٹ رہے، دل پھٹ رہے ہیں۔ پورے پورے خاندان بمباری میں شہید ہو رہے ہیں۔ کل ہی اطلاع ملی کہ ابوظہبی میں کام کرنے والے ایک فلسطینی کا تمام گھرانہ شہید ہو گیا۔ آناً فاناً اس کا خاندان ختم ہو کر رہ گیا۔ اس کی بے بسی اور غم کا اندازہ لگائیں کہ وہ اپنے پیاروں کو دفن کرنے کے لیے جا بھی نہیں سکتا۔ اور یہ کوئی ایک مثال نہیں۔ دنیا کی بے حسی اور بے بسی کا بدترین مظاہرہ یہی رات دن ہیں جس میں اقوام متحدہ کا ادارہ تک، جسے گھر کی لونڈی کہا جاتا ہے، روز اپیلیں کر رہا ہے، اعداد و شمار جاری کر رہا ہے، بتا رہا ہے کہ ہسپتالوں میں زخمیوں اور بیماروں کی کیا حالتِ زار ہے، لیکن مغربی دنیا اسرائیل کی مدد کے لیے ہر طرح کوششیں کر رہی ہے۔ پھر اسرائیل خود بھی یہ بات کہہ رہا ہے کہ حماس تبدیلی چاہتی تھی اب اسے تبدیلی ملے گی، اور ”ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ جو کریں گے وہ ان کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی“ یہ یہودی فیصلہ سازوں کی سوچ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا ہے اور حماس کا حملہ بھی غزہ کی پٹی پر مکمل اسرائیلی قبضے کی ایک کڑی ہے تو خاکم بدہن غزہ فلسطینیوں کے ہاتھ سے جانے والا ہے۔ لیکن اگر سب کچھ اسی طرح ہے جیسا کہ نظر آتا ہے اور حماس کا حملہ واقعی اسرائیل کے لیے غیر متوقع تھا، تو غزہ کا علاقہ ایک بار پھر آگ و خون کے سمندر سے گزرنے والا ہے۔ پھر یہی نہیں امریکا کا بھی اسرائیل کے لیے لاڈ پیار والا بیان سن لیں کہ ”آپ اپنا دفاع بھلے مضبوطی سے کرنے کے قابل ہیں۔ مگر جب تک امریکا قائم ہے آپ کو ہرگز فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ہمیشہ آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں“ (امریکی وزیرِ خارجہ انتنی بلنکن۔ تل ابیب۔ 12-10-2023)۔ مزید یہ کہ اسرائیل کو نہ صرف سالانہ تین اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی فوجی امداد ملتی ہے بلکہ جو اسلحہ امریکی افواج استعمال کرتی ہیں وہی اسرائیل کو بھی رعائتی نرخوں یا مفت کے بھاؤ ملتا ہے۔ اسرائیل میں امریکی استعمال کے لیے اسلحے کا ہنگامی ذخیرہ بھی رکھا جاتا ہے۔ جسے بوقتِ ضرورت اسرائیل کو استعمال کرنے کی بھی اجازت ہے۔ اسرائیل علاقے میں امریکا کے کان اور ناک کا کام کرتا ہے۔ کئی امریکی صدور نے اس اندھی پالیسی کو معتدل بنانے کے لیے اپنی سی کوشش بھی کی مگر کانگریس کے دونوں ایوان اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ سے بھی زیادہ اسرائیل کے وفادار ہیں۔ مزید سنیے کہ خلیجی ریاستوں اور جنوبی یورپ کے فضائی مراکز میں موجود امریکی فضائیہ کے سکواڈرنز کو ریڈ الرٹ کر دیا گیا ہے۔ تاکہ اسرائیل بے فکری سے غزہ میں حماس کو قلع قمع کرنے کے بہانے زمین کو 23 لاکھ رہائشیوں سے صاف کر سکے۔ یا تو وہ خود ناکہ بندی اور مسلسل بمباری سے گھبرا کے مصر کی جانب کھلے واحد سرحدی راستے سے نکل جائیں یا پھر اپنی مکمل نسل کشی کے لیے تیار ہو جائیں۔ یوں جس طرح 1948 میں اسرائیل سے ساڑھے سات لاکھ سے زائد فلسطینی خانوادوں کو خوف و دہشت اور بندوق کے زور پر گھروں کو چھوڑ کے سرحد پار دھکیلا گیا۔ بعینہ ان فلسطینیوں کی غزہ میں آباد چوتھی نسل کو بھی باہر دھکیل دیا جائے۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں غزہ شہر کے دس لاکھ مکینوں کو چوبیس گھنٹے میں شہر چھوڑ کے جنوبی غزہ میں جانے کا فوجی حکم ملا ہے تاکہ اسرائیلی دستے شہر پر باآسانی قبضہ کر سکیں۔ فی الحال کہا جا رہا ہے کہ یہ انخلا عارضی ہو گا اور کچھ عرصے بعد شہری واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ مگر جس طرح 1948 میں مکینوں کے نکلتے ہی مکان ڈھا دیے گئے اور قصبوں اور دیہاتوں کے نام تک بدل دیے گئے۔ اسی طرح جب موجودہ بے خانماں فلسطینی واپس غزہ شہر لوٹیں گے تو وہاں کوئی گھر ہی نہ ہو گا۔ بہرحال اس تمام صورتحال میں مجھے ڈر اس بات کا بھی ہے کہ ہم مسلمان ابھی اتنی جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ نہیں جتنی مغربی دنیا یا امریکا ہے۔ اور پھر حماس کی فاتحانہ کارروائیوں سے دنیا حیران و پریشان تو ہوئی ہے مگر میرے خیال میں اس کے نتائج مہلک ہوں گے۔ بہت سے ممالک جلد ہی باہمی تجارت میں محتاط رویہ اختیار کر لیں گے۔ اس وقت دنیا دو کیمپوں میں بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے زیادہ تر ممالک فلسطین کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یورپی یونین اگرچہ اسرائیل کا حامی ہے لیکن اس نے فلسطین کے ترقیاتی فنڈ روکنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ اسرائیل کے حامی ممالک کے عوام فلسطین کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ اس وقت عالمی معیشت کو سب سے بڑا خطرہ اسرائیل کی دہشت گردی، بربریت اور ہٹ دھرمی سے ہے کیونکہ تیل کی قیمت میں اضافہ اس کے ساتھ بہت سے ملکوں میں افراط زر کا بڑھنا اور اسرائیل کی مدد کرنے میں امریکی ڈالر کا وحشیانہ استعمال امریکی بجٹ میں خسارہ لانے کے ساتھ امریکی تجارت میں بھی خسارہ لے کر آئے گا اور دنیا کی باہمی تجارت کے سکڑنے اور ڈالر پر انحصار کم کرنے سے ڈالر کی عالمی پیمانے پر گرتی ہوئی قدر امریکی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بہر کیف اب یہ حماس کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح غزہ کے شہریوں کو انسانی کھال جلانے والے فاسفورس بموں کی بارش اور خوراک، پانی، دوا اور بجلی کے نہ ہوتے ہوئے اپنے گھروں کے اندر روک پاتی ہے۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو پھر میرے خیال میں حماس نے بغیر تیاری اور بغیر ہوش مندی کے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا کہ اس وقت لاکھوں متوقع اموات اور کھربوں ڈالر کے نقصان کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ غزہ کو چند دنوں میں ہی شام بنا دیا گیا ہے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کو اس مسئلے کے حل کی طرف جانا چاہیے ورنہ بہت بڑا انسانی بحران سامنے آئے گا اور اس سے امریکا و اسرائیل مزید مضبوط بھی ہوں گے اور دنیا کے سامنے اپنی وحشت بھی دکھائیں گے۔
تبصرے بند ہیں.