جس طرح کسی بھی قوم کے لیے تاریخ نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ٹھیک اُسی طرح حکمران طبقوں کے لیے تاریخ بہت اہمیت رکھتی ہے ماضی میں بھی حکمران طبقے مختلف طریقوں سے اپنے خیالات کا اظہار کراتے رہے۔ اپنی خوبیوں کو ظاہر اور بد عنوانیوں، استحصال اور جرائم کو چھپاتے تھے۔ بادشاہوں اور آمروں کے دور میں حکومتیں مورخین کو ملازم رکھا کرتی تھیں۔ مورخ چونکہ ملازم ہوتے تھے اس لیے اُن کے فرائض میں شامل ہوتا تھا کہ وہ حکمرانوں کو مثبت انداز میں پیش کریں۔ اس سرکاری تاریخ میں باغیوں اور مزاحمت کرنے والوں کو تاریخ سے نکال دیا جاتا یا اُن کے کردار کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پہ مصر کی قدیم تاریخ میں جنگوں میں صرف فتح کا ذکر ہوتا تھا شکستوں کے بارے میں خاموشی اختیار کی جاتی تھی۔ اسی طرح سے وہ حکمران جن کو اُنکے جانشین پسند نہیں کرتے تھے اُن ناموں کو بادشاہ کی فہرست سے خارج کر دیا جاتا تھا۔
یہ تو میں تاریخ کے کچھ پہلوؤں پہ بات کر رہی تھی۔ اگر موجودہ صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو اب بھی بہت سی باتوں میں اشتراک دکھائی دیتا ہے۔ پہلے ادوار میں صرف لکھاری تھے پھر شاعروں اور ادیبوں نے بھی سیاسی تحریروں میں اپنا کردار ادا کیا اور بہت سے شعراء ایسے تھے جو اپنی انقلابی شاعری سے عوام کو گرماتے اور متعدد کو تو اُس دور میں باغی قرار دیتے ہوئے اُن کو سزائیں بھی دی گئیں تھیں۔ اسی طرح بہت سے شعراء نے بھی آمریت اور مختلف جمہوری ادوار میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
ایک دور تھا جب ایک خبر پہ کئی کئی دن درکار ہوتے تھے اب چونکہ میڈیا کا دور ہے اس لیے خبر چند سیکنڈز میں ہی پھیل جاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے بات کی ہے یہ کام صرف اُس وقت نہیں بلکہ اب بھی پورے اہتمام
سے کیا جاتا ہے، سیاسی جماعتیں اپنی اچھائیوں کو پھیلاتی اور اپنی برائیوں، کرپشن اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے کو چھپاتی ہیں مگر اس کے لیے طریقہ کار کچھ منفرد ہو چُکا ہے۔ اس کے لیے اب نجی چینلز پہ ایڈز اور سوشل میڈیا کی ٹیمیں تشکیل دیتے ہوئے ہر سیاسی جماعت اُس سے فائدہ اُٹھاتی ہے۔
پاکستان کی مو جودہ معاشی صورتحال کا اگر ہم موازنہ کریں تو اس وقت شہباز شریف جس طرح بھاگتے دوڑتے نظر آ رہے ہیں مگر ماضی میں کی گئی خامیوں کو کبھی عیاں نہیں کیا کیونکہ مسلم لیگ (ن) کوئی پہلی بار اقتدار میں نہیں آئی مگر اب میں یہی کہوں گی کہ شاید اب کچھ بہتر کر دیں کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کی شاہ خرچیاں دیکھتے ہوئے محسوس نہیں ہو رہا کہ عوام پہ بوجھ کم ہو کیونکہ پچھلے دنوں سینیٹ چیئرمین کی مراعات کی تفصیلات دیکھ کر ایک لمحے کے لیے یہ احساس ہوا کہ اب ہم شاید ایک ترقی یافتہ ملک میں رہتے ہیں۔ معاشی استحکام کے لیے عسکری اور سیاسی قیادت کا ایک صفحہ پہ آنا خوش آئند ہے۔ زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے کونسل تشکیل دی گئی ہے۔ اس وقت پاکستان کا لاکھوں ایکڑ زرعی رقبہ غیر آباد ہے۔ 96 لاکھ ہیکٹر رقبے میں سے 2لاکھ ہیکٹر قابل کاشت ہے۔ لاکھوں ایکڑ صحرائی رقبہ غیر آباد ہے غیر آباد رقبہ بھی تھوڑا نم ہو اور اُس پہ ہل چلایا جائے تو قابل کاشت ہو سکتا ہے وہ غیر آباد زمین بھی قابل کاشت ہو سکتی ہے۔
اب اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے چند اہم اقدامات کا خیال رکھنا ہو گا۔ سرمایہ کاری میں رکاوٹ بننے والی پالیسیوں سے اجتناب کرنا چاہیے اور ایسی پالیسیز بنائی جائیں جو شارٹ ٹرم ہوں۔ عام کسانوں کو اور سرکاری سطح پہ جو زراعت کرنی ہے اُسے سہولیات فراہم کی جائیں کھادیں اور ادویات مناسب قیمتوں میں مہیا کی جائیں۔ کاشت کے دوران کاشتکار کو جس چیز کی ضرورت پیش آتی ہے وہ اسے مہنگے داموں میسر آتی ہیں تو اُن سے لاگت میں اضافہ کے باعث پیداوار مجبوراً مہنگے داموں مارکیٹ میں بھیجنا پڑتی ہیں اور بنیادی خوراکی اشیا بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہو جاتی ہیں۔
پاکستان 1958 سے 2019 تک 22 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چُکا ہے مگر بدقسمتی سے آج تک معاشی پلان پہ خرچ ہونے کے بجائے یہ فنڈ ترقیاتی کاموں پہ خرچ ہوتا رہا ہے اب اگر معاشی پلان بن رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں بہتری لا ئی جا سکے۔ نئے عالمی مالیاتی معاہدے کے لیے فرانس میں منعقد سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے ایم ڈی عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کرسٹینا اور جارجیوا سے ملاقات کی اور پاکستان کے معاشی نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔30 جون معاہدے کی آخری تاریخ ہے، 2019 سے اس معاہدے کا آغاز ہوا جو کہ اب تک صرف سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ پاکستانی معیشت کی استعداد کی بات کریں تو قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ملک ہے، اگر معاشی استحکام کی مربوط، پائیدار اور دیرپا حکمت عملی سے ان وسائل کے ساتھ استفادہ کیا جائے تو کوئی مشکل نہیں کہ ملک عزیز کو معاشی بحرانوں سے نکالا نہ جا سکے۔ جب تک اس پلان کی جانب قدم نہیں اُٹھایا جائے گا تب تک قرضوں کے چنگل سے نکل کر خود انحصاری کی جانب پیش رفت ممکن نہیں۔
اس وقت حالات یہ ہیں کہ ہمارے دوست ممالک بھی اشاروں کنایوں میں معاشی اصطلاحات کا کہہ رہے ہیں موجودہ حکومت نے سول و عسکری قیادت کے تعاون سے انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف) کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ یقینا خوش آئند ہے مگر یہ اسی صورت کار آمد اور مفید ثابت ہو گا جب ہم اپنی بھر پور استعداد کو بروئے کار لائیں اور اہداف سے انحراف نہ کریں۔ جب مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا تو بیرونی سرمایہ کاری کی راہیں خود بخود کھل جائیں گی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.