اگر ایسا ہوتا

120

کچھ دوست ایسے سوال کرتے ہیں کہ جن کا جواب دینا مشکل ہوتا ہے ایسا ہی ایک سوال ہم سے کیا گیا کہ فرض کریں کہ 9مئی کا سانحہ پاکستان پیپلز پارٹی یا نواز لیگ نے کیا ہوتا اور وزیر اعظم قاسم کے ابو ہوتے تو پھر کیا ہوتا۔ اہم بات یہ ہے کہ ڈیڑھ ماہ گذرنے کے باوجود بھی اس سانحہ کے کسی ایک ذمہ دار کو بھی اب تک سزا نہیں ہوئی ہے اور
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
دو جگہ ہی مقدمات چلنے ہیں ایک دہشت گردی کی عدالت میں اور دوسرا ملٹری کورٹس میں لیکن اول تو کسی جگہ اب تک کیا ہوا ہے کچھ پتا نہیں لیکن ان عدالتوں سے سزا کے بعد بھی عدالتیں اور بھی ہیں کہ جہاں پر اپیلیں ہو سکتی ہیں لیکن لمحہ موجود تک تو کسی پر فرد جرم تک عائد نہیں ہو سکی۔
جہاں تک سوال کا تعلق ہے توجواب ایک ہی ہے کہ مہاتما کے ہاتھ میں سمجھیں جیسے ماچس آ جانی تھی اور انھوں نے اپنے ہر مخالف کو صف ہستی سے مٹانے کا کام شروع کر دینا تھا اور موجودہ حکومت جو ڈیڑھ ماہ گذرنے کے بعد بھی ابھی تک فقط سوچ ہی رہی ہیں اور یہ تک طے نہیں کر پائی کہ اس سانحہ کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کرنا بھی ہے یا نہیں لیکن اگر ان کی جگہ مہاتما ہوتے تو جس طرح 9/11کے بعد امریکا نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر کے لاکھوں ٹن بارود سے تباہی پھیلا دی تھی تو تحریک انصاف کے چیئر مین سے بھی کوئی بعید نہیں تھا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو تباہ کر کے رکھ دیتے۔ اگر کسی کو اختلاف ہے تو سوال ہے کہ اگر مہاتماپاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی صف اول کی قیادت کو بغیر کسی جرم ثابت کئے برسوں جیل میں رکھ سکتے ہیں اور امریکا میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب میں کہہ سکتے ہیں کہ میں پاکستان جا کر جیل میں نواز شریف کا
ائر کنڈیشنر اترواؤں گا۔ رانا ثنا اللہ کو منشیات کے ایسے مقدمہ میں کہ جس کی سزا موت تھی اس میں گرفتار کرا سکتے ہیں۔ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو جیل میں رکھ سکتے ہیں اور مریم نواز اور خورشید شاہ اوردونوں جماعتوں کے دیگر قائدین کو اگر برسوں پابندسلاسل رکھ سکتے ہیں تو اگر سانحہ 9مئی ایسا ہتھیار اس کے ہاتھ میں آ جاتا تو مہاتما جو کچھ بھی کرتے کم تھا او وہ جو کچھ کر تے اسے سوچ کر ہی خوف آتا ہے اور ایک موجودہ حکومت ہے کہ سانحہ 9مئی ان سے سوال کرتا ہے کہ
ہے مسیحا تو میرے درد کا درماں کر دے
گر یہ مشکل ہے تو پھر زخم میرے گن بھی نہیں
مقصد یہ ہے کہ اگر ارباب اختیار سانحہ نو مئی کے ذمہ داروں اور اس کے ماسٹر مائنڈ کو سزا دینا تو در کنار اسے گرفتار کرنے کا حوصلہ ہی نہیں کر پا رہے تو اگر یہی کچھ کرنا ہے تو سانحہ نو مئی کے متاثرین کہ جن میں جناح ہاؤس کی پکار تو اپنی جگہ لیکن جو شہداء کے ورثا ہیں وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر میرے درد کا مداوا نہیں کر سکتے تو ہر روز جناح ہاؤس میں مختلف شعبہ زندگی کے لوگوں کو بلا کر میرے زخموں پر نمک بھی نہ چھڑکیں اور اب تو حد ہو گئی کہ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف مہاتما کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ جب خود تحریک انصاف کے دور میں 25یا26سویلین پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے تھے تو یہی مہاتما تھے جنھوں نے میڈیا پر یہ بیان دیا تھا کہ دہشت گردی کے کیسز فوجی عدالتوں میں ہی چلنے چاہئے۔ قانونی ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مختلف اوقات میں سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے کی توثیق کر چکی ہے اور اگر اب سپریم کورٹ ماضی کے اپنے ہی فیصلوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم نامہ جاری کر کے کوئی نئی نظیر قائم کرتی ہے تو اس سے قانون کا بول بالا تو نہیں ہو گا لیکن سپریم کورٹ کے کچھ ججز کے متعلق جو ایک تاثر قائم ہو چکا ہے ایک تو اسے مزید تقویت ملے گی اور دوسرا اگر ملک کی انتہائی حساس دفاعی تنصیبات پر جلاؤ گھیراؤ کر کے انھیں تباہ کرنے کے مجرمان کو سزا نہیں ملتی کہ جن کے خلاف آڈیو اور وڈیو ثبوت موجود ہیں تو کل کو ایک نہیں بلکہ کئی اور گروہ بھی اٹھ کر یہی کام کریں گے اور ماضی میں کسے علم نہیں کہ ٹی ٹی پی یہی کام کر چکی ہے اور ان کا کیس بھی فوجی عدالتوں میں ہی چلا تھا لیکن اب اگر کسی کی محبت میں عدل اور انصاف کے معیار بدل جاتے ہیں تو یہ بڑی بد قسمتی ہو گی۔ اسی حوالے سے ایک شوشا خواتین کے متعلق بھی چھوڑا جا رہا ہے کہ اس سانحہ میں جو خواتین ملوث ہیں انھیں کچھ نہ کہا جائے۔ کاش جن لوگوں کے دل میں آج خواتین کے احترام کا درد اٹھ رہا ہے وہ 9مئی سے پہلے اٹھتا اور وہ خواتین کو اس میں شریک ہی نہ کرتے لیکن اگر ان کو رعایت دی جاتی ہے تو پھر ملک بھر میں ہر قسم کے جرائم میں ملوث خواتین کو بھی رہا کیا جائے اس لئے کہ ڈبل اسٹینڈرز کی بھی ایک حد ہوتی ہے اسے کہاں تک لے کر جائیں گے لیکن قاضی فائز عیسیٰ اور دوسرے سینئر ترین جج جناب سردارطارق اس بنچ سے یہ کہہ کر اٹھ گئے ہیں کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا یہ بنچ ہی غیر قانونی ہے اور اس پر وزیر اعظم کے مشیر عرفان قادر نے یہ کہہ پٹیشنر کا مکو ٹھپ دیا ہے کہ اگر بنچ ہی غیر قانونی ہے تو اس بنچ کا فیصلہ کیسے قانونی ہو سکتا ہے لہٰذا بنچ جو بھی فیصلہ کرے گا اس پر عمل نہیں ہو گا اور اسے نظر انداز کر دیا جائے گا۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اگر یہ سانحہ پاکستان پیپلز پارٹی یا نواز لیگ نے کیا ہوتا اور وزیر اعظم قاسم کے ابو ہوتے تو جواب یہی ہو گا کہ بس چنگیز خان اور تیمور لنگ کی طرح انسانی کھوپڑیوں کے مینار تو شاید نہ بنتے کہ اب سر اتارنے والا وہ دور نہیں ہے لیکن پاکستان کی حد تک مخالفین کے لئے جائے پناہ کوئی نہ بچتی۔

تبصرے بند ہیں.