کیسے کیسے لوگ!!!

59

امام احمد بن حنبل کے پاس دو بہنیں آئیں۔ سوال ایسا کیا کہ احمد بن حنبل کو رُلا دیا۔۔۔ پوچھتی ہیں، امام صاحب ہم رات کو چرخے پر کپڑا سوتتی ہیں، بعض اوقات چراغ کی روشنی بند ہو جاتی ہے تو چاند کی روشنی میں کام کرتی ہیں۔ اب چاند کی روشنی کے کپڑے کا معیار چراغ کی روشنی سے کم ہوتا ہے۔ بتائیں کہ کیا ہم جب بیچیں تو یہ بتا کر بیچیں کہ یہ چراغ والا ہے یہ چاند والا؟؟؟ آپ سنتے رہے اور خاموش رہے۔۔۔ پھر پوچھا، امام صاحب بعض اوقات ہمارا چراغ بند ہو جاتا ہے تو ہمسایوں کے چراغ کی روشنی میں جو ہمارے گھر آ رہی ہوتی ہے اس سے کپڑا بناتے ہیں۔ بتائیں کیا یہ چوری تو نہیں؟؟ چراغ تو ان کا ہے بے شک روشنی ہمارے گھر آ رہی ہے۔۔ آپؒ زار و قطار رونا شروع ہوئے۔ پوچھا، بیٹیوں کس کے گھر سے آئی ہو؟؟؟ ان لڑکیوں نے بشر حافیؒ کا نام لیا کہ ہم ان کی بہنیں ہیں۔ آپؒ نے فرمایا: میں بھی کہوں کہ ایسی تربیت کسی عام آدمی کے گھر کی نہیں ہو سکتی۔۔۔
یہ تھے ہمارے اسلاف……
شیشیل کورالا 2014 میں نیپال کا وزیراعظم بن گیا۔ پہلے دن جب اپنے سرکاری دفتر پہنچا تو انتہائی سستی قیمت کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ لباس کی مجموعی قیمت دو سو روپے سے بھی کم تھی۔ سر پر انتہائی پرانی ٹوپی اور پیروں میں کھردری سی چپل۔ وہاں ویٹر یا نائب قاصد کے کپڑے بھی شیشیل کورالا سے بہت بہتر تھے۔ منتخب وزیراعظم کو ان کے دفتر لیجایا گیا۔ دفترکے باہر چپل اُتاری اور ننگے پاؤں چلتا ہوا کرسی پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔ سیکرٹری اور دیگر عملے کے اوسان خطا ہو گئے کہ یہ کس طرح ملک کے لوگوں سے ووٹ لے کر وزیراعظم بن گیا ہے۔ کورالا نے فائلیں منگوائیں اور بڑی محنت سے کام شروع کر دیا۔ سیکرٹری دو گھنٹے اپنے کمرے میں
انتظار کرتا رہا کہ باس اب بلائے گا یا اب۔ اس نے کئی بار چپڑاسی سے پوچھا کہ مجھے وزیراعظم نے تو نہیں بلایا۔ چپڑاسی شرمندگی سے جواب دیتا تھا کہ نہیں۔ ابھی تک انہوں نے کسی کو بھی بلانے کے لیے نہیں کہا۔ پورا دن گزر گیا۔ شیشیل سرکاری کام کر کے بڑے آرام سے واپس چلا گیا۔ سختی سے منع کیا کہ کوئی بھی اسے خوش آمدید کہنے یا خدا حافظ کہنے نہ آئے۔ یعنی اس نے ہر طرح کے پروٹوکول کو ختم کر دیا۔ اسی صورتحال میں ایک ہفتہ گزر گیا۔ تمام عملہ بیکار بیٹھا رہا۔ وزیراعظم ٹھیک آٹھ بجے صبح دفتر آتا تھا۔ رات گئے تک کام کرتا تھا۔ پھر بڑے آرام سے چلا جاتا تھا۔ ایک ہفتہ بعد، سیکرٹری نے کورالا کو چٹ بھجوائی کہ وہ اسے کسی سرکاری کام سے ملنا چاہتا ہے۔ چٹ بھجوائے ہوئے دو چار منٹ ہوئے تھے کہ وزیراعظم خود اس کے کمرے میں آ گیا اور تہذیب سے پوچھا کہ فرمایے، کیا کام ہے۔ سیکرٹری کی جان نکل گئی کہ ملک کا وزیراعظم اس کے دفتر میں آ کر کام پوچھ رہا ہے۔ کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ لجاجت سے کورالا کو کہا کہ سر، قانون کے مطابق بطور وزیراعظم آپ نے اثاثے ڈکلیئر کرنا ہیں۔ وزیراعظم نے سیکرٹری سے فارم لیا اور خاموشی سے اپنے دفتر چلا گیا۔ شام کو فارم واپس آیا تو سیکرٹری نے پڑھنا شروع کر دیا۔ اثاثوں کا کاغذ دیکھ کر آنکھیں باہر اُبل پڑیں۔ درج تھا، ”میرے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔ کوئی گاڑی بھی نہیں ہے کیونکہ میں بس میں سفر کرتا ہوں۔کسی قسم کی کوئی جائیداد، پلاٹ، زیور، سونا، ہیرے بھی نہیں ہیں۔ جہاں تک زرعی زمین کا تعلق ہے، ساری زمین خیرات کر چکا ہوں اور اس وقت میرے پاس ایک ایکڑ زمین بھی نہیں ہے۔ میرا کسی قسم کا کوئی بینک اکاؤنٹ بھی نہیں ہے۔ میرے پاس کوئی رقم ہی نہیں ہے۔ میرے پاس صرف تین موبائل فون ہیں جن میں سے ایک آئی فون ہے۔ اس کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے“۔
نیپال جیسا ملک جہاں سیاست اور کرپشن، بالکل ہماری طرح لازم و ملزوم ہیں۔ وہاں وزیراعظم کے ڈیکلیریشن فارم میں کسی قسم کے اثاثے نہ ہونا اچنبھے کی بات تھی۔ سیکرٹری اگلے دن صرف اس لیے وزیراعظم کے پاس گیا کہ کہیں اس سے کوئی غلطی نہ ہو گئی ہو۔ مگر وزیراعظم نے تسلی دی اور کہا کہ میں نے ڈیکلیریشن فارم کے نیچے دستخط کیے ہیں۔ فکر نہ کریں۔ تھوڑے دن کے بعد کسی صحافی نے اخبار میں چھاپ دیا کہ یہ دنیا کا سب سے غریب وزیراعظم ہے۔ اپوزیشن نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ شائد جھوٹ ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کے خاندان میں تین وزیراعظم گزرے ہوں، اتنا مفلوک الحال ہو۔ اپوزیشن نے ہر طرح کی تحقیق کر ڈالی۔ مگر شیشیل کورالا کی لکھی ہوئی باتوں میں کوئی سقم نہ نکال سکے۔ واقعی وزیراعظم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ معاشی کسمپرسی کا شکار تھا۔
ایک سرکاری دورے میں حکومت کی طرف سے اسے چھ سو پنتالیس ڈالر ملے۔ دورے کے بعد اس نے یہ تمام ڈالر سرکاری خزانے میں واپس جمع کرا دیے کہ اس دورہ پر کسی قسم کے کوئی پیسے خرچ نہیں ہوئے۔ لہٰذا یہ ڈالر اس کے کسی کام کے نہیں ہیں۔ بطور وزیراعظم شیشیل کورالا نے انتہائی سادگی سے وقت گزارا اور حکومت کے بعد بھائی کے گھر منتقل ہو گیا۔ آخری عمر میں پھیپھڑوں کا کینسر ہو گیا۔ اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں تھے۔ سیاسی پارٹی کے اراکین نے باقاعدہ چندہ اکٹھا کیا اور پھر وہ اپنا علاج کرانے کے قابل ہوا۔ بہرحال کینسر جیسے موذی مرض سے بہادری سے لڑتے ہوئے 2016 میں نیپال کے ایک سرکاری ہسپتال میں دم توڑ گیا۔
آج بھی آپ اس کی زندگی پر لکھی گئی کتابیں پڑھیں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ انسان پوچھتا ہے اے خدا، ایسے درویش لوگ بھی اس دنیا پر حکومت کرتے ہیں۔ الیکشن جیتتے ہیں اور اپنے دامن پر کرپشن کی ایک چھینٹ بھی نہیں پڑنے دیتے۔ اسی تنگدستی میں دنیا چھوڑ دیتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.