مہنگائی،حکومت اور عوام

53

پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے دن بدن بگڑتی جا رہی ہے وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی آئی ایم ایف کی کارگزاری سے پریشان ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کو سری لنکا نہیں بننے دیں گے، ڈالر قابو میں آ رہا ہے اور نہ ہی مہنگائی کی چکی سے حکومت عوام کو نکالنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ آج سے ایک سال قبل جب سابقہ حکومت کو شہبازشریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور باقی 9 ستاروں نے چلتا کیا تھا تو ایک ہی نعرہ تھا کہ ان حکمرانوں نے عوام کی مہنگائی سے کمر توڑ دی ہے۔ اقتدار ہمیں دیں ہم مہنگائی کا خاتمہ کریں گے لیکن بلاول بھٹو نے بھی مہنگائی کے خلاف کراچی سے لے کر اسلام آباد تک سابقہ دور حکومت میں مارچ کیا تھا لیکن اقتدار میں آ کر ایسا جہاز پر بیٹھے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیا۔ مہنگائی کے خاتمے کے بجائے کراچی کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے سر گرم ہو گئے اور کراچی کا میئر حافظ نعیم الرحمن کو نہ بننے دیا اور مرتضیٰ وہاب جو پہلے بھی کراچی کے ایڈمنسٹریٹر رہے تھے اور وہ بھی ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر کی طرح ناکام رہے تھے ان کو کراچی کی چابی تھما دی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ خود پانی ٹینکر مافیا سے لیتے ہیں اور حافظ نعیم الرحمن نے کہا تھا میں میئر بننے کے بعد بلاول بھٹو کو بھی پانی کے ایم سی کا دوں گا لیکن بلاول بھٹو تو چھ ماہ پہلے کراچی کے عوام سے وعدہ کر چکے تھے کہ میئر جیالا ہو گا، وہ نعرہ اور وعدہ پورا کر دیا۔ اب جماعت اسلامی کے نعیم الرحمن 5 سال تک عدالتوں کے چکر لگائیں گے اور ثابت ہو گا کہ حافظ نعیم الرحمن کے ہاتھ میں میئر کی لکیر نہیں ہے تو اس طرح پیپلز پارٹی کا ایک خواب پورا ہو گیا۔ اب کراچی کے شہری بلاول بھٹو زرداری سے پانی مانگیں گے تو وہ صاف کہہ دیں گے کہ میں تو پانی خود ٹینکر والوں سے لیتا ہوں تم بھی لے لو، میں نے تو کراچی والوں کو پانی دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ اس طرح مرتضیٰ وہاب جو کہ پیپلز پارٹی کی جیالی مرحومہ فوزیہ وہاب کے بیٹے ہیں، نوجوان ہیں، دیکھتے ہیں چوری شدہ مینڈیٹ کے ساتھ وہ ایوان کیسے چلاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل نے میاں نواز شریف کو قائد، شہباز شریف کو صدر اور محترمہ مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنا دیا ہے اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو پارٹی عہدے سے پکا پکا فارغ کر دیا ہے اور اب محترمہ مریم نواز مستقل انداز میں بے خوف و خطر اپنے عہدے کا استعمال کریں گی اور پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کریں گی۔ اس موقع پر شہباز شریف نے میاں نواز شریف سے گزارش کی کہ وہ پاکستان آئیں اور صدارت کی ذمہ داری قبول کریں۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ میاں نواز شریف جلد پاکستان میں ہوں گے اور شہباز شریف نے کہا جو پارٹی میں رہ کر اسحاق ڈار کی مخالفت کرتے ہیں ان کے لیے پارٹی میں کوئی گنجائش نہیں۔ مریم نواز نے پارٹی کے بزرگ رہنماؤں کو درس دیا کہ نوجوانوں کے لیے جگہ چھوڑ دیں، جو بات پہلے بزرگوں کو کوئی بھی نہ کہہ سکا وہ مریم نواز نے اپنے انداز میں کہہ دی اور رانا ثنا اللہ نے الیکش اکتوبر میں کرانے کا اعلان کر دیا۔ ان کو امید ہے جو لوگ کل تک ہمیں ووٹ نہیں دے رہے تھے وہ 9 مئی کے واقعہ کے بعد ان کے ہو گئے ظلم اور تشدد کی سیاست کے ذریعے ووٹر کی رائے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف کو لائیں مقابلہ کریں آپ کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا، آپ کا اکتوبر میں الیکشن کا اعلان خوش آیند ہے۔ پیپلز پارٹی کراچی کی طرح پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بھی شب خون مارنا چاہتی ہے۔ خواب پر کوئی پابندی نہ ہے، پنجاب میں 2023 کے الیکشن میں مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ووٹروں میں ہو گا۔ تحریک استحکام پاکستان کے پاس جو بھی الیکٹیبلز آئے ہیں وہ ووٹ تحریک انصاف میں چھوڑ آئے ہیں۔ اس طرح خیبر پختون خوا میں مقابلہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی میں ہو گا۔ ہاں اگر تحریک انصاف پر پابندی لگی اور وہ پارٹی الیکشن میں حصہ نہ لے سکی تو ووٹر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کے بجائے آزاد امیدواروں کو ووٹ ڈالیں گے۔ پاکستان اس وقت مشکل حالات میں ہے اور تمام سیاسی پارٹیاں اپنا اپنا کھیل رہی ہیں، عوام کی فکر نہیں۔ ایک فرد کو دبانے کے لیے ساری ریاستی مشینری لگی ہوئی ہے لیکن اپوزیشن کی ایک جماعت قابو میں نہیں آ رہی۔ پی ڈی ایم کی حکومت عوام کیلئے لچک دکھائے اور عمران خان 9 مئی میں ملوث اپنی پارٹی کے تمام ارکان سے لاتعلقی کا اظہار کریں اور اپنی فوج کے ساتھ ڈائیلاگ کریں تو دیکھئے ساری ملکی اور غیر ملکی سازشیں ناکام ہوں گی، ملک ترقی کرے گا۔ حکومت الیکشن کی تاریخ دے، الیکشن میں عوام جس کو ووٹ دیں، حکومت عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ اس کو قبول کریں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں۔ اس سے قوم سکھ کا سانس لے گی، مہنگائی کا بھی جن قابو میں آئے گا، اس وقت کمزور حکومت میں ہر شخص اپنی من مانی کر رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.