ہم کچھ ایسے مسائل میں گھرے ہیں کہ کبھی کبھار ہی کوئی اچھی اور دل خوش کرنے والی خبر سننے کو ملتی ہے۔ آج میں کالم کا آغاز ایک ایسی ہی اچھی خبر سے کرنا چاہتی ہوں۔ خبر یہ ہے کہ ایوان بالا یعنی سینٹ کے معزز چیئرمین، جناب صادق سنجرانی، پارلیمانی تقریبات میں حصہ لینے کے لئے روس تشریف لے گئے۔ یہ بہت اہم تقریب تھی، جس میں کئی دیگر ممالک کے وفود بھی آئے ہوئے تھے۔ چیئرمین سینٹ کی طویل تقریر پاکستان کے تقریباً تمام ٹی۔وی چینلوں نے براہ راست نشر کی۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر چیئرمین سینٹ نے انگریزی کے بجائے اردو میں تقریر کا فیصلہ کیا۔ وہ انگریزی دان بھی ہیں اور میں نے ان کی انگریزی کی تقریر بھی سن رکھی ہے۔مجھے یقین ہے کہ فارن آفس کے بابووں نے انہیں اب بھی یہی مشورہ دیا ہوگا کہ یہ ایک بڑا عالمی فورم ہے اور انہیں انگریزی میں تقریر کرنی چاہیے۔ لیکن یہ چیئرمین صاحب کا غالبا اپنا فیصلہ ہوگا۔ یہ تقریر بہت عمدہ لکھی گئی تھی۔ لیکن اتنی ہی عمدگی سے ادا بھی کی گئی۔ اردو کے حق میں آواز اٹھانے والے حلقوں کو سنجرانی صاحب کے اس اقدام کی تحسین کرنی چاہیے۔
ہمارے آئین کا آرٹیکل 251 قرار دیتا ہے کہ”پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ ایسے انتظامات کئے جائیں کہ پندرہ سال کے اندر اندر اردو کو سرکاری یا دفتری اور دوسرے معاملات میں استعمال کیا جائے“۔ گویا نفاذ اردو ایک آئینی تقاضا ہے۔لیکن آج تک ہم اس آئینی تقاضے پر عمل درآمد کرنے سے قاصر ہیں۔ 1973 کے آئین کو نافذ ہوئے پچاس سال گزر گئے ہیں۔ مارچ اور اپریل میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے گولڈن جوبلی تقریبات کا بھی اہتمام کیا لیکن کسی طرف سے یہ آواز نہ اٹھی کہ نفاذ اردو سے متعلق آئین کی شق عملا معطل کیوں ہے۔پندرہ سال کی مقررہ معیاد کو گزرے بھی اب35 سال ہو گئے ہیں۔ 2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ دیا تھا کہ اردو کو فی الفور سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے۔ جج صاحب یہ فیصلہ دینے کے بعد ریٹائرڈ ہوکر گھر چلے گئے۔ اب اس فیصلے کو بھی آٹھ سال گزر گئے ہیں۔لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ خود اعلیٰ عدالتوں کی ساری کاروائی انگریزی زبان میں ہو رہی ہے گویا عدلیہ خود اپنے ہی فیصلے کی توہین کئے جا رہی ہے۔اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو کے فوری نفاذ کے متعلق عدالتی فیصلہ انگریزی زبان میں تحریر کیا تھا۔ ہمارے سرکاری اور نجی دفتروں میں بھی انگریزی کا راج ہے۔ خط و کتابت انگریزی میں ہوتی ہے۔ سمریاں انگریزی میں لکھی جا تی ہیں۔ نوٹنگ ڈرافٹنگ انگریزی میں ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کا سارا کام کاج بھی انگریزی میں چلتا ہے۔
صادق سنجرانی صاحب نے اردو میں تقریر فرما کر بہت اچھا پیغام دیا۔ کیا وہ احکامات جاری کریں گے کہ آئندہ ایوان بالا کی ساری کاروائی، لکھت پڑھت، قراردادیں اور دیگر کام اردو میں ہی ہوں گی۔ اگر وہ ایسا کر سکیں تو ان کا یہ اقدام مثال بن جائے گا اور انہیں اپنے منصب سے فارغ ہو جانے کے بعد بھی یاد رکھا جائے گا۔ ایک اور نہایت اہم معاملہ جس کا تعلق بڑی حد تک اردو زبان سے جڑا ہے اس کا بھی ذکر ضروری ہے۔دو دن پہلے فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے سینٹرل سپیرئیر سروس یعنی سی۔ایس۔ایس امتحانات برائے 2022 کے نتائج کا اعلان کیا ہے۔اس امتحان میں 20262 امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ تحریری امتحان کا نتیجہ سامنے آیا تو 393 امیدوار کامیاب ہو سکے تھے۔ اس کے بعد زبانی امتحان کا مرحلہ آیا۔اس مرحلہ میں 237 امیدوار کامیابی حاصل کر سکے۔ اندازہ کیجئے کہ 20 ہزار 25 امیدوار ناکام ہو گئے۔ کامیابی کا تناسب 2 فیصد سے بھی کم رہا۔ اب حسب معمول اس امتحانی نتیجے پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ نظام تعلیم کی ناکامی ہے۔ یا یہ کہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کے فیل ہو نے کی ذمہ داری ناقص معیار تعلیم پر عائد ہوتی ہے۔ ایک جگہ یہ تبصرہ بھی پڑھنے کو ملا کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہم اس انجام کو پہنچے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔تبصروں اور تجزیوں کا یہ سلسلہ کچھ دن مزید جاری رہے گا۔ ا س کے بعد حسب عاد ت ہم سب بھول بھال کر اپنے اپنے کامو ں میں مصروف ہو جائیں گے۔اس صورتحال میں بہتری لانے کے لئے کوئی عملی اقدام اٹھانے کی نوبت نہیں آئے گی۔ اگلے سال جب سی۔ایس۔ایس کے نتائج کا اعلان ہو گا۔ تب ایک مرتبہ پھر یہ بحث شروع ہو جائے گی۔ گزشتہ دس بارہ برس سے سی۔ ایس۔ایس کے نتائج کے بعد یہی کچھ ہوتا ہے۔ یقینا ناقص معیار تعلیم، مشکل امتحانی پرچے، امیدواروں کی عدم توجہی، محنت سے دوری، اور دیگر عوامل اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ اس صورتحال کا تجزیہ کسی اور کالم کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
فی الحال ایک اہم پہلو کا ذکر ضروری ہے۔ سی۔ایس۔ ایس کے امتحان کے نتائج میں گراوٹ کے اسباب میں انگریزی زبان بھی شامل ہے۔ بیشتر طلباء و طالبات اور ماہرین تعلیم اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سی۔ ایس۔ ایس کا امتحان پاس کرنے کے لئے امیدوار کے لئے لازم ہے کہ اس کی انگریزی زبان پر گرفت ہو۔ اس میں تحریری اور تقریری دونوں طرح کی انگریزی شامل ہے۔ سی۔ایس۔ایس کے امتحانی پرچے انگریزی میں ہوتے ہیں۔ ان کے انٹرویو انگریزی میں ہوتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ ایک امیدوار جو ذہین ہے، قابل ہے، محنتی ہے، ایماندار ہے، مختلف مضامین میں مہارت رکھتا ہے، ملک کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے، ملک کے کام آسکتا ہے۔ وہ صرف اس وجہ سے فیل ہو جاتا اور بیوروکریسی کا حصہ نہیں بن سکتا کہ اس کو ایک غیر ملکی زبان یعنی انگریزی پر عبور حاصل نہیں ہے۔ اس کی ساری خوبیاں، ساری قابلیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ یہ نہایت زیادتی کی بات ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ کسی نے آج تک اس صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینے اور اس معاملے میں بہتری لانے کے لئے کوئی سنجیدہ کاوش کرنے کی زحمت نہیں کی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.