پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی طرف سے اپنے نگران مینڈیٹ سے متجاوز معاملات سے ہر گز اتفاق نہیں کیا جا سکتا مگر دوسری طرف صوبے میں گورننس کے فروغ،عام سرکاری ملازمین کی ترقیوں،فلاح و بہبود، اور زرعی معیشت کی بہتری کے لئے ان کی کوششوں اور محنت کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ہفتہ کے روز پنجاب کے انتظامی سیکرٹریوں کا اجلاس شائد پنجاب میں اب تک ہونے والے کابینہ کے اجلاسوں اور دوسری میٹنگز سے زیادہ ثمرآور دکھائی دیتا ہے جس میں وزیر اعلیٰ،چیف سیکرٹری اور دوسرے انتظامی سیکرٹریوں نے نہ صرف ایک دوسرے کی باتیں دل کھول کر سنیں اور سنائیں بلکہ آئندہ کے لیے ایک اچھے روڈ میپ کو زیر بحث لایاگیا۔ وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے اس اہم اجلاس میں اپنے پرانے دوست،موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے کام اور فالو اپ کی کھل کر تعریف کی مگر اکثر صوبائی سیکرٹریوں کی طرف سے کام نہ کرنے کا گلہ بھی کر دیا،انہوں نے چیف سیکرٹری اور سیکرٹریوں کو مخاطب کر کے کہا کہ،،آئی جی کو جو ٹاسک دیں وہ اسے مکمل ہونے تک نہیں چھوڑتے،وہ اس کام کے پیچھے لگ جاتے ہیں مگر ہمارے صوبائی سیکرٹریز ایسا بالکل نہیں کرتے وہ فالو اپ کرتے ہیں نہ اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے میں دلچسپی لیتے ہیں“۔
یہ بات درست ہے کہ وزیر اعلیٰ نقوی کی دلچسپی کی وجہ سے ان کے نگران دور میں چھوٹے ملازمین کی ریکارڈ ترقیاں ہو رہی ہیں جو کسی ریگولر دور حکومت میں بھی کم نظرآتی ہیں،وزیر اعلیٰ اس کام کے لئے ہر اجلاس میں پوچھتے ہیں،انہوں نے یہ ہدایات جاری کی ہوئی ہیں کہ چھوٹے ملازمین کی فوری ترقیوں کے لئے محکمانہ پروموشنز کمیٹیوں کے بار بار اجلاس کئے جائیں اور مجھے ان کی رپورٹس دی جائیں۔وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کی طرف سے گورننس کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک بہت ہی اچھا فیصلہ کیا گیا کہ ہر صوبائی سیکرٹری کو ایک ضلع الاٹ کیا جائے گا جہاں وہ ہر بدھ کو جایا کرے گا اور گورننس کے تمام مسائل کا جائزہ لے کر اسے موقع پر حل کرے گا یا اسے حل کرنے کی تجاویز دیا کرے گا۔اجلاس میں ایک اچھا فیصلہ یہ بھی ہوا کہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر پر بھی چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے،اس کے متعلقہ ضلع کی زمینوں،ریونیو اور دوسرے معاملات کی باقاعدہ رپورٹ کی جائے گی۔ گورننس کی بہتری کے لئے اجلاس میں ایک بار پھر مجسٹریسی سسٹم کی بات کی گئی، میری نظر میں یہ سسٹم ایک بہترین آپشن ہے جس سے حکومتوں کی بیڈ گورننس کو گڈگورننس میں بدلا جا سکتا ہے،اسی طرح صوبائی سطح پر صوبائی سول سروس کے ساتھ وفاقی یعنی پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کا معاندانہ رویہ بھی ہے جس کی وجہ سے آئے روز صوبائی سروس کے پیدا ہونے والے خدشات ہیں۔
گورننس کی ناکامی اس وقت ہوتی ہے جب چیف سیکرٹری اورآئی جی پولیس کی نگرانی وفاق کرتا ہے جس سے صوبائی وزیر اعلیٰ،کابینہ اور منتخب اسمبلیوں کو غیر اہم کر دیا جاتا ہے،سول سروس کی بنیاد 1915ء کے انڈین ایکٹ کی روشنی میں 1954 میں رکھی گئی اور اس کا بنیادی مقصد صوبوں کو وفاق کے ذریعے کنٹرول کرنا تھا،مگر حیرت انگیز طور پر یہ قواعد نہ توآئین کا حصہ ہیں نہ اس حوالے سے قانون سازی کی گئی بلکہ صرف ایک زبانی معاہدے کے تحت صوبائی بیوروکریسی کی قسمت،مستقبل اور اختیارات طے کر دئے گئے،جس کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں ہے،1935ء کے قوانین اس حوالے سے عارضی نافذ کئے گئے مگر 1956ء اور1962ء کیاآئین میں اس کا تذ کرہ موجود نہیں،ذوالفقار علی بھٹو نے سی ایس پی سروس کی جگہ سی ایس ایس کا نظام متعارف کرایامگر ایک ایگزیکٹیوآرڈر کے ذریعے صوبائی پوسٹس پر وفاقی بیوروکریسی لگا دی گئی،ہونا تو چاہئے تھا کہ سی ایس پی کو ایکٹ، رولز اورکیڈر کے ذریعے نافذ کیا جاتا مگرآئین کے ذریعے ایسا ممکن نہ تھا اس لئے انتظامی حکم کا سہارا لیا گیا۔ ایسے حالات میں 250سالہ قدیم نظام کو تبدیل کرنے کا خواب بھی کالونیل نظام میں کہیں گم ہو کررہ گیا ہے اور اسی بوسیدہ اور ناکارہ نظام کو اصلاحات کے ذریعے بحال کرایا جا رہا ہے جس پر صوبائی بیوروکریسی میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے،لیکن جب تک اس بنیادی تضاد کا حل نہیں نکالا جا تا ریاست کمزور رہے گی،گلگت بلتستان سمیت تمام صوبوں کی بیوروکریسی کی خواہش ہے کہ وہ تمام رولز جو قانون سازی کے بغیر وجود میں آئے ان کو تحلیل کر کے قانون سازی کے ذریعے صوبائی بیورو کریسی کو تحفظ دیا جائے،ورنہ سٹیٹس کو مزید مضبو ط ہو جائے گا او ر کسی بھی تبدیلی کا خوابآنکھوں میں ہی دم توڑ دے گا۔اس نازک صورتحال میں جس کا کام اسی کو ساجھے،ا نتہائی ضروری ہے کہ وفاقی بیوروکریسی اپنا رویہ بدلے اور صوبائی بیوروکریسی کو اس کا جائزآئینی حق دے اسے تیسرے درجے کی مخلوق اور شودر نہ سمجھے،خالص صوبائی پوسٹ پر وفاقی افسر کی تعیناتی وفاق اورآئین کو کمزور کرتی ہے اس روش کو بھی بدلنا ہوگا۔
بیوروکریسی کسی بھی ملک کے نظام میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا چہرہ ہوتی ہے،سرکاری مشینری کا ہر کل پرزہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے،درجہ بدرجہ کام ہونے سے ہر کام میں معقولیت آتی ہے اور گڑبڑ کے امکانات کم سے کم ہوتے چلے جاتے ہیں،اگر کہا جائیکہ ملکی آئین اور حکومت کی وضع کردہ پالیسیوں کے تحت سرکاری امور کی انجام دہی بیوروکریسی کافرض منصبی اورآئینی تقاضا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ہمارے ہاں وفاقی اور صوبائی سول سروس اور مزید براں ان کے الگ الگ محکمہ جاتی ونگ کام کر رہے ہیں،ان سب پر کسی وقت الگ سے سیر حاصل گفتگو کریں گے۔ بد قسمتی سے پاکستان ماضی میں برطانوی کالونی رہا اور اب بھی کالونیل نظام ہی کے زیر اثر اور وفاق کا مرہون منت ہے جسکی وجہ سے ملک اور صوبوں میں بیوروکریسی بٹی ہوئی ہے،وفاقی بیوروکریسی اور صوبائی بیوروکریسی جو پی اے ایس (پاکستان یڈمنسٹریٹو سروس) اور پی ایم ایس(پروونشل مینجمنٹ سروس) کہلاتی ہے۔اسی طرح پولیس سروس آف پاکستان اور صوبائی پولیس سروس ہے۔ اکثر صوبائی افسروں کا کہنا ہے کہ ملک میں وفاقی سروس،خصوصی طور پر پی اے ایس کا راج ہے،تمام پالیسیاں وہی بناتے ہیں اور عمل درآمد بھی وہی کراتے ہیں۔پی ایم ایس افسران کے مطابق ان کو اپنے اپنے صوبوں کی پوسٹوں پر تعیناتی کیلئے پورا حصہ نہیں مل رہا جس کی وجہ سے اس کے اکثر ارکان دوسرے درجے کے شہری یا افسر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔میری نظر میں اس وقت جہاں وفاقی سروس والوں کی کچھ زیادتیاں ہیں و ہاں صوبائی سروس کی ٹریننگ اور ان کے اپنے دوسرے معاملات کا بھی قصور ہے۔
صوبائی افسروں کے خدشات تحفظات اور مطالبات کی روشنی میں نظام کا سرسری جائزہ لینا بھی ضروری ہے اور وفا قی حکومت خاص طور پر وزیر اعظم کو اس حوالے سے سوچ بچار بھی کرنا ہو گی ورنہ ریاست کا تیسرا مگر اہم ستون اور حکومت کاچہرہ انتظامیہ اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں مشکلات کا شکار رہے گا اور حکومت ڈیلیور نہیں کر سکے گی۔
تبصرے بند ہیں.