اصل سسلین مافیا کون ہے؟

70

اتوار کو چھٹی کے دن بچوں سے گپ شپ کا وقت مل جاتا ہے۔ باتیں ہو رہی تھیں کہ ہم نے مذاق میں اپنے بیٹے سے پوچھا کہ کل تو تیرے لیڈر کی ریلی ہے ۔ بیٹے نے اسی لہجہ میں ہمیں رپلائی کیا ” میرے لیڈر نے انی پا دینی اے “ ۔ہم نے کہا کہ ہزار دو ہزار بندہ ہونا ہے تو ” انی “ کہاں سے اس نے پا دینی اے تو اس نے بات تو مذاق میں کہی لیکن بعد میں سو فیصد سچ ثابت ہوئی ۔ بیٹے نے کہا کہ ابو جی آپ کو عمران خان کی مقبولیت پر یقین ہو یا نہ ہو لیکن مجھے نواز لیگ کی حکومت کی اہلیت پر پورا بھروسا ہے ۔ ریلی والا دن تو خیریت سے گذر گیا لیکن اس دن بھی حکومت نے اسلام آباد پولیس کو ہیلی کاپٹر سے لاہور پہنچا دیا تھا سارا دن یہ خبر چلتی رہی اور شام کو جا کر اس کی تردید کی گئی ۔ منگل کو لاہور میں تماشا شروع ہوا تو اس کا وقت بڑھتا ہی رہا اور پھر پوری رات گذر گئی لیکن پولیس اور رینجرز مل کر بھی عمران خان کو گرفتار نہیں کر سکیں اور پوری دنیا کو ریاستی کمزوری کی وجہ سے جگ ہنسائی کا موقع ملا ۔ ایک دور تھا کہ پاکستان میں ریاست کی رٹ مضبوط تھی اور نوجوان نسل کو شاید یقین نہ آئے لیکن گاﺅں دیہا ت میں خاص طور پر اور شہروں میں بھی ایک حوالدار کی اچھی خاصی دہشت ہوتی تھی لیکن پھر سرکاری سرپرستی میں اسلحہ بردار مذہبی گروہوں کو پروان چڑھایا گیا اور ان کے کسی غیر قانونی فعل پر کارروائی کے بجائے ان کے ساتھ تعاون کی ہدایات تھیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے ہی قلیل وقت میں ریاستی عملداری کمزور ہو گئی اور مذہبی جتھے مضبوط ہوتے چلے گئے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ریاست اس حد تک کمزور ہو گئی یا یہ کہہ لیں کہ دیدہ دانستہ ریاست کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے کمزور کیا گیا کہ مذہبی طبقہ کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے ہی ریاست کی ٹانگیں کانپنا شروع ہو جاتیں۔ پھرمعاشی حب، روشنیوں کے شہر کراچی کو نشانہ بنایا گیا ۔ کسے نہیں پتا کہ الطاف بھائی کو کس نے لانچ کیا اور مہاجر قومی موومنٹ کس کی سرپرستی میں بنی اور اگر بنا ہی دی تھی تو چلیں یہ کام تو ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے لیکن شہر قائد کا امن تباہ کرنے کے لئے اسلحہ کی سیاست کیوں شروع کی۔ جس نے روشنیوں کے شہر کو اندھیروں کی نذر کر دیا۔
توشہ خانہ کیس میںبار بار طلبی کے باوجود عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوئے بلکہ اسلام آباد میں تین عدالتوں میں پیش ہوئے لیکن 15منٹ کی مسافت پر توشہ خانہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ اس عدم حاضری پر یہ جواز پیش کیا کہ وہاں جان کا خطرہ تھا حالانکہ اصل بات یہ تھی کہ اس دن خان صاحب پر فرد جرم عائد ہونا تھی اور فرد جرم ملزم کی غیر موجودگی میں عائد نہیں ہوتی۔ غیر حاضری پر عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے۔ جس پر تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ اس پر عدالت نے وارنٹ گرفتاری 13مارچ تک منسوخ کر دیئے اور عمران خان کو اس دن توشہ خانہ کیس میں پیش ہونے کا کہا۔ اس دن پھر جان کو خطرہ ہے، کہہ کر پیش نہیں ہوئے لیکن اس جان کو ریلی میں خطرہ نہیں تھا اس لئے ریلی کی قیادت کرتے ہوئے، اختتام پر ریلی سے خطاب بھی کیا۔ اس سے اگلے دن منگل کو پونے تین بجے دو پہر کے قریب پولیس کی بھاری نفری نے زمان پارک کی جانب پیش قدمی شروع کی۔ جی ہاں انتہائی مجبوری کے تحت پولیس زمان پارک پہنچی کے بجائے پیش قدمی کے الفاظ
استعمال کر رہے ہیں۔ اس لئے کہ وہاں جو صورت حال بنی اور تادم تحریر 24 گھنٹے ہو چلے ہیں پولیس کی پیش قدمی جاری ہے لیکن ابھی تک زمان پارک تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی ۔دوسری طرف تحریک انصاف گرفتاری نہ دینے کے جو جواز پیش کر رہی ہے وہ بڑے دلچسپ ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس انھیں وارنٹ گرفتاری دکھائے وہ اسے دیکھیں گے پھر وہ اسے اپنے قائد کے پاس لے کر جائیں گے اور وکلا کی ٹیم سے مشاورت کے بعد کوئی معقول راستہ نکالیں گے۔ شبلی فراز نے اسلام آباد میں کہا کہ سانحہ71میں ملک دو لخت ہو گیا تھا بی بی شہید کی شہادت سے کمزور ہوا تھا بھٹو صاحب کی پھانسی نے ملک میں نفرت کو جنم دیا اور ان سب کی باتوں میں جو بات مشترک ہے اور جس کا اظہار عمران خان نے بھی بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا کہ 18تاریخ تک وہ ضمانت پر ہیں۔ یہ بات کہ جس کا ڈھنڈورا پوری پی ٹی آئی میڈیا پر پیٹ رہی ہے صریحاًجھوٹ ہے اس لئے کہ یقینا عمران خان کی دو کیسوں میں 18تاریخ تک اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضمانت لے رکھی ہے لیکن توشہ خانہ کیس میں 13تاریخ تک وارنٹ گرفتاری منسوخ ہوئے تھے اور اس دن پیش ہونے کا موقع دیا گیا لیکن جب خان صاحب پیش نہیں ہوئے تو سیشن کورٹ نے دوبارہ وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے اور اسی کی تعمیل کے لئے پولیس زمان پارک پہنچی تھی لیکن جب عمران خان کے گھر کے گیٹ پر پہنچی تو گلگت بلتستان کے پولیس اہلکار جو رہائش گاہ کے اندر موجود تھے انھوں نے پولیس پر گنیں تان لیں اور پولیس کو رکنا پڑا۔ اگر 18تاریخ والا موقف درست ہوتا تو پھر تحریک انصاف کون سے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرانے بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ گئی تھی۔
یہ تھی مختصر سی تفصیل لیکن اس دوران جو کچھ بھی ہوا اس میں حکومت کا حد درجہ نا اہلی کا بنیادی کردار ہے۔ ہم نے بچپن سے دیکھا ہے کہ سیاسی رہنماﺅں نے کبھی گرفتاری میں مزاحمت نہیں کی اور بڑے بڑے سیاسی لیڈر وں نے برسوں جیل میں گذارے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں جسے سب سے زیادہ بہادر لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا اسی نے گرفتاری سے انکار کر کے بزدلی کا ثبوت دیا اور جس طرح چند دن پہلے ظلِ شاہ کی المناک موت ہوئی تھی تو اس کے بعد عمران خان کا خود تو چھپ کر گھر بیٹھ جانا اور کارکنوں کو پولیس کے ساتھ لڑا دینا ہمارے خیال میں کسی سیاسی رہنما کا کام نہیں۔ عمران خان گرفتار ہوتے ہیں یا نہیں
لیکن ان کے اس طرز عمل نے ایک بات تو بہر حال ثابت کر دی کہ پاکستان میں اصل سسلین مافیا کون ہے اور اس کا سربراہ کون ہے جو کسی گاڈ فادر کی طرح گھر میں بیٹھ کر اپنے آدمیوں کو ریاستی طاقت سے ٹکرا دیتا ہے اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ کوئی کارکن مرتا ہے زخمی ہوتا ہے یا گرفتار ہوتا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی نا اہلی تو ہے لیکن پھر بھی پولیس اور حکومت کی اس بات پر تحسین کرنی چاہئے کہ انہوں نے حتی الوسع تشدد سے گریز کیا ہے اور کسی اہل کار کے پاس اسلحہ نہیں ہے ورنہ گرفتاری کوئی مشکل نہیں تھی بہرحال اب PSLکے میچ کو وجہ بنا کر پولیس پیچھے ہٹ گئی ہے اور امید ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے فیصلہ حق میں آنے کے بعد حکومت اپنی بے عزتی خراب کر کے واپس پویلین لوٹ آئے گی۔ اسی لئے پنجابی میںکہتے ہیں کہ نانی نے خصم کیا برا کیا لیکن کر کے چھوڑا تو اور بُرا کیا۔

تبصرے بند ہیں.