وفاقی حکومت نے چار سو چھیالیس صفحات پر مشتمل 2002 سے 2023 تک بائیس سال کا توشہ خانہ کا ریکارڈ جاری کر دیا ہے۔ جس میں مختلف حکومتی شخصیات کی اِس دوران توشہ خانہ سے لئے گئے تحائف کی تفصیل دی گئی ہے۔ اس تفصیل میںاس دور کے وزرائے اعظم اور صدورِ مملکت کے نام تحائف لینے والوں میں شامل ہیں تو ان کے علاوہ فوج کی اعلیٰ قیادت سے تعلق رکھنے والی شخصیات ، کابینہ کے ارکان اور اعلیٰ عہدوں پر فائز بیوروکریٹس کے نام بھی اس فہرست میں موجود ہیں۔ ایک قومی معاصر میں اس بارے میں چھپی تفصیل دیکھ کر یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ توشہ خانہ کو ایک بہتی گنگا سمجھ کر مقتدر افراد نے اُس سے ہاتھ دھونے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ 2002 سے 2007 کے برسوں کو دیکھیں تو توشہ خانے سے برائے نام قیمت یا مفت تحائف لینے والوںکے جو نام سامنے آئے ہیں اُن میں اُس دور کے صدرِ مملکت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف مرحوم اور وزرائے اعظم میر ظفراللہ جمالی مرحوم اور شوکت عزیز کے نام سرِ فہرست ہیں۔ ان کے ساتھ وفاقی کابینہ کے ارکان میں خورشید محمود قصوری، عبد الستار، حنا ربانی کھر، جہانگیر ترین، شیخ رشید احمد، عامر لیاقت حسین، ڈاکٹر عطاالرحمن ، عمر ایوب اور سکندر حیات بوسن کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
ان محترم شخصیات کی طرف سے تحائف اور ان کی ادا کی گئی قیمت یا انہیں بلا معاوضہ لینے کی تفصیل سامنے رکھیں تو اس پر حلوائی کی دکان اور نانا جی کی فاتحہ کی کہاوت صادق آتی ہے۔ میر ظفر اللہ جمالی مرحوم نے بطورِ وزیر اعظم ایک کارپٹ لیا تو اُس کی قیمت صرف 3000 روپے ادا کی۔ جناب شوکت عزیز نے بطورِ وزیرِ اعظم توشہ خانے سے بلا معاوضہ یا انتہائی کم قیمت پر تحائف لینے میں انتہا ہی کر دی۔ انہوں نے گلدان اور اِسی طرح کے ڈیکوریشن پیس بلا معاوضہ لیے اور دو انتہائی قیمتی گھڑیوں کے محض 39400 اور 176450 روپے ادا کیے۔ صدرِ مملکت پرویز مشرف کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ اُنہوں نے فوٹو فریم،گلدان اور سینری وغیرہ جیسے تحائف مفت لیے تو ایک ریوالور کے 9300روپے جمع کرائے جبکہ ان کی اہلیہ بیگم صہبا مشرف نے ایک جیولری بکس بغیر قیمت ادا کیے اپنے پاس رکھ لیا۔ کابینہ ارکان جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے اُن میں سے جناب جہانگیر ترین نے ایک ٹائی صرف اور صرف189 روپے میں اور ایک گلدان صرف 1960 روپے میں لیا۔ عامر لیاقت حسین نے ایک گھڑی کے محض 3000 روپے جمع کرائے تو ایک ٹریگر مفت لیا۔ شریف الدین پیر زادہ صاحب نے ایک قیمتی گھڑی کے صرف 13500روپے ادا کیے۔اس دور کے اعلیٰ سرکاری عہدیداران بھی توشہ خانے کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ بریگیڈیئر ندیم تاج ، ایم سلیم، انور محمود، سینیٹر طارق عظیم اور بیگم و جنرل شفاعت وغیرہ کے نام اس فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے اونے پونے داموں تحائف حاصل کیے۔
2008ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی ۔ سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے اور کچھ عرصہ بعد آصف علی زرداری نے صدر مملکت کا
منصب سنبھالا تو توشہ خانے سے اونے پونے داموں یا بلامعاوضہ تحائف لینے کی لوٹ سیل نے اور زور پکڑ لیا۔ جناب آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں توشہ خانے سے 181 تحائف لیے تو وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی تحائف لینے میں اپنا پورا حصہ ڈالا۔ جناب آصف زرداری نے جہاں ڈیکوریشن کی مختلف اشیا برائے نام قیمت پر یا بغیر قیمت ادا کیے اپنے پاس رکھ لیں وہاں ایک انتہائی قیمتی اور مہنگی BMW گاڑی کے تقریباً 41 لاکھ روپے ادا کرکے اس کی ملکیت بھی حاصل کی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ، ان کی بیگم ، ان کے بیٹے اور بھائی نے بھی کئی تحائف لیے۔ جن میں 6ہزار روپے میں لیا گیا خانہ کعبہ کے دروازے کا ماڈل ان کی بیگم کی طرف سے 3لاکھ 26ہزار روپے میں لیا گیا جیولری بکس بھی شامل ہیں۔ ان کی کابینہ میں شامل شاہ محمود قریشی نے کفلنکس اور پن کا تحفہ مفت لیا ، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے قالین کا تحفہ 6ہزار روپے ادا کرکے اور حنا ربانی کھر نے محض 20400روپے ادا کرکے ایک قیمتی گھڑی حاصل کی۔
2013 میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو توشہ خانہ سے تحائف لینے کا سلسلہ جاری رہا۔ تاہم اس بار اتنا ضرور ہوا کہ تحائف لینے والوں نے تحائف کی متعین کردہ قیمت کا 20 فیصد ضرور ادا کیا۔ میاں نواز شریف نے بطوروزیر اعظم 55 اور جناب شاہد خاقان عباسی نے بطور وزیر اعظم 27 تحائف لیے۔ میاں نواز شریف نے رولیکس گھڑیاں لیں تو ان میں سے ایک کے انہوں نے 2لاکھ 43ہزار روپے اور دوسری کے 2لاکھ 40ہزار روپے ادا کیے ۔ انھوں نے ایک سینری بھی لی تو ان کی اہلیہ محترمہ نے 27ہزار روپے میں ایک نیکلس خریدا۔ ان کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے بھی اس عرصہ میں دو گھڑیاں لیں جن میں سے ایک کی قیمت انھوں نے 6لاکھ 51ہزار روپے ادا کی تو دوسری کی 1لاکھ 68ہزار روپے ادا کی گئی۔ دیکھا جائے تو فواد حسن فواد کی طرف سے ادا کی جانے والی گھڑیوں کی یہ قیمتیں مختلف اوقات میں دوسرے افراد کی طرف سے ادا کی جانے والی گھڑیوں کی قیمتوں کے مقابلے میں زیادہ سمجھی جا سکتی ہیں۔ جناب شاہد خاقان عباسی نے بھی 5لاکھ 60ہزار روپے میں ایک گھڑی اور شجاعت عظیم نے 67ہزار روپے میں ایک گھڑی خریدی۔اس عرصے میں صدر مملکت ممنون حسین مرحوم نے بھی توشہ خانے سے تحائف لینے میں اپنا پورا حصہ ڈالا۔ وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال وغیرہ نے بھی بعض تحائف لیے۔
اگست 2018ءمیں جناب عمران خان وزیر اعظم بنے اور اپریل 2022 کے اوائل تک اس منصب پر فائز رہے تو اس عرصے میں نہ صرف ان کی اور ان کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی کی طرف سے توشہ خانے سے تحائف لینے کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے بلکہ جناب عمران خان کی کابینہ کے فوادحسین چوہدری اور اسد عمر جیسے ارکان نے بھی تحائف لینے میں کوئی کسر روا نہ رکھی۔ جناب عمران خان نے اس عرصہ میں کل 112تحائف لیے۔ تاہم انھوں نے یہ قانون پاس کرانے کے باوجودکہ تحائف کی متعین کردہ قیمت کا 50فیصد قومی خزانے میں جمع کرانا ضروری ہوگا پر عمل در آمد کرنے کے بجائے انتہائی کم یا برائے نام قیمت پر تحائف حاصل کیے۔ ان میں قیمتی رولکس گھڑیاں، کفلنکس اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے دی جانے والی مسجد الحرام کے ماڈل کی انتہائی نادر اور قیمتی گھڑی بھی انھوں نے ایسے ہی حاصل کی ۔ ان کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی کی طرف سے 3قیراط ، سونے اور ہیروں کے قیمتی ہار بھی لیے جانے والے تحفوں میں شامل تھے۔ جناب عمران خان کی طرف سے ایک اور زیادتی یہ کی گئی کہ بیرونی دوروں پر ملنے والے قیمتی تحائف وہ توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے براہ راست اپنے پاس رکھ لیتے پھر اپنی مرضی سے ان کی قیمتوں کا تعین کرانا اور اس طرح اونے پونے داموں حاصل کرنا بھی ان کے دور میں بھی جہاں چلتا رہا وہاں بعد میں ان کو مارکیٹ کے نرخ پر فروخت کر دینا بھی جاری رہا۔ اس طرح انھوں نے یہ تحائف بیچ کرنہ صرف کروڑوں روپے کمائے بلکہ قومی خزانے کو بھی بھاری نقصان پہنچایا۔ خیر تحفے لینے اور ان سے پیسے کمانے کی یہ تفصیل جہاں طویل ہے وہاں افسوس ناک اور ایک لحاظ سے شرمناک بھی ہے کہ کسی بھی حکومتی یا قومی شخصیت کو ملنے والے قیمتی تحائف ان کی ذاتی حیثیت میں ان کو نہیں ملتے ہیں بلکہ وہ ان کے منصب یا ان کے عہدے کی بنا پر ان کو دیئے جاتے ہیں ۔ اس طرح یہ تحائف ایک طرح سے ملکی عزت اور وقار کی علامت ہوتے ہیں۔ ”میرا تحفہ میری مرضی“ کہہ کر بہر کیف ان تحفوں کو کسی صورت میں بھی بیچا نہیں جا سکتا۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.