2022ءکا ہنگامہ خیز سال گزر گیا، کیا کچھ نہیں ہوا، ایک سال میں دو حکومتیں پہلے چار ماہ عمران خان وزیر اعظم رہے۔ باقی 8 ماہ پی ڈی ایم کی حکومت کے حصے میں آئے لیکن پی ٹی آئی کے پونے چار سال کے دوران بگڑتی معاشی صورتحال بدتر سے بدتر ہوتی گئی۔ اب حالت یہ ہے کہ ماہرین معاشیات کی متفقہ رائے ہے کہ کھیل ختم 25 ہزار ارب ڈالر کا قرضہ ہضم، قومی خزانہ خالی ذمے داروں کے خزانے اوور فلو، کپتان نے 2018ءمیں برسر اقتدار آتے ہی جانے کیا جھرلو پھیرا کہ ان کے چار وزرائے خزانہ معیشت کو ٹریک پر نہ لاسکے ان کے آخری وزیر خزانہ نے تو آئی ایم ایف کے ساتھ مشکل معاہدے پر دستخط کر کے آخری کیل ٹھونک دی۔ پی ڈی ایم کے دونوں وزرائے خزانہ بھی تاحال کچھ نہ کرسکے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل لاکھ تدبیروں کے باوجود مہنگائی پر قابو نہ پا سکے۔ معیشت کے مرد میدان اسحاق ڈار بھی ابھی تک قیمتوں میں استحکام لاسکے نہ ہی ڈالر کو بڑھنے اور پاکستانی روپے کی قدر بڑھانے میں کامیاب ہوئے سبب کیا ہے؟ سابق دور حکومت کے پونے چار سال میں کوئی تبدیلی نظر آئی نہ ہی سیاسی و معاشی استحکام رہا۔ اس کے برعکس جو برسر اقتدار لائے تھے اچھے نتائج برآمد نہ ہونے پر انہوں نے بھی ”لے پالک“ کو گود سے اتار پھینکا۔ اتحادی ساتھ چھوڑ گئے پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوگئی۔ کپتان نے فیصلہ تسلیم کرنے کے بجائے دھمکی دی کہ وہ اقتدار سے محرومی کے بعد مزید خطرناک ہو جائیں گے اور واللہ ایسے خطرناک ہوئے کہ ملک کے لیے خطرہ بن گئے۔ ملک دیوالیہ ہوچکا یا ڈیفالٹ کی لائن پر کھڑا ہے لیکن وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پاپولر میرٹھی نے کہا تھا ”ایسی تبدیلی تو ہم نے کبھی دیکھی نہ سنی، اب اندھیرے نہ اجالے ہیں خدا خیر کرے“ موجودہ حکومت فی الواقعی کپتان کی خطرناکیوں کا مقابلہ کرتے ہانپ گئی ہے۔ عوام کا بھلا نہیں ہوسکا۔ کراچی سے لاہور اور اسلام آباد تک خوفناک خبریں روٹی 40 روپے کی ہوگئی۔ ”غریب کیا کریں گے“ جو میرے جسم میں پیوست ہوگئے وہ تیر، میں کیا بتاﺅں وہ کس کی کمان سے نکلے۔“ کپتان نے اپنے دور میں نا تجربہ کاری کے باعث سنی سنائی بریفنگ پر کئی راستے اختیار کر کے ترقی کی منزل پانے کی کوشش کی مگر بے سود، نا تجربہ کاری اور اچھے ساتھی نہ ملنے کی وجہ سے کچھ نہ کرسکے ایک نوجوان شاعر نے کہا ”ایک منزل کی طرف جاتے ہزاروں راستے، راستوں کی الجھنوں نے راہ سے بھٹکا دیا“ 2022ءکا سورج بحیرہ عرب کے گہرے پانیوں میں ڈوب گیا۔ 2023ءنئے بکھیڑے، نئی الجھنےں اور بعض لاینحل مسائل لے کر شروع ہوا ہے۔ اللہ کرے عوام اور ملک خداداد کے لیے بہتر ثابت ہو، ہر معاملے کے روشن پہلو نظر رکھنے والی ایک خاتون تجزیہ کار نے گزرے سال کے بارے میں کہا کہ اس دوران کئی مثبت فیصلے بھی ہوئے کپتان کی حکومت گئی۔ کم و بیش ہر معاملے پر یو ٹرن سے ان کی متلون مزاجی کا پتا چلا ان کے نت نئے بیانات، حرکات اور اقدامات سے عوام میں مایوسی پھیلی، سارے آپشن ناکام ہوئے۔ دور اندیشی اور دور بین نگاہ نہ ہو تو لیڈر سطحی فیصلے کرتے ہیں اور بھٹک جاتے ہیں۔ ان فیصلوں اور تواتر سے لیک ہونے والی آڈیو ویڈیوز نے صادق اور امین کا لیبل اتار پھینکا۔ صداقت اور امانت کا تمغہ سینے پر سجانے والوں کے بارے میں منظر عام پر آنے والی کہانیوں اور پلے بوائے کے اعتراف سے مقبولیت میں کمی سے کپتان کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ کپتان غصہ میں ہیں۔ مایوسی اور تنہائی کا شکار ہیں۔ زمان پارک میں روزانہ اجلاس، ہر
اجلاس میں نیا موقف، گزشتہ روز اسی قسم کے اجلاس میں پارٹی رہنماﺅں پر برس پڑے، آئے دن بری خبریں مل رہی ہیں۔ کرپشن، قریبی ساتھیوںکی اربوں کی کرپشن سے نظریں چرانے، توشہ خانہ سے تحائف لے کر مہنگے داموں بیچنے اور اربوں کے اثاثے بنانے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ الزام لگایا گیا کہ 6 ارب کے اثاثے مبینہ طورپر 13 ارب کیسے ہو گئے۔ 467 ایکڑ اراضی کہاں سے ملی، فارن فندنگ کیس جان کو آگیا نوٹس پر نوٹس، دو درجن سے زائد کیسز زیر سماعت ہیں۔ اوپر والوں کا کہنا ہے ”کہاں تک بچو گے کہاں تک بچائیں۔“ سپریم کورٹ سے بھی ریلیف نہ ملا تو کپتان کا ذکر صرف محفلوں تک محدود ہوجائے گا۔ سیاست اور انتخابی عمل سے نکل جائیں گے۔ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کپتان کو سہولت کار نہیں ملیں گے تو ان کا دو تہائی اکثریت کا خواب بکھر جائے گا۔ سعودی ولی عہد نے اپنے دورے میں 12 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کرنا تھا مگر کپتان کے 17 نومبر کو پنڈی میں دھرنا دینے کی دھمکی سے بساط الٹ گئی۔ اسی دھمکی کے فوراً بعد سعودی سفارت خانے کے ایک افسر کو سوتے میں جگا کر پیغام دیا گیا کہ ملک کے حالات اچھے نہیں ولی عہد کو دورہ کرنے سے روک دیں۔ پیغام کس نے دیا تفصیلات منظر عام پر آ رہی ہیں۔ افسر کون تھے کس کے سہولت کار تھے۔ تحقیقات جاری ہیں۔ طلمساتی داستان ہے۔ ایک حماقت نے معیشت کو ان حالات تک پہنچایا کہ اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر 4 ارب58 کروڑ ڈالر کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے کسی نے نہیں پوچھا کہ 2018ءسے پہلے 27 ارب ڈالر کے ذخائر کہاں گئے؟ حامی اس صورتحال پر تالیاں بجا رہے ہیں۔ نہیں جانتے کہ دیوالیہ ہونے سے صرف موجودہ حکومت ہی نہیں ان سمیت 23 کروڑ عوام بھی متاثر ہوں گے۔ کپتان کی حکومت بھی کیا کرلے گی۔
2023ءکے آغاز ہی سے کپتان کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جنوری کے آغاز ہی میں کور کمانڈرز کانفرنس اور قومی سلامتی کمیٹی کے طویل اجلاسوں میں جن دو اہم مسائل دہشت گردی کے خاتمے اور معاشی صورتحال کو تباہی سے بچانے کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جو اہم فیصلے کیے گئے ہیں وہ شاید سابق وزیر اعظم کو راس نہیں آئیں گے۔ انہیں احساس دلایا گیا ہے کہ اب کوئی ان کے جھانسے میں نہیں آئے گا۔ مقتدر شخصیت سے ملاقاتوں کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوسکیں۔ بلکہ سخت پیغام دیا گیا کہ وہ جلد انتخابات کی رٹ لگانے کے بجائے میثاق معیشت پر عملدرآمد کے سلسلے میں تعاون کریں۔ کپتان سیاستدانوں کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار نہیں۔ جلد انتخابات کا مطالبہ مسترد کردیا گیا جس کا اعتراف خود انہوں نے کہا کہ مجھے اگست ستمبر میں بھی الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے۔ ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ کی ہوائی بھی پھلجھڑی ثابت ہوئی۔ سیاسی فضا تبدیل ہو رہی ہے۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل صرف اعلانات تک محدود، وزیر اعلیٰ پنجاب کے اعتماد کا ووٹ لینے سے گریز کے بعد مایوس ہو کر کپتان نے مہنگائی کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کا جو اعلان کیا تھا وہ ایک ہی دن میں ناکام ہوگیا۔ بڑے چھوٹے شہروں میں لاکھوں کے بجائے سیکڑوں مظاہرین جن کے قریبی ارب پتی ساتھی بھی شامل تھے جمع ہوسکے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرے یا دھرنے کی کال بھی واپس لے لی گئی۔ حکومت نے اقتصادی بحالی تک الیکشن نہ کرانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس وقت تک کپتان کہاں ہوں گے خود کہتے ہیں کہ لوگ مجھے گرفتار کرانا چاہتے ہیں۔ گرفتاری پر ان کی خواہش کے مطابق لوگ کیسے باہر نکلیں گے جان چکے ہیں کہ ”پھولوں کا خریدار ان کے دامن میں شراروں کے سوا کچھ نہیں بھرسکا“ جھولی میں کانٹے بھرے ہوں تو سڑکوں پر کون آئے گا۔ قومی اسمبلی سے استعفوں کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سخت نوٹس لے لیا گیا اور 17 جنوری کو طلب کرلیا گیا ورنہ وارنٹ گرفتاری، کب تک ضمانتوں کا سہارا لیں گے۔ 11 جنوری یا اس کے بعد پنجاب اسمبلی کا بھی فیصلہ ہونے کا امکان ہے پارلیمانی اجلاس میں 190 کے بجائے 167 ارکان کی حاضری نیک شگون نہیں۔ پتے جھڑنے لگے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ 20 یا 32 ارکان توقعات کے مطابق اسمبلی اجلاس سے غیر حاضر ہوگئے تو پانسہ پلٹ جائے گا۔ اور رن آف الیکشن میں ن لیگ کی حکومت قائم ہوجائے گی۔ پھروہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا۔ ”پلاﺅ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا“ کپتان اسٹیبلشمنٹ سے ابھی تک چاند مانگ رہے ہیں جبکہ آئندہ حکومت کے لیے کسی پرانے فارمولے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ آئندہ انتخابات میں پھر پریشر گروپ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا ماہر نجوم کا کہنا ہے کہ 17 جنوری کے بعد سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے لیکن کپتان کا ستارہ نحس گنبد میں داخل ہوگیا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی اور کپتان میں بڑھتی کشیدگی کیا رنگ لائے گی دیکھنا ہوگا۔ ٹائمنگ اہم فیکٹر ہے چوہے بلی کا کھیل جاری ہے کون کہاں ہوگا ایک کو پڑا جوتا دوسرے کا پڑاﺅ جیل ”الجھا ہے پاﺅں یار کا کالا باغ کی خاتون کی زلف دراز میں، لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا“ ملک کا اللہ حافظ۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.