سونے کا کشکول اور پاکستانی معیشت۔۔۔۔۔

23

وزیر اعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر عمران خان سمیت آجکل ہر خاص و عام ایک بات شدت سے دہرا رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت تباہی کے دہانے پر ہے اور خدانخواستہ ڈیفالٹ کے قریب ہے۔ پارلیمانی جمہوری معاشرے میں ایسی باتیں عموماً اپوزیشن کی طرف سے آتی ہیں لیکن حیران کن طور پر حکومت بھی یہی راگ الاپ رہی ہے۔ حکومت کو تو مسئلے کے حل کاسوچنا چاہیے نہ کہ اس کا حصہ بننے اور یہ منترا دہرانا کہ ہم معاشی تباہی کی طرف جا رہے ہیں حکومت کا کام نہیں لیکن ہمارے وفاقی وزرا اسی رستے پر سرپٹ دوڑے جا رہے ہیں۔دوسری طرف ہم اپنی عیاشیاں کم کرنے کے بجائے بقول ایک غیر ملکی سفیر کے جب امداد مانگنے بھی جاتے ہیں تو سونے کا کشکول لے کر اور دینے والا سوچتا ہے کہ ان کو امداد دیں یا کشکول چھین لیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں معیشت ٹیکسز پر چلتی ہے اور ہر اک پر حصہ بقدر جسہ کے حساب سے ٹیکس نافذ ہوتا ہے۔ اس سے کوئی مبرا نہیں ہوتا خصوصاً حکمران و تاجر طبقہ کو اس سے چھوٹ نہیں ہوتی لیکن وطن عزیز میں ٹیکسز کے حوالے سے تمام تر توجہ تنخواہ دار طبقے پر ہے یا منی بجٹ دینے پر۔ اس میں قصور ہمارا بھی ہے کہ ہم مختلف حیلے بہانوں سے بحیثیت شہری ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتے خاص طور پر تاجر طبقہ تو لفظ ”ٹیکس“ سننا ہی نہیں چاہتا۔ ملک میں جب بھی اقتدار کی سیاسی تقسیم ہوئی اس کا فائدہ اسی طبقے نے اٹھایا جس طرح کہ آجکل ہو رہا ہے اور پاکستان کا 65 فیصد حصہ یعنی پنجاب معیشت اور توانائی کے حوالے سے وفاق کے اقدامات کو رد کرتا چلا آرہا ہے۔ وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سیاسی تقسیم سے ہٹ کر ہر قدم صوبوں کی مشاورت سے اٹھائے تا کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ تو سہی کچھ تو حالات بہتر ہوں اور دنیا کو لگے کہ ہم بھیک سے ہٹ کر اپنے پاو¿ں پر بھی کھڑا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دنیا کی حکومتیں اس ٹیکس کے عوض صحت، تعلیم سمیت عوام کو دیگر بنیادی سہولتیں مہیا کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں ٹیکس دینے اور نہ دینے والوں کا عذر لنگ ہے کہ ان کا دیا ہوا ٹیکس صحیح استعمال کے بجائے حکومتی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے اور یوں یہ طبقہ ٹیکس سے دور بھاگ جاتا ہے۔ اگر حکومت سخت اقدامات اٹھائے تو ہڑتال کر کے اپنا اور معیشت کا بھٹا مزید بٹھا دیں گے لیکن ٹیکس نہیں دیں گے۔ فی الوقت حکومت ریٹیلرز اور دیگر طبقات سے ٹیکس کے لیے منتیں ترلے تو چھوڑیں بھیک مانگ رہی ہے لیکن کوئی سننے کو تیار ہی نہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں ٹیکس چوری بہت بڑا جرم ہے اور جرم ثابت ہونے پر ہر ملزم کو مثالی سزا دی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا کوئی شہری سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ٹیکس سے انکاری ہو گا لیکن وطن عزیز کا تاجر طبقہ ببانگ دہل کہتا ہے کہ وہ لیکن سیاسی ٹیکس نہیں دے گا لیکن حکومت بے بس ہے کیونکہ اس کی ترجیح ووٹ بنک ہے نہ کہ معیشت۔ انرجی کرائسس کے حوالے سے وفاقی حکومت نے تمام کاروباری سرگرمیاں جلد بند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتیں سیاسی تقسیم کی وجہ اس کے خلاف محاذ آرا ہو گئیں۔ گو کہ اس تجویز پر سندھ حکومت بھی سو فیصد عمل نہیں کرا سکی لیکن کم از کم حکومتی سطح پر اس تجویز کی مخالفت نہیں کی گئی۔
ایک طرف تو ہمارے فوجی سربراہ بھی ملک کی معاشی حالت دیکھتے ہوئے کشکول اٹھائے پھرتے ہیں۔ چاہے یہ قابل ستائش نہ ہو لیکن اچھی بات ہے کہ انہیں بھی اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے ہٹ کر ملک کا درد ہے اور جہاں جہاں ان کی سنی جا رہی ہے وہ وہاں جا کر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ البتہ وزیر اعظم جب بھی کسی ملک کے دورے پر جاتے ہیں تو شاید ان کے چہرے پر لکھا ہے کہ وہ کچھ مانگنے آئے ہیں اس لیے وہ بھی اب ایسے دوروں سے گریز کرتے ہیں اور شاید دینے والے بھی تنگ آ چکے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہماری حکومتوں کے اللے تللے اسی طرح جاری ہیں وفاقی و صوبائی
کابینہ کے سائز اور ان کی مراعات دیکھیں لگتا ہی نہیں کہ ہم ایک غریب ملک ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم معاشی بدحالی کے باعث اپنے اخراجات آدھے کر دیتے لیکن ہم نے یہ اخراجات چار گنا کر دیے ہیں۔ اسلام آباد کی ایک محفل میں کچھ سفیروں سے گپ شپ ہوئی اور ان کا خیال تھا گو کہ پوری دنیا معاشی بد حالی کا شکار ہے لیکن پاکستان کا کیس نرالہ ہے یہ مانگنے کے لیے بھی اپنے ساتھ ”سونے کا کشکول“ لے جاتے ہیں۔ حکومت معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے اپنے تئیں اقدامات اٹھانے کے بجائے ساراانحصار بیرونی امداد پر کرتی ہے جس سے قرضے اور بڑھتے ہیں اور معیشت دبتی چلی جاتی ہے۔ امداد دینے والے بھی ہماری معاشی منصوبہ
بندی اور اللے تللے دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ان سے امداد لیں یا دیں۔ میں ان خیالات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اگر آزاد ذرائع کے علاوہ ہماری حکومت بھی معاشی بدحالی کا رونا روتی ہے تو پھر اسے درست کرنے کے لیے اقدامات کا آغاز گھر سے کیوں نہیں کرتی۔ اگر عوام سے ٹیکس لینا ہے تو عوام کواس طرف لانے کے لیے حکومتوں کو بھی ایسے علامتی اقدامات اٹھانا ہوں گے جس سے عوام کو بھی لگے کہ ان سے لیا گیا پیسہ حکومتوں کی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا۔ حکومتی وزرا کی ٹیکس تفصیل دیکھیں تو ان سے کچھ لینے کے بجائے ہاتھ سے دینے کو جی چاہتا ہے لیکن ان کا لائف سٹائل دیکھیں تو دل کرتا ہے ان سے نوالہ بھی چھین لیں۔ اسلام آباد میں ایک شادی کی تقریب میں کچھ بڑے صنعتکاروں و تاجروں سے گپ شپ رہی وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ تاجروں اور تجارتی پابندیوں یا مزید ٹیکس کے ساتھ ساتھ حکومت بھی اپنے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرے۔ ایک صاحب گویا ہوئے کہ فوج، عدلیہ اور بیورو کریسی کی ٹرائی اینگل اگر نیک نیت ہو جائے تو ہمیں ان حالات سے نکال سکتی ہے۔ میرے خیال میں مسائل کا حل اس تکون کے پاس نہیں جب تک کہ سیاستدان اور پاکستان کا درد دل رکھنے والے سرمایہ دار اس کا حصہ نہیں بن جاتے۔ محفل میں موجود وفاقی و صوبائی وزرا کا کہنا تھا کہ ان اخراجات کی کمی علامتی سے وہ نتائج حاصل نہ ہوں گے۔ جب ان کی توجہ حکومتی اخراجات بشمول جہازی سائز کابینہ، بیرونی دوروں میں فوج ظفر موج کا لے کر جانا، ترقیاتی فنڈز کو منجمد کرنا، کابینہ کے اکثر اراکین کا قریباً صفر ٹیکس دینا، حکومت کے اپنے کرپشن کیسز ختم کرانے کے لیے قوانین میں تبدیلی، وزیر خارجہ کے ایک بڑے وفد کے ساتھ پوری دنیا کے دورے اور حاصل حصول صفر، اراکین اسمبلی و وفاقی وزرا کی مراعات میں ہوشربا اضافے، پنجاب میں جاری تین ماہ سے اسمبلی اجلاس، نئے اضلاع اور ڈویژن بنانا جیسے کئی اور اقدامات کی طرف دلائی گئی تو ان سب باتوں کا وہ خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔ البتہ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ان کا موقف تھا کہ یہ الیکشن کا سال ہے اس لیے وہ اس میں کمی نہیں کر سکتے اور باقی باتوں کو انہوں نے علامتی قرار دے دیا۔ سوال یہ ہے اگر حکومت ہی علامتی اقدامات نہیں اٹھائے گی تو عوام کو کیسے مائل کرے گی۔ اسی تقریب میں موجود چند ماہرین معاشیات کا دعویٰ تھا کہ بات اب ٹیکس کے نفاذ یا حصول سے آگے بڑھ چکی ہے یہ اقدامات اونٹ کے منہ میں زیرے برابر ہیں ہمیں انڈسٹری اور ایکسپورٹ کی طرف توجہ دینے کے ساتھ ساتھ امپورٹ پر بہت بڑا کٹ لگانا ہو گا۔ ایک صاحب بولے اگر سی پیک کو ہی ہم نیک نیتی سے پایہ تکمیل تک پہنچا دیں تو بھی ہم معیشت بہتر کر سکتے ہیں۔
لیکن سوال وہی ہے بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے گزشتہ روز لاہور میں نیشنل پبلک فورم کے زیر اہتمام عزیزی امجد وڑائچ کی دعوت پر ایک ڈائیلاگ میں شرکت کی جس کے روح رواں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ منظور وٹو صاحب تھے۔ حفیظ اللہ نیازی، مجیب الرحمان شامی، خرم نواز گنڈا پور و دیگر نے اظہار خیال کیا۔ منظور وٹو صاحب کا کہنا تھا کہ صرف سیاستدان ہی نہیں معاشرے کے ہر طبقے کو اس بحران سے نکلنے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ سیاستدان ملک کو مسائل سے نکال سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ان کا ایجنڈا اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے اور اگلے انتخابات سے ہٹ کر یکجا ہونے کا ہے۔ لیکن سوال پھر وہی ہے یہ علم اٹھائے گا کون اور تھامے گا کون؟
قارئین کالم بارے اپنی رائے اس وٹس ایپ نمبر 03004741474 پر دے سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.