یہ بات 1982ء کی ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 3دسمبر کو انٹرنیشنل ڈس ایبل ڈے منانے کا فیصلہ کیاگیا۔ اس کا مقصد معذور افراد کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا اور انھیں مرکزی دھارے میں لانا تھا تاکہ ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اس طرف توجہ اس لیے بھی دی گئی کہ دنیا کی کل آبادی کا 10 فیصد سے زائد حصہ معذور افراد پر مشتمل ہے۔ یعنی تقریباً 1ارب افراد معذور ہیں جس میں تقریباً 5فی صد سالانہ سے زائد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ اتنی بڑی تعداد کے بارے میں منصوبہ بندی نہ کرنے سے مراد بہت بڑے انسانی وسائل کو ضائع کردینا ہوگا۔ پاکستان میں 1998ء کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی کا تقریباً 2.5 فیصد حصہ معذور افراد پر مشتمل ہے۔ مردم شماری کے ان نتائج کو ہم پاکستان میں لیے گئے دیگر کئی سرکاری اعدادوشمار کی طرح غیرحقیقت پسندانہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ زمینی حقائق اس سے بہت مختلف ہیں جبکہ 2017ء کی مردم شماری میں معذور افراد کو علیحدہ سے شمار ہی نہیں کیا گیا۔ اگر اقوام متحدہ اور غیرسرکاری تنظیموں کی درجہ بندی کو ہی سامنے رکھیں تو پاکستان میں ایسے افراد کی تعداد تقریباً 15 سے 17فیصد ہے۔ ملک میں موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی تعداد میں روزبروز دیگر ملکوں کی نسبت زیادہ تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کیونکہ زلزلے سیلاب جیسی قدرتی آفات، دہشت گردی اور ٹریفک حادثات میں بے پناہ اضافہ پاکستان میں افراد کو معذور بنانے والی بڑی وجوہات ہیں۔ پاکستان جیسے غریب ممالک کے حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ جس گھر میں ایک معذور فرد ہو وہ پورا گھرانہ نفسیاتی ہیجان میں مبتلا ہوتا ہے یعنی ایک معذور فرد کم از کم اپنے ارد گرد تین یا چار بندوں کو متاثر کر تا ہے جس میں ماں باپ، بہن بھائی یا بیوی بچے شامل ہوتے ہیں۔ اس بات کی گواہی ایسے خاندان دے سکتے ہیں جہاں ڈس ایبل افراد موجود ہیں۔ لہٰذاان افراد کی تعداد کو 15 سے 17فیصد کہنے کے بجائے 4گنا زیادہ بتانا چاہیے۔ پاکستان میں آبادی کے اس قابل ذکر حصے کا ڈیٹا اکٹھا کرنا اور ان افراد کو کارآمد بنانا تو ایک طرف ان معاملات کے بارے میں سنجیدہ غوروفکر بھی نہیں کیا جاتا جبکہ جدید تصورات اورسستی ٹیکنالوجی کے ذریعے اس حوالے سے بہت مفید نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ابتدائی چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔ پاکستان میں ایسے افراد کا ٹیلنٹ سامنے لانے کے لیے سرکاری سطح پر ایک ویب سائٹ بنائی جائے جس میں نام، پتا، تاریخ پیدائش، معذوری کی نوعیت اور رابطہ نمبر کے علاوہ خاص طور پر تعلیمی قابلیت یا پیشہ ورانہ ہنرمندی کا خانہ بنایا جائے۔ اس ویب سائٹ میں اندراج اور وزٹ کرنے کا طریقہ کار انتہائی آسان ہو اور کوئی بھی شخص جو اس میں اپنا نام درج کرانا چاہے وہ اس ویب سائٹ پر موجود آن لائن فارم کو پُر کرے۔ اس طرح پاکستان میں موجود بے شمار معذور ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کا بہت بڑا ڈیٹا بینک قائم ہو جائے گا جس سے مستقبل کی منصوبہ بندی میں سہولت کے ساتھ ساتھ انھیں مختلف شعبوں میں کھپانے میں آسانی ہوگی۔ اس ویب سائٹ کا آئیڈیا نادرا کے معذور افراد کے شناختی کارڈ بنانے سے مختلف ہے۔ پاکستان میں موجود معذور افرا دکی اتنی بڑی تعداد کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ایک انتخابی حلقے میں جتنے ووٹر موجود ہوتے ہیں ان سے کئی گنا زیادہ تعداد ڈس ایبل افراد کی ہے یعنی اگر ان کی انتخابی حلقہ بندی ہوتو صوبائی وقومی سطح پر کئی پارلیمانی نشستیں ان کے لیے مختص کرنا پڑیں گی۔ اسے آئینی پیکیج کا حصہ بنانا تو شاید دور کی بات تھی ہماری چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ایسے افراد کو اپنے ہاں سیاسی عہدے دینے کے بارے میں بھی نہیں سوچتیں۔ البتہ بیرونی دنیا کی مثال لیں تو برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے دورمیں ان کے وزیر تعلیم اور بعد میں وزیر داخلہ ڈیوڈ بلنکٹ ایک نابینا فرد تھے اور وہ بڑی کامیابی سے اپنی وزارتیں چلاتے رہے۔ مصر کے ممتاز سکالر اور وزیرتعلیم پروفیسر ڈاکٹر طٰہٰ حسین بھی ایک نابینا شخص تھے۔ اس طرح جدید دنیا میں ان کے علاوہ بھی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ بہت پہلے جائیں تو نبی پاک حضرت محمد ﷺ نے اپنے ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ ؓابن ام مکتوم کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا تھا جو کہ معذور افراد کی صلاحیتوں پر اعتماد کرنے کی شاندار مثال ہے۔ اگر ہم انسانی صلاحیتوں کا تجزیہ کریں تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فی الحال ذہنی طور پر معذورا فراد کے علاوہ باقی تمام قسم کے معذور افراد کو تعلیم اور سستی ٹیکنالوجی کے ذریعے معذوری کی ناکاری سے نکالا جاسکتا ہے یعنی وہ جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی حاصل کرکے ڈس ایبل سے ایبل بن سکتے ہیں اور دیگر افراد کے برابر یا ان سے بہتر نتائج بھی دے سکتے ہیں۔ پاکستان کے سیکریٹریٹ میں بے شمار چھوٹی بڑی وزارتیں اُدھم مچاتی پھر رہی ہیں۔ انہی میں سے نکرپر لگی انسانی حقوق کی وزارت کے ایک ڈائریکٹوریٹ کا نام ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سپیشل ایجوکیشن ہے جس کا کام خصوصی افراد کے لیے تعلیم اور اُن کے لیے غوروفکر ہے مگر اس ڈائریکٹوریٹ جنرل کو بھی ہمیشہ سے بابو چلا رہے ہیں اور یہ ڈائریکٹوریٹ معذور بچوں کے 4دہائیاں قبل کھولے گئے چند علیحدہ سکولوں سے آگے نہیں بڑھ سکا جبکہ جدید دنیا میں خصوصی بچوں کی علیحدہ تعلیم کے بجائے، صحت مند بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے یعنی Inclusive Eduation پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ مذکورہ ڈائریکٹوریٹ خصوصی افراد کی بحالی کے لیے اپنے ہی اداروں میں چند معذور افراد کو ٹیچر بھرتی کرنا ایک بہت بڑا کارنامہ سمجھتا ہے جبکہ اس ڈائریکٹوریٹ کے سیکریٹریٹ میں بھی ایگزیکٹو عہدوں پر ڈس ایبل افراد کو پسند ہی نہیں کیا جاتا اس لیے ان کی اِن عہدوں پر تقرری نہیں ہوتی۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.