پرویز صالح ،رضا رومی ،مونس الہٰی اور ٹروتھ کمیشن

90

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے سپیشل ایڈوائزر لٹریسی کمیشن کے چیئرمین جناب پرویز صالح کا ٹروتھ کمیشن کا مطالبہ جس پر پہلے بھی بہت لکھ چکا بلکہ خاقان عباسی بھی ٹروتھ کمیشن پر بہت زور دیتے رہے کہ قوم کو ایک بار سچ بتا دیا جائے، سب اپنے اپنے اعمال کا اقرار کریں اور یہ ایسا کمیشن ہو جو سزا نہ دے تا کہ قوم آئندہ کا سفر سچ کی بنیاد پر شروع کر سکے۔ Truth and Recincilion Commision سچ اور مفاہمت کمیشن ساؤتھ افریقہ میں تجربہ کیا گیا۔ میرے خیال سے شاید ساؤتھ افریقہ یا دنیا میں کسی بھی ملک کو Truth and Recincilion Commision کی اس قدر ضرورت نہیں جتنی وطن عزیز کو ہے۔ ہمارے ہاں تاریخ کو مسخ کرنے کا فن بیچا جاتا ہے۔ پہلے چودھری مونس الٰہی پریس ٹاک کی بات کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ کے کہنے پر عمران خان کے ساتھ ہوئے۔ جنرل باجوہ نے دریاؤں کے رخ موڑ دیئے جو پی ڈی ایم کے دریا عمران حکومت کو بہا لے جاتے۔ مونس الٰہی کے مطابق خارجہ، داخلہ اور ہر معاملہ میں جنرل باجوہ نے عمران کا ساتھ دیا تب وہ ٹھیک تھا جب وہ غیر جانبدار ہوئے تو غدار کے ٹرینڈ چلا دیئے گئے۔ چودھری مونس الٰہی نے کہا کہ انہوں نے ہی کہا تھا اور ہم نے عمران کا ساتھ دیا اگر وہ ایک ”اشارہ“ کرتے تو ہم ادھر یعنی پی ڈی ایم کی طرف ہوتے۔ اب جبکہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں اور سہاروں پر چلنے والوں کو چلنا بھول گیا۔ یہ اشارے بھٹو صاحب کے مقدمہ میں بھی ہوئے جس کا جسٹس نسیم حسن شاہ اقرار کر چکے کہ ہم پر دباؤ تھا۔ موقر کالم نگار دانشور جناب اشرف بھی لکھ چکے کہ مولوی مشتاق بھی اس بات کا اقرار کر چکے گویا مولوی تمیز الدین کیس سے لے کر تاریخ کے راستے میں نصرت بھٹو کیس، نوازشریف پاناما کیس، پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کیس غرضیکہ ہر مقدمہ جس میں سیاست تھی اس میں فیصلہ تاریخ کے سیاہ باب میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ صدر زرداری دور میں مولانا فضل الرحمن نے بیان دیا تھا کہ اب مورچہ عدالت میں ہے۔ ابھی مونس الٰہی کے بیان، جنرل باجوہ کا پی ٹی آئی کے لیے کردار اور اقرار میں کوئی نئی بات نہیں۔ ساری قوم کو علم ہے لیکن مونس الٰہی کی مہربانی انہوں نے ایک الجھے ہوئے لمحے کو بھی صاف صاف بیان کر دیا۔ سچ کا پوری قوم کو علم ہے مگر یہ وقتاً فوقتاً سامنے آتا ہے تب آتا ہے جب قوم کا ناقابل تلافی نقصان ہو
چکا ہوتا ہے لہٰذا ایک بار سچ اور قومی مفاہمت کا جرگہ ہو ہی جائے یعنی کمیشن ہو جس میں تاریخ کی درستی اور قوم کو سچ بتانے کے بعد قومی سفر سچ کی بنیاد پر شروع کیا جائے،کچھ پاکستان کے بننے کے خلاف بات کریں گے کچھ علامہ اقبالؒ کی شاعری کو ہدف تنقید بنائیں گے کچھ ناکام شاعر جن کی شاعری کو کبھی بھاگ نہ لگ سکے وہ غالب کی طرف نیزہ بازی کریں گے۔ اگلے روز رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی شو دیکھ رہا تھا۔ رضا رومی نے پراجیکٹ عمران پر بات کرتے ہوئے اپنے توتلے انداز میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ پراجیکٹ لانچ کرتی رہتی ہے۔ اس سے پہلے نوازشریف پراجیکٹ تھا 66 میں بھٹو پراجیکٹ تھا۔ جس پر سولنگی صاحب نے وضاحت کی کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کا معاملہ بالکل مختلف تھا وہ حکومت سے باہر آئے، اپنی جماعت بنائی وہ کسی کا پراجیکٹ نہیں تھے۔ ویسے بھی رومی صاحب کو بتاتا چلوں کہ جناب بھٹو صاحب نے کیریئر وکالت سے شروع کیا تھا اور کامیاب وکیل تھے۔ ایک گرینڈ ڈنر تھا جس میں سکندر مرزا کی بیوی بھی تھی نصرت بھٹو (تب نصرت بھٹو نصرت اصفہانی کے نام سے جانی جاتی تھیں، ان کی دوست شادی کے بعد بھی ان کو ان کے ایرانی نام سے پکارتی تھیں) کی ایک دوست نے دوران گفتگو کہا کہ ذلفی کیا کر رہا ہے وہ بولیں وکالت، پہلے فلاں چیمبر میں تھے اب وہ اپنا چیمبر بنا چکے ہیں۔ جسٹس دراب پٹیل کو بھی بھٹو صاحب نے اپنے چیمبر میں جگہ دی تھی۔ جس پر اس دوست نے کہا کہ میں سکندر مرزا کی بیوی سے بات کرتی ہوں ان کو وزارت میں لیتے ہیں۔ یوں نصرت اصفہانی کی دوست نے، سکندر مرزا جو سر شاہنواز بھٹو کے تابعداروں میں تھا، سلسلہ آگے بڑھایا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو کراچی سنیما میں فلم دیکھ رہے تھے کہ سنیما ہال کی سکرین پر سلائیڈ چل گئی کہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو بیرسٹر گورنر ہاؤس پہنچیں۔ حیران ہوئے، اٹھے اور گورنر ہاؤس میں ان کو وزارت کے منصب کی آفر سے آگاہ کیا گیا تب تو ایوب خان خود اقتدار میں آنے کے لیے سازشوں میں مصروف تھا۔ رومی صاحب اپنے توتلے انداز میں عمران خان سے معاملہ ضرب المثل رہنما کی طرف لے گئے۔ سکندر مرزا کی حکومت برباد کرنے کے بعد ایوب خان کے مارشل لا میں بھٹو صاحب کو پھر آفر ہوئی۔ بھٹو صاحب نے سوچ بچار کے بعد محترمہ نصرت بھٹو اور اپنی والدہ سے مشورہ کیا جس پر ایوب کابینہ میں شمولیت کی۔ وزارت خارجہ میں ایسی کارکردگی دکھائی کہ امریکی صدر کینیڈی بھی ان کے گرویدہ تھے، چین کے انقلابی رہنما بھی اور دنیا بھر کے لوگ بھی۔ 65 میں ایوب خان سے اختلاف کے بعد حکومت سے باہر آئے جیل کاٹی، رہا ہوئے۔ بقول جسٹس جاوید اقبال محترمہ فاطمہ جناح نے پیشکش کی کہ میری پارٹی میں شامل ہوں مگر بھٹو نے انکار کر دیا کہ آپ کی پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ کے لوگ زیادہ ہیں یقینا محترمہ فاطمہ جناحؒ کو علم نہ تھا بہرحال جناب بھٹو نے اپنی سیاسی جماعت بنائی، منشور دیا۔ ایسی جماعت جس میں سب نئے، انقلابی، دانشور لوگ تھے حالت یہ تھی کہ جناب بھٹو کا اقتدار ختم کرنے پر ضیا الحق نے جیلیں، قلعے سیاسی قیدیوں سے بھر دیئے مگر کسی پر بھی بشمول جناب گریٹ بھٹو کے مالی بے ضابطگی یا کرپشن کا الزام نہیں تھا۔ جب اقتدار ملا تو ملک آدھا تھا جو دراصل بقول مصطفی کھر کے اس کا فیصلہ دس سال پہلے یعنی ایوب دور میں ہی ہو چکا تھا بلکہ ایوب خان اپنے وزیر قانون کے ذریعے بنگالی لیڈرشپ کو علیحدگی کا پیغام دے چکے تھے جس پر انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ہم نے بنائی، ملک ہم نے بنایا، آپ 5 کروڑ ہیں ہم 7 کروڑ ہیں، ہم پاکستان آپ الگ ہو جائیں۔ گویا یہ سازشیں تو 71 سے پہلے شروع تھیں۔ موضوع طویل ہے کچھ جعلی دانشور بکواس کرتے ہیں کہ بھٹو خط لکھتے رہے مرزا کو جو موجود ہیں۔ گریٹ بھٹو کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کے لیے ریکارڈ تو ملا نہیں خط ان کی کس اندرونی جیب میں محفوظ ہیں سب بکواس، توجہ، اہمیت کے لیے باتیں کرتے ہیں، قوم کو گمراہ کرنے والے میڈیا پرسنز زیادہ دیر کی بات نہیں عمران کے دھرنے میں جاتے رہے، پروگرام کرتے رہے اور اب عمران کے فالوورز کو بھونکنے والے کتے کہہ کر پکارتے ہیں کوئی اپنے سر پر جوتے مارنا کہہ رہا ہے۔ نجم سیٹھی کا انٹرویو ڈاکٹر مبشر حسن کے ساتھ، سیٹھی صاحب بھی اپنے آپ کو دانشور ثابت کرنے کے لیے جناب بھٹو کے جھولے پر پینگ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نے بھٹو کو کسانوں ہاریوں کے لئے روتے دیکھا تم نے ابھی مملکت چلائی نہیں تمہیں پتہ نہیں!!!! مختصر یہ کہ مونس الٰہی کے بیان کے بعد اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ٹرتھ اور قومی مصالحت کمیشن ہونا چاہئے جس میں تمام انتخابات 2018 سے پیچھے جاتے ہوئے کی حقیقت بھی سامنے آئے۔ تاکہ ڈیپ سٹیٹ کے الزام سے نکلا جائے اور قومی سفر توبہ کے سچ سے شروع ہو۔

تبصرے بند ہیں.