کسی بھی اچھی تصویر کے بارے میں آپ کا کیا تصور ہوگا؟ خوبصورت ہو، دلکش ہو، دیکھنے کو بار بار جی کرتا ہو اور یہ بھی جی کرتا ہو کہ وہ آنکھوں اور دل میں بسی رہے۔ اب تصویر کے بھی کئی تصورات ہوتے ہیں۔ آج میں جس تصویر کی بات کرنا چاہتا ہوں وہ تصویر ہے میرے پاکستان کی، میرے اس خوبصورت قائد کی طرح جس نے یہ خوبصورت پاکستان آزاد کروا کے ہمارے حوالے کیا۔ ہمیں آزاد ہوئے 76برس بیت گئے، ان 76برسوں میں بجائے ہم پاکستان کی تصویر کے اور رنگ بڑھاتے تصور کو اور بڑا کرتے اور پوری دنیا کے آگے اس تصویر کے خوبصورت رنگوں کو پھیلاتے ہم نے تصویر کے رنگوں کو بے رنگ کرنا شروع کر دیا اور پھر اس کو اس قدر خراب کر دیا کہ اب وہ تصویر ہم کسی کو دکھانے کے بھی قابل نہیں رہے۔ اس کا سرسبز ہلالی پرچم ہم ہر سال 14اگست کو آزادی منانے کی آڑ میں اس کی شان اس کی آن اور اس کی اقدار کی بے حرمتی کرتے ہوئے اپنے پاؤں تلے روندھ دیتے ہیں جو ہماری شناخت ہے۔ اس کی ہم خود ہی اس کو مٹا رہے ہیں آج کوئی بھی مطمئن نہیں ہے آج کوئی بھی نہیں مسکراتا، ہمارے چہروں سے مسکراہٹ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ آج بجلی، گیس اور پانی کے بل دیکھ کر نہ جی سکتے ہیں، نہ مر سکتے ہیں، نہ رو سکتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہر گھر میں پیدا ہونے والا بچہ مقروض کی سند لے کر اپنی زندگی گزارے گا۔ آپ بھی سوچیں کہ ہم سے آپ سے کہاں غلطی ہوئی کہاں ہم خدا کو بھولے، کہاں ہم نے شان و شوکت کی زندگی تو لی مگر کیا وہ ایسی ہوئی کہ سب کچھ بنوا بیٹھے۔ 1947ء سے 2024ء تک پاکستان کی قسمت میں لکھے جانے والے حکمرانوں نے اپنی لوٹ مار سے پاکستان کو تباہ کرنے کی کوئی بھی کسر نہ چھوڑنے اور عوام کو تنگ ننگ کرنے تک پاکستان لیر و لیر ہو گیا اب اس لیر و لیر پاکستان کو کون سمیٹے گا؟ کون اس کی پھٹی قمیض پر پیوند لگائے گا اور کون ہمارے مسائل حل کرے گا کہ مسائل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے زمانے اور 90ء کی دہائی میں نوازشریف اور بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں بھی تھے لیکن لوگ اور حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان کی مالی حالت میں انتہائی بہتری مشرف صاحب کے زمانے میں آنا شروع ہوئی۔ 2019ء تک پاکستان قدرے بہت بہتر تھا پھر ہوا یہ کہ پاکستانی عوام کا معیار زندگی 2000ء کے بعد ایک دم تبدیل ہو نا شروع ہوا۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں اسی لاہور جیسے بڑے شہر اور پورے محلے میں صرف چند لوگوں کے پاس ہی گاڑی ہوا کرتی تھی اور آج 2024ء میں ماشاء اللہ پاکستان کی سڑکیں گاڑیوں سے بھری ہوئی ہیں لیکن 1980ء اور 1990ء کے لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کی کیفیت بہت زیادہ تھی اور آج 2024ء میں ہم لوگ زیادہ نعمتوں کے باوجود بھی ناشکری کرتے صبر اور شکر شاید آج 2024ء میں ختم ہو گیا ہے۔ اسی لاہور میں عام لوگ صرف عید، شادی بیاہ کے علاوہ نئے کپڑے کم ہی خریدتے کیونکہ مالی حالات ہی اجازت نہیں دیتے تھے اور آج عام پاکستانی کے کپڑوں کا معیار بہت بہتر ہو چکا۔ اسی لاہور میں AC صرف چند گھروں میں ہوتا تھا اور وہ بھی صرف چند گنتی کے گھنٹوں کے لئے چلایا جاتا کیونکہ بجلی 1980ء اور 1990ء میں بھی انتہائی مہنگی تھی لیکن آج 2024ء میں پاکستان میں کتنے ACہیں شاید حساب لگانا بھی ممکن نہیں لیکن 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں شاید لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کی کیفیت زیادہ تھی۔ جس انسان کا زندگی کا خواب 1990ء کی دہائی میں 125 سی جی ہنڈا ہوتا تھا، وہ آج گاڑی چلاتا ہے، مگر پھر بھی ناخوش…… شاید ہمارے اندر سے آج اطمینان ختم ہو گیا ہے۔
پہلے عام لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی بہت خوش ہوتے اور آج کئی لوگوں تک بڑی نعمتوں کے باوجود بھی ناخوش ہیں۔ اس لئے کہ ان کے دلوں کا اطمینان اور سکون کم ہوتا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک یہ مسئلہ فوجی یا سیاسی حکومتوں کا نہیں۔ مسئلہ ہمارے اندر کا ہے۔ اصل میں 2002ء کے بعد سے ہمارے ہاں ایک پاکستان میں پیسہ خوب آیا۔ جنرل مشرف نے پاکستان میں میڈیا کو بھی آزاد کر دیا اور پھر یہ آزادی نہیں تباہی آئی بلکہ یہ مادر پدر آزادی تھی۔ جس نے خطرناک رجحانات کو جنم دیا اور پھر لوگوں میں دین سے دوری بھی بڑھنے لگی۔ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے دور میں عمومی طور پر لوگوں کا مذہبی رجحان زیادہ تھا۔ غلط باتیں تب بھی تھیں مگر حالات اتنے خراب نہیں تھے۔ کرپشن اور رشوت تب بھی تھی، مگر انتہائی محدود۔ اس زمانے میں لوگوں میں مروت اور لحاظ کافی تھا۔ اس بات کے باوجود جنرل مشرف نے پاکستانی معاشرے کو انتہائی لبرل بنانے کی کوشش کی، آزادی کے بدلے میں رشوت اور کرپشن بھی فروغ پانے لگی لیکن کرپشن اور رشوت کا عروج پاکستان میں 2008ء سے 2024ء کا زمانہ ہے۔ اس دوران خواہ عمران خان کی حکومت ہو یا نوازشریف یا زرداری کی، معاشرے کی اخلاقی اقدار انتہائی پست سے پست ہوتی گئیں اور ہم بداخلاقی اور بدتمیزی اور شرافت کی دوڑ سے بہت دور تک نکل گئے۔ ناشکری اور بے صبری ہمارے اندر سے قوم کا جذبہ بھی ختم کر دیا۔ میری نظر میں ہم پاکستانیوں کو اللہ تعالیٰ کی ناشکری مار گئی ہے۔
یاد رہے، اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے، ”وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں، سن لو اللہ کی یاد ہی میں دالوں کا چین ہے“۔ (سورتہ رعد، آیت نمبر 28)۔ قرآن پاک انسان کو صراط مستقیم پر چلانے کے لیے بہت بڑی راہنمائی کا ذریعہ ہے اور دکھ تو اس بات کا بھی ہے کہ ہم نے خداتعالیٰ سے تعلق جوڑ کر انسان سے تعلق جوڑ لیا ہے۔ آخرت کی جگہ دنیاوی زندگی کو ہی آخرت کا درجہ دے ڈالا، یہیں سے تباہی ہوئی۔ یہیں سے بربادی کے ماحول نے جنم لیا اور پھر جب انسان نماز، قرآن اور اپنے رب سے رشتہ توڑ دے گا تو پھر وہ خودبخود قدرتی نعمتوں سے محروم رہے گا۔
تبصرے بند ہیں.