فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آج کل آپ نے موسم بدلنے اور بدلتے موسموں کے اثرات کے حوالے سے مختلف قسم کی موسمی پوسٹیں بھی بڑی تعداد میں دیکھی ہوں گی! خواتین کی ناک بہنے لگے تو وہ دعا کی اپیل کر دیتی ہیں۔۔۔ ساس کا موڈ اوپر نیچے ہو تو بھی ان کی طرف سے ’’دعا کی اپیل‘‘ نشر ہو جاتی ہے۔۔۔ ’’خالو کے سگے ماموں فوت ہو گئے‘‘ دھڑا دھڑ like آنے شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔ آپی کی صحت ٹھیک نہیں۔ ۔۔ مرد حضرات آنسوؤں سے تر بلکہ اکثر اوقات تو آنسو ٹپکتی آنکھوں کی اموجی بھی فٹ کرتے چلے جاتے ہیں اور شو کرتے ہیں کہ ہم نے تو آپی کی خرابی صحت کے غم بلکہ دکھ میں کھانا پینا تک چھوڑ دیا ہے۔۔۔ آپی بے چاری ٹھیک ہو کے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ غسل صحت منانے مری بھی جا چکی ہوتی ہیں لیکن احباب کا میٹر ڈاؤن ہی رہتا ہے حالانکہ بے چاری پوسٹ لگانے والی بھول بھول چکی ہوتی ہے کہ آپی کراچی والی تھی یا پشاور والی؟! ایسے احباب کے ہاں باجیاں آپیاں ہی ’’کیوں‘‘ بیمار ہوتی ہیں؟
ایسے ہی کچھ بے روزگار خواتین بھی اکثر بلکہ وقفہ وقفہ سے اپنی بے روزگاری کے حوالے سے پوسٹیں لگاتی چلی جاتی ہیں کچھ شریر قسم کے بلکہ نہایت شرارتی مرد (جو خود کو نو عمر شو کرتے ہیں) وہ نہ صرف یہ بتا کر مذہبی ٹچ بھی لگاتے ہیں کہ ہم نے پانچوں مرتبہ آپ کے لیے دعا کی۔ اس دوان وہ خواتین ماحول کو افسردہ دیکھ کر گرم لوہے پر وار کرتی ہیں یعنی اپنی سالگرہ اگلے ہی دن رکھ لیتی ہیں۔ ایسی لڑکیاں سال میں بوقت ضرورت دو تین بار اپنی سالگرہ منا ڈالتی ہیں۔ شروع شروع میں تو ہلکے پھلکے تحائف بھی گرنے لگتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ (اگر غلطی سے وہ اپنی تصویر لگا بیٹھیں تو مرد ون بائی ون کھیلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ فیس بک کا لکھاری۔۔۔ خود ہی فنکار ہے۔۔۔ خود ہی ایڈیٹر ہے اور خود ہی نقاد کے عہدہ پر فائز بڑا آدمی بھی ہے! کمنٹس اچھے نہ لگیں تو خود ہی Delete کرنے کا اختیار بھی اس کو ہے۔ خوش آمدی کمنٹس کو منت سماجت کر کے نمایاں بھی کروا سکتا ہے۔ اللہ بھلا کرے سرکاری اداروں کا جن پر کھل کر بلکہ نہایت بد تمیزی کے انداز میں ان بے ہودہ ، بیرون ملک بیٹھے ’’دانشوروں‘‘ کے کھل کر تنقید کے ٹرینڈ چلانا چاہتے تو پتہ چلا کہ ایک ہی لمبی داڑھی یا بڑی بڑی خونخوار مونچھوں والے کے دس دس بارہ بارہ اکاؤنٹ ہیں اور بڑی تعداد میں لڑکیوں کے مشکل مشکل ناموں سے یہ اکاؤنٹ ہیں اور گاؤں دیہات کے سادہ لوح لوگ ان کے عشق میں بھی گرفتار ہیں۔ اب ان میں سے اکثر یہ بڑی عمر کے فنکار معافی ناموں کے ساتھ ان اداروں کی بڑھ چڑھ کر تعریفیں بھی کر رہے ہیں اور سونے پر سہاگہ اپنی مکروہ صورتیں دکھا کر شرمندہ بھی ہوتے چلے جا رہے ہیں، ذلیل و خوار ہونے سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے جن کے خلاف جلدی میں بکواس کرنے لگے تھے خود کو عالم فاضل ’’شو‘‘ کرتے ہوئے؟
ہمارے ایک دوست نے شاعری شروع کی۔ ادھر ادھر کی پندرہ بیس غزلیں لکھنے اور ’’فیس بک‘‘ وغیرہ پر لگانے کے بعد انہوں نے کتاب اتارنے کا اعلان کر کے داد وصول کرنے لگے تو دوستوں نے کمنٹس میں بتایا کہ حضور انہوں نے یہ شاعری فرحت عباس شاہ ، سعد اللہ شاہ یا وصی شاہ کی کتابوں سے مستعار نہیں لی باقاعدہ چوری کر ڈالی ہے۔ ایسے ہی ایک تقریب میں ہم فرحت عباس شاہ اور سعد اللہ شاہ جی کے ساتھ ایک بہت بڑے مشاعرے میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی کرنے جب پہنچے تو ہزار بار خواہش اور درخواست گزارنے کے باوجود جب شاعر نے اپنی وہ کتاب جس کی رونمائی تھی پیش نہ کی تو فرحت عباس شاہ اور سعد اللہ شاہ نے کتاب اور صاحب کتاب کی شان میں قصیدہ پڑھنے سے معذرت کر لی تو اہل علاقہ پریشان ہو گئے۔ ہمارے اک صحافی بھائی نے کہیں سے کتاب کا اک نسخہ ہمیں لا کر دے دیا چوری پکڑی گئی۔ شاعر صاحب نے راہ فرار اختیار کی ۔۔۔ انتظامیہ نے معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے ہماری خدمات حاصل کیں اور ہم نے دونوں شاہ صاحبان سے درخواست بلکہ عاجزی سے ترلے ڈالتے ہوئے یہ منا لیا کہ تقریب رونمائی نہیں ہو گی۔ مشاعرہ جاری رہے گا اور پھر رات تین بجے لوگوں نے جو ہزاروں کی تعداد میں تھے نہایت محبت سے فرحت عباس شاہ ، سعد اللہ شاہ اور عظیم صوفی شاعر شاکر شجاع آبادی کو سنا۔ ہم نے دیکھا لوگ سچے فنکار سے محبت بھی سچی کرتے ہیں۔
پاکستان کا پچھترواں یوم آزادی مناتے ہوئے حکومت نے اس بار بہت سے فنکاروں، لکھاریوں اورشعراء کرام کو بھی صدارتی تمغۂ حسن کار کردگی اور دوسرے ایوارڈ سے نوازتے ہوئے اپنی علم دوستی کا ثبوت دیا اور ادب اور ادیبوں کی سر پرستی کرنے کا عندیہ دیا۔ ہم سب فنکاروں ، لکھاریوں اور شعراء کرام کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسے موقعوں پر شور مچانے باجے بجانے کے ساتھ ساتھ اہل علم کی عزت افزائی بھی ہوتی ہے۔۔۔
آج ایک خاتون سے ملاقات ہوئی … ’’موڈ‘‘ تھیں سیاست پر بحث کے بعد گویا ہوئیں۔۔۔
’’مظفر… بڑی مہنگائی ہے۔۔۔ چار دوستوں کے ساتھ چائے پینے نکلو… دس ہزار بن جاتا ہے، میں نے کہا ’’دیتا کون ہے بل؟!‘‘ (شرما کے) وہ تو خیر میزبان کی ہی ذمہ داری ہے۔
پٹرول پھر سات روپے لیٹر مہنگا کر دیا ہے ظالموں نے ؟!
میں نے پوچھا… ’’فون کون سا ہے آپ کے ہاتھ میں؟! (دکھاتے ہوئے) یہ ہے…؟!
چار کیمروں والا… یہ تو اڑھائی لاکھ کا ہے میں نے اپنا پندرہ سو والا دکھاتے ہوئے کہا… تو ناک چڑھا کے بولیں ’’Status بھی تو Maintain رکھنا ہوتا ہے بندے نے‘‘!!
Next Post
تبصرے بند ہیں.