پٹرول پر ائسز :حکومت کون چلا رہا ہے؟

22

عالمی سطح پر پٹرول کی قیمت میں کمی کا رحجان دیکھتے ہوئے میڈیا میں پٹرول کی قیمت میں کمی کے اعلان کا انتظار کیا جارہا تھا لیکن اس کے بر عکس ہوا۔ پچھلے کچھ عرصہ سے Trend چلا ہوا ہے کہ مہینے کی آخری اور وسطی تاریخوں میں شام کو پٹرول پمپوں پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اس باریہ قطاریں اس لئے نہیں لگائی گئیں کہ صارفین یہ سمجھ بیٹھے کے پٹرول کم ہونے والا ہے مگر مفتاح اسماعیل صاحب نے اپنا کام کر دکھایا اب وہ یہ کہتے ہیں کہ کب کہا تھا کہ قیمت نہیں بڑھے گی۔ ساتھ اپنی بے بسی بھی ظاہر کرتے ہیں کہ مجھے بدنام کرنے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے گویا پٹرول کی قیمت میں اضافے کا تعلق وزارت خزانہ سے نہیں ہے۔ آخر حکومت کے اندر وہ کون سے نادیدہ ہاتھ ہیں جو اسے غیر مقبول کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ 
عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد مفتاح اسماعیل نے فرمایا تھا کہ پٹرول کی قیمت کم کر کے عمران حکومت نے ہمارے لئے لینڈ مائن یا بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں اب ایسا لگتا ہے کہ جو بارودی سرنگیں عمران خان نے پٹرول سستا کر کے نئے آنے والوں کے لیے بچھائی تھیں اس کے رد عمل کے طور پر موجودہ حکومت اپنے بعد آنے والوں کے لیے لینڈ مائن بچھا رہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان کی لینڈ مائن پٹرول سستا کر کے بچھائی گئی جبکہ یہ حکومت مہنگا کر کے اپنے جانشینوں سے اپنی ناکامیوں کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ ہر صورت میں نقصان عوام کا ہی ہوتا ہے۔ 
جو سمجھتے ہیں کہ حالیہ اضافہ لینڈ مائن ہے وہ بول اٹھے ہیں کہ ہم اس فیصلے میں شامل نہیں ہیں جو خبریں رپورٹ ہو رہی ہیں ان کے مطابق میاں نواز شریف اور آصف زرداری دونوں نے اپنے اپنے انداز میں اس فیصلے سے اعلان لاتعلقی کر دیا ہے۔ میاں صاحب تو اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ وہ سیاسی میٹنگ سے اٹھ کر چلے گئے ان کے ایماء پر مریم نواز نے بیان دیا کہ ہم عوام کے ساتھ ہیں اور اس فیصلے کی تائید نہیں کر سکتے جبکہ زرداری صاحب نے کہا کہ حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود ان سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ جہاں تک طرز حکمرانی یا گورننس کا تعلق ہے مجھے تو یہ لگتا ہے کہ وزیرا عظم شہباز شریف کا بھی بیان آنے والا ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ آخر یہ حکومت کون چلا رہا ہے۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ پٹرول کی قیمت میں 16 اگست کو کم ازکم 20-15 روپے کی کمی ہونی چاہئے تھی اس کی تین وجوہات میں پہلے نمبر پر یہ کہ عالمی مارکیٹ میں قیمت نیچے آ رہی ہے اور اگر ایران پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھالی گئیں جیسا کہ امکان پیدا ہور ہے ہیں تو تیل کا سارا بحران ہی ختم ہو جائے گا اور قیمت واپس 45-50ڈالر فی بیرل پر آجائے گی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ آئی ایم ایف سے ابتدائی معاہدے کے بعد ڈالر کی قیمت 248 سے گرتے گرتے 213 روپے تک آ چکی ہے تو پاکستانی کرنسی مستحکم ہونے سے تیل کی قیمت کو آٹومیٹک نیچے کی طرف جھٹکا لگنا چاہیے۔ مگر حکومت کسی گڈ گورننس کے موڈ میں نہیں ہے تیسری وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو ماہ سے پٹرول کی کھپت میں کمی آچکی ہے اگر ڈیمانڈ سپلائی فورسز کو دیکھیں تو بھی قیمت کم ہونی چاھیے تھی۔ 
ایک عرصے سے شریف خاندان میں بٹوارے کی خبریں چلتی آرہی ہیں جو ہردفعہ دم توڑجاتی ہیں لیکن اس دفعہ کے حالات ماضی سے خاصے مختلف ہیں۔ مریم نواز تلملا رہی ہیں کہ وہ اپنی پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی آزادانہ فیصلے نہیں کر سکتیں ۔انہیں شکایت ہے کہ انہیں فیصلہ سازی میں شریک نہیں کیا جاتا۔ مریم نواز سمجھتی ہیں کہ حمزہ شہباز کی پنجاب پر حکمرانی کے خواب کے چکنا چور ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے کہ باپ بیٹے دونوں کو وفاق اور پنجاب میں کیوں تخت نشین کیا گیا۔ بلکہ حمزہ کے خلاف پرویز الٰہی کی جیت کی ایک وجہ یہ بھی سمجھی جا رہی ہے۔ 
ان پیچیدگیوں کے سدباب کیلئے پارٹی کے اعلیٰ ترین لیول پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ عام انتخابات میں مریم نواز کو شہازشریف کی جگہ لایا جائے اس کیلئے نواز شریف کا پاکستان آنا ناگزیر سمجھا جا رہا ہے۔ اور اب یہ خبر کافی حد تک پختہ ہوچکی ہے کہ نواز شریف نے وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا ہے اور انہیں گرفتار نہیں کیا جاسکے گا۔ ان خبروں میں شدت گزشتہ ہفتے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورۂ انگلینڈ کے بعد آئی ہے وہ دنیا کے سب سے قدیم ملٹری ٹریننگ کے ادارے سینڈ ہرسٹ کی سالانہ پاسنگ آؤٹ پریڈ پربطور مہمان خصوصی شرکت کے لیے گئے تھے۔
مریم نواز نہیں چاہتی کہ شہباز شریف حکومت اپنے بعد آنے والوں کیلئے لینڈ مائن بچھا کر جائے ان کے اس بیان پر کہ پٹرول کی قیمت میں اضافے کی تائید نہیں کر سکتی سیاست کی پوری ایک داستان پوشیدہ ہے۔ ضمنی طور پر دیکھا جائے تو ہماری حکمرانی کی نفسیات یہ ہے کہ جب وہ اپنے ہاتھ سے اختیارات کو جاتا دیکھتے ہیں تو پھر نتائج کی پرواہ نہیں کرتے عمران خان کی پٹرول کی قیمت میں کمی اس کی مثال ہے اس 10 روپے کی عارضی کمی کی وجہ سے قوم کو 100 روپے اضافے کی کڑوی گولی بغیر پانی کے نگلنا پڑی تھی۔ شہباز شریف چاہتے ہیں کہ انہوں نے اگر الیکشن کے بعد وزیراعظم نہیں رہنا تو انہیں کوئی غرض نہیں کہ ان کے بعد ان کی پارٹی کو اقتدار ملتا ہے یا نہیں۔
عوام یہ یاد رکھیں کہ سیاست خاندانوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ بے نظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو اس کی ایک واضح مثال ہے۔ آپ چودھری ظہور الٰہی کے خاندان کی عبرتناک مثال دیکھ لیں کہ کس طرح چودھری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کے اختلافات سے پارٹی ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے ۔ اس لئے اگر نواز شریف اور شہباز شریف اقتدار کے اس کھیل کی اپنی اگلی نسل کو منتقلی کے مرحلے پر ساتھ نہ چل سکیں تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی۔ شجاعت اور پرویز الٰہی بھی اولادوں کی وجہ سے ہی تقسیم ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ کا ووٹ بینک نواز شریف کا ہے شہباز شریف اپنی تمام تر ایڈمنسٹریشن کے باوجود وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے۔
پاکستان کی سیاست کے same page theory کے کسی دور افتادہ کونے میں ممکنات کا ایک غیر مرئی نکتہ یا DOT ہے جس میں آنے والے سیاسی خدوخال کی ایک مبہم تصویر میں میاں نواز شریف کی قومی سیاست میں واپسی کا نقشہ ہے۔ اگر معاملات کا رخ اس طرف ہوگیا تو میاں صاحب کا چوتھی بار وزیر اعظم بننا اتنا ہی ممکن ہے جتنا عمران خان کا 9 حلقوں سے ضمنی الیکشن جیتنا یا فارن فنڈنگ کی بنیاد پر سیاست سے باہر ہونا ممکن ہے۔ سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔

تبصرے بند ہیں.