حکومت کو ای سی ایل ترامیم پر اٹھنے والے اعتراضات ختم کرنے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت

14

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) ترامیم پر اٹھنے والے اعتراضات کو ختم کرنے اور ترامیم کو قانونی دائرے میں لانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے از خود نوٹس کی مزید سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں حکومتی شخصیات کی تحقیقاتی اداروں میں مبینہ مداخلت کے کیس کی سماعت ہوئی جس دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ملزم کا نام بھی ای سی ایل سے نکال دیا گیا جو عدالت عظمیٰ نے شامل کروایا تھا، نیب مقدمات کے نام ای سی ایل میں کون شامل کرواتا ہے؟
چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ای سی ایل میں نام چیئرمین نیب کی ہدایت پر شامل کئے جاتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے نیب سوچ سمجھ کر ہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے لیکن نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا، نیب کے مطابق اربوں روپے کی کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری رائے میں تو ای سی ایل ہونی ہی نہیں چاہیے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیس میں ذاتی رائے پر نہیں جائیں گے، ممکن ہے عدالتی حکم مشکلات پیدا کرے، لیکن ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کر لیں، ہم ایگزیکٹو اختیارات میں فی الحال مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔
دوران سماعت وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لاءنے کہا کہ شرجیل میمن سمیت 8 افراد ملک سے باہر گئے اور واپس نہیں آئے جس پر چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ اگر کوئی زبردستی کیس بنوانے کی بات کرے تو عدالت کو آگاہ کریں، آپ سول سرونٹ ہیں، کسی کی مداخلت تسلیم نہ کی جائے۔
 چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے جو کہنا چاہ رہا ہوں آپ سمجھ گئے ہوں گے، نیب بھی یقینی بنائے کہ اس کا ادارہ کسی کے خلاف انتقام کیلئے استعمال نہ ہو۔ عدالت نے ایف آئی اے اور نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ مانگتے ہوئے حکم جاری کیا کہ تمام ثبوتوں اور ریکارڈ کی سافٹ کاپی عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جائے۔ اگر ریکارڈ گم ہوا تو سپریم کورٹ سے آپ کو مل جائے گا۔

تبصرے بند ہیں.