…… زندگی کوفیوں میں گزری ہے!

190

28مئی 1998ء، وہ مبارک دن جب (زوج محترم کے)ایک غیر ملکی مسلم شاگرد نے خوشی سے لرزتی آواز میں فون کرکے مبارکباد دی کہ پاکستان نے کامیابی ایٹمی دھماکے کر دیے! یہ خوشی طویل عرصے کے بعد پاکستان کو ملنے والی حقیقی بے مثل خوشی تھی جس کی لہر پوری مسلم دنیا میں پھیل گئی۔ پاکستان کے ایٹمی قوت بن جانے پر عالم اسلام نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر کھل اٹھا! مسلم اخوت کے اس بے اختیار احساس و اظہار نے دنیائے کفر میں غم وغصے‘ جلن کڑھن کے جوار بھاٹے اٹھا دیے۔ امریکا سے لے کر اسرائیل و بھارت تک! یہی وجہ تھی کہ اسرائیل کا ذخیرہ ہائے ایٹم بم ”یہودی بم”اور بھارت کے”ہندو بم“ نہ کہلائے مگر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت نے فوراً کلمہ پڑھا اور دنیا نے اسے ”اسلامی بم“ کہا۔ اسلامو فوبیا تو اتنا ہی پرانا ہے جتنی حق و باطل کی کشمکش پرانی ہے۔ ازلی ابدی! پاکستان تحفظ پا گیا۔ ہماری سرحد پر دانت گاڑے دشمن کے ایٹمی دھماکوں کے دانت کھٹے کردیے۔ ہم پر چڑھائی کر گزرنے پر کمربستہ بھارت جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ 1971ء میں آدھا ملک آبادی کابڑا حصہ کٹ جانے اور معیشت کے دھچکے کے بعد یہ ایک معجزہ تھا۔ تیسری دنیا کا دبا پسا، دشمنوں کے نرغے میں پھنساپاکستان یکایک دنیا کے بڑے ایٹمی چودھریوں کے برابر ساتویں ایٹمی قوت بن کر آن کھڑا ہوا۔ یہ میرے رب کی مشیت تھی۔ پاکستان کا قیام معجزہ تھا، اس کی سلامتی کے درپے قوتوں کے علی الرغم اس کی بقا بھی معجزہ رہی۔ لوٹنے والوں نے اسے اتنا لوٹا کہ بد عنوانیوں کے ریکارڈ مسلسل ٹوٹتے رہے۔ اس کے باوجود رب تعالیٰ ہمیں نوازتا رہا۔ بقول مختار مسعود: بڑے آدمی انعام کے طور پر دیے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر اٹھا لیے جاتے ہیں۔ اللہ نے اسلام و پاکستان سے شیفتگی رکھنے والا سائنس دان ہمیں عطا کیا جس نے پوری دلسوزی اور درد مندی سے ان تھک محنت کی۔ سٹیلائٹ سے ہمیں جھانکتے تاکتے رہنے والے اندر باہر سے مخبریاں کرنے کرانے والے (ملک غداروں،میر جعفروں میں سدا سے خود کفیل رہا ہے) سب منہ تکتے رہ گئے! اللہ کے اذن سے پھر یہ ثابت ہوا: مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے!
جیسے آج دنیا میں طالبان اچانک رونما ہو گئے۔ دنیا یقین نہیں کرپا رہی،عین اسی طرح ایٹم بم کی بوسونگھتے پھرتے،حاسدین عالم، مگر دھماکے ہو کر رہے! دشمن ہاتھ ملتے رہ گئے۔ یقیناً اس میں ذوالفقار علی بھٹو کو اللہ نے (قادیانی مسئلے ہی کی طرح)اس بات پر یکسو کردیا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم بناکر رہیں گے۔ قادیانی لابی کی تمام تر حوصلہ شکنیوں،ا یٹمی صلاحیت کے اندرونی دشمنوں کی سبھی چالبازیوں کے بیچ جس فرد کی استقامت،توکل علی اللہ اور پاکستان کو مضبوط کر دینے کے عزم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا،وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی تھے۔ اس پر سی آئی اے چیف کی گواہی موجود ہے!
ایٹمی صلاحیت پر تلملاتے مغرب کو بہانہ درکار تھا۔ سو وہ میسر آنے کی دیر تھی کہ 2001ء کے بعد بن جانے والی عالمی فضا میں امریکا پاکستان کے درپے ہو گیا۔ پاکستان کی کم نصیبی کہ اسے یہاں پرویز مشرف جیسا فدوی میسر تھا۔ چنانچہ سی آئی چیف نے پرویز مشرف کو یہ کہہ کر ڈاکٹر خان کو شکنجے میں لانے کو کہا کہ یہ وہ واحد شخص ہے جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا ڈالا۔ 2003ء میں یہ المیہ قوم نے دیکھا کہ محسن پاکستان، بابائے ایٹمی قوت کو ’قومی مجرم‘بناکر ٹیلی ویژن پر قوم کے سامنے پیش کردیا گیا۔ ایران،لیبیا اور شمالی کوریا کو خفیہ طور پر ایٹمی صلاحیت بیچنے کا جرم تنہا ڈاکٹر عبدالقدیر کے ذمے ڈال کر قربانی کا بکرا دنیا کو پیش کردیا۔ جو معافی یحییٰ خان یا نیازی نے قوم سے نہ مانگی (اور یہ فہرست بہت طویل ہے جو منتظر ہے اب یوم الدین ہی کی) وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر دن رات ایک کرکے پاکستان کو محفوظ مستقبل دینے کے مجرم کے حصے آئی۔ تف برتو …… درد مند پاکستانی دم بخود‘غم زدہ بہ چشم نم اس انہونی کو دیکھتے رہ گئے۔ قومی ہیرو کو زیرو اور زیرو کو سرخرو کرنے کا یہ دور ناسپاس ہم نے بھگتا۔ وہ غم طول پکڑتا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کو پرویز مشرف کی طرف سے معافی دینے کی ایک مزید ذلت دینے کے بعد گھر میں نظر بند کردیا۔ 2009ء میں عدالت نے اگرچہ نظر بندی ختم کی مگر ان کی آزادی بحالی نہ ہو سکی۔ سکیورٹی کے پردے میں انہیں پابند ہی رکھا گیا۔ 2008ء میں AFP کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا:میں نے دو مرتبہ ملک بچایا ایٹمی قوت بناکر اور دوسری مرتبہ سارا الزام اپنے کندھوں پر لے کر۔’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘والا سیدنا علی ؓ کا قول حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔ جھوٹے پروپیگنڈوں کے طور مار اس پر مستزاد رہے۔ پیسہ بنانے، جائیدادیں خریدنے کے سبھی الزامات چھوڑے گئے تاکہ انہیں متنازع رکھا جا سکے اور حکمرانوں کے غلط فیصلے جواز پا سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی پنشن پہلے 4,466 روپے تھی، پھر 19 ہزار کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری گئی۔ بعد ازاں سپیشل پنشن کا آغاز ہوا جب دیکھا کہ بینک اکاؤنٹ خالی اور بہن بھائیوں سے لے کر کھانے کی نوبت آگئی ہے۔
قوم اور سیاسی جماعتیں اس تغافل کے جرم پر سبھی قابل گرفت ہیں۔ یہ قوم محسن کش ہے۔ بانی ئپاکستان خراب ایمبولینس میں کراچی کے حبس دم والی گرمی میں راستے میں نقل مکانی فرما گئے۔ جب بہن بے بسی سے قائد اور بانی کے منہ پر سے ہاتھ کے پنکھے سے مکھیاں ہٹا رہی تھی! اور اب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے پر پوری ملکی قیادت، سیاسی قیادت غائب تھی کلیتاً۔ دو قدم پر بیٹھے صدر،وزیراعظم، کابینہ کے ارکان،مقتدرین اعلیٰ سبھی زبانی جمع خرچ کے سوا شامل نہ ہوئے بس ٹوئٹس اور پھول چڑھانے پر اکتفا کیا جس کے وہ محتاج نہ تھے۔ پوری مقتدرہ چند قدم پر بیٹھی رہی!قبل ازیں شدید بیماری میں کسی نے مزاج پرسی تک نہ کی جس کا انہوں نے شکوہ بھی کیا۔ تحفظات کیا تھے؟ ایٹم بم پر دنیا کے سامنے شرمساری کا اظہار؟ IMF, FATF کے لالے پڑنے کا خوف؟ امریکی نائب وزیر خارجہ جو ابھی تکبر و نخوت میں ڈوبی بھارت میں ہماری تحقیر کرتی پاکستان سے ہوگزری اس کی پرچھائیں سے ڈر کر؟ اس سے پہلے پاکستان نے قائداعظم کی وفات پر یہ منظر دیکھا تھا کہ ملک کے قادیانی وزیر خارجہ نے بانیئ پاکستان کی نماز جنازہ میں (علیٰ الاعلان) شرکت نہیں کی تھی۔ چلئے ان سب کی موجودگی سے ڈاکٹر صاحب محفوظ رہے اور عامۃ الناس جن کی محبت، عقیدت بھری دعائے مغفرت کے اخلاص بھرے سائے میں وہ رخصت ہوئے، اللہ کے حضور ان کے لیے گواہیاں اپنے عوام کی جائیں گی جن کی خاطر کلفت کاٹی،آزمائشوں سے گزرے،جو ایٹمی قوت بنا دینے کی پاداش میں کتنا عرصہ چند قدم پر رہنے والی بیٹی اور نواسیوں کی دید سے بھی محروم رکھے گئے۔ جب ان سے شہاب الدین غوری کے مزار پر سوال کیا گیا کہ اس کی تعمیر میں دلچسپی کی وجہ کیا تھی تو کہنے لگے: آپ کا ہیرو رنجیت سنگھ ہے اور ہمارا شہاب الدین غوری ہے! سورنجیت سنگھیئے جنازے پر نہ آئے تو مضائقہ ہی کیا ہے! اللہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مغفرت فرمائے، ان کی محنت قبول فرمائے (آمین)۔ مسلم مملکت کے دفاع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ان کا مقدر ہو: اللہ ایک تیر کی بدولت تین افراد کو جنت میں داخل کرتا ہے۔ تیر بنانے والا جو نیکی کے ارادے سے بنائے۔ مجاہد کو تیر فراہم کرنے والا اور تیر چلانے والا۔ سو بقدر ایٹم بم اجر اللہ تعالیٰ اس حدیث پاک کی روشنی میں انہیں عطا فرمائے (آمین)۔ اللہ نے حکماً ارشاد فرمایا ”اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کیلئے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمنوں اور دوسرے اعداء کو خوفزدہ کردو۔ جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹا یاجائے گا اور تمہارے ساتھ ظلم ہر گز نہ ہو گا“۔ (الانفال۔60)
اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ ہم نے گھاس کھائے بغیر ایٹمی قوت حاصل کرلی۔ تاہم حکمرانوں نے بم کے خالق کو گھاس کھلانے کی کوشش کر ڈالی۔ بعد ازاں ہماری معاشی بد حالی ساری حکمرانوں کی اشرف غنی و افغان کٹھ پتلی حکومت والی بدعنوانیوں کی بنا پر ہے۔ ان کی آف شوریوں،بیرون ملک جائیدادوں، فارم ہاؤسوں نے ملک کھوکھلا کر ڈالا۔ قوم کے نوجوانوں سے رول ماڈل،نمونہ ہائے عمل الگ چھین لئے گئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام میلاکرکے کھلاڑی شوبز کے نچئیے گویے بھانڈلا سجائے۔ سو 20 سال میں پلنے بڑھنے والی نسل ٹک ٹاکر ریمبونما ہے۔ اعلیٰ اخلاق و کردار،محنت، اولوالعزمی،پامردی عنقا ہے!
اپنے اطراف میں دیکھوں تو مجھے لگتا ہے!
قبل بعثت کا زما نہ ہے،ز مانہ میرا!

تبصرے بند ہیں.