نئے کھوتے کی تلاش

142

آخر ڈی جی ’آئی ایس آئی‘ کے بظاہر اہم عہدے پر تعیناتی کا مسئلہ اتنی غیرمعمولی نوعیت کیوں اختیار کر گیا ہے کہ پوری کی پوری حکومت کے گزشتہ چھ اکتوبر سے اوسان خطا نظر آتے ہیں …… کھلاڑی جمع وزیراعظم تو ایسا معلوم ہوتا ہے تمام کارہائے حکومت سے خواہ فوری نوعیت کے ہوں یا مستقل بنیادوں پر حل کے متقاضی سے صرفِ نظر کر کے صرف اسی ایک مسئلے کو اپنی مرضی کے مطابق حل کرنے پر ساری توجہات مرکوز کیے ہوئے ہیں …… سخت پریشانی کا عالم طاری ہے…… وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے افراد نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی صورت حال سے دوچار ہیں …… ابتدا میں معلوم ہوتا تھا فوجی قیادت کے ساتھ اہم درجے کے افسر کی تعناتی پر اختلاف پیدا ہو گیا ہے جو زیادہ بڑی بات نہیں تھی اس طرح کے اختلاف جنم لیتے رہتے ہیں اور بالآخر حل بھی ہو جاتے ہیں مگر موجودہ اختلاف نے تو یوں کہیے پوری حکومت کا انجر پنجر کر کے رکھ دیا ہے…… اختلاف تیزی سے ٹکراؤ کی صورت اختیار کر گیا ہے…… گزشتہ دس بارہ روز سے عمران خان بہادر کو اس کے علاوہ کچھ سوجھ نہیں پا رہا…… معلوم ہوتا ہے خارجہ پالیسی جیسے نازک مسائل کا آج کے پاکستان سے کوئی تعلق نہیں …… بجلی اور پٹرول کی قیمتیں آسمان کی حدوں کو چھوتی ہوئی کہیں سے کہیں جا پہنچی ہیں …… ’آئی ایم ایف‘ کی سخت ترین شرائط نے لوگوں کو جینے کے قابل نہیں رہنے دیا لیکن جناب وزیراعظم کو ان سے زیادہ سروکار نہیں …… گزشتہ 6 اکتوبر سے قبل تک خان بہادر کا سب سے بڑا مسئلہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے انتخابات کا انعقاد اور بذریعہ ای میل بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولتیں فراہم کرنا تھا جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حزب اختلاف کی بڑی جماعتیں آمادہ نہیں ہو پا رہی تھیں …… اس امر نے بہت بڑے سیاسی تنازع کی شکل اختیار کر لی تھی…… دو وفاقی وزراء تو الیکشن کمیشن کو کھلے عام دھمکیاں دینے پر اتر آئے تھے جن پر ان کے خلاف شوکاز نوٹس جاری ہونے والے تھے…… وزیراعظم 6 اکتوبر تک وزراء کے حق میں اپنی بات منوانے پر ڈٹے ہوئے نظر آتے تھے مگر ڈی جی ’آئی ایس آئی‘ کی تعیناتی کے مسئلے نے سب کچھ بھلا کر رکھ دیا ہے…… حالات نے یک دم ایسا رخ اختیار کر لیا ہے کہ سول حکومت اور فوجی قیادت ایک دوسرے کے سامنے کھڑی نظر آتی ہیں …… دونوں پارٹیاں اپنی اپنی بات منوانے پر ڈٹ گئی ہیں …… لوگ حیران ہیں ایسی تعیناتی پہلی مرتبہ تو نہیں ہو رہی…… دنیا کے دیگر ممالک نہ پاکستان میں بڑے نامی گرامی لوگ ڈی جی ’آئی ایس آئی‘ رہے ہیں …… جنرل حمید گل کو کون نہیں جانتا ان کے علاوہ درجن سے زیادہ ایسی شخصیات ہوں گی جن کی تعیناتی ہوئی پھر انہیں ان کے عہدوں سے ہٹا بھی دیا گیا کوئی شور نہیں برپا ہوا……
آخر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کون سے ایسے سرخاب کے پَر لگے ہوئے ہیں اور کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ندیم ایس اعجاز کے ریکارڈ میں کون سے نقائص پائے جاتے ہیں کہ پہلے کی تبدیلی اور اس کی جگہ دوسرے کی تعیناتی نے عمران حکومت کے درودیوار ہلا کر رکھ دیئے ہیں، بھونچال سا آ گیا ہے، پھر ایسا معلوم ہونے لگا کہ ورلڈکپ جیتنے والے کھلاڑی کی حکومت کی مدت پوری کرنے کا سارا انحصار ہی اس بات پر ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اپنے عہدے پر برقرار رہتے ہوئے خدمات سرانجام دیتے رہیں …… وہ سرخاب کے پَر 6 اکتوبر کی صبح کو ہی نمایاں ہو گئے تھے جب مریم نواز شریف نے اپنے وکیل کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل پر بیان دینے کے بعد احاطہ عدالت میں کھڑی ہو کر دھواں دار پریس کانفرنس کر ڈالی اس میں بآواز بلند قوم کو آگاہ کیا کہ نوازشریف کی وزارتِ عظمیٰ سے برطرفی اور بعد میں نیب کی
عدالتوں کے ذریعے باپ بیٹی کی سزاؤں کو ممکن بنانے کے لئے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے جو اس وقت آئی ایس آئی کی نمبر2 پوزیشن پر متعین تھے …… کیا کردار ادا کیا تھا…… ججوں سے مرضی کے فیصلے حاصل کیے…… اس کی خاطر بنچوں کی تشکیل کرائی اس طرح وہ انقلاب حکومت رونما ہوا جس نے عمران خان کے لیے جگہ خالی کی…… نوازشریف جیل میں تھے اور عمران بہادر کے لیے انتخاب جیتنا آسان تر ہو گیا…… پھر جب وزیراعظم عمران نے 2019 میں کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے کے موقع پر مریم اور صفدر کے ہوٹل میں تالا کھول کر کمرے کے اندر داخل ہونے کی نازیبا ترین حرکت کی تو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیر گریزاں تھے تب خان بہادر وزیراعظم کی خواہش پر جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی متعین کر دیا گیا…… موصوف نے سینٹ میں چیئرمین کے خلاف اکثریت ہونے کے باوجود جس طرح صادق سنجرانی صاحب کو کامیاب کرایا وہ بھی ان کی شہرت پر چار چاند لگا گیا…… یہ اور اس طرح کے دوسرے کارہائے نمایاں سرانجام دینے کے بعد فیض حمید عمران خان کے محبوب نظر بن چکے تھے……
6 اکتوبر کو مریم کی پریس کانفرنس ان کے ڈی جی ’آئی ایس آئی‘ کے عہدے سے ہٹایا جانا ہمارے کھلاڑی وزیراعظم کو ہرگز منظورِ خاطر نہ تھا…… 2023 کے انتخابات یوں سمجھئے کہ سر پر کھڑے ہیں اور عمران بہادر اپنے اس شہرہ آفاق ڈی جی ’آئی ایس آئی‘ سے کئی امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے کہ مریم نواز نے ان کا بھانڈہ پھوڑ کر رکھ دیا…… ان کی پریس کانفرنس کے معاً بعد راولپنڈی میں کور کمانڈرز کا اجلاس منعقد ہوا…… کئی سینئر فوجی افسروں کی تبدیلی اور نئے عہدوں پر تعیناتی کا فیصلہ ہوا …… جنرل فیض حمید بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے اب وہ ملک کے متنازع ترین ڈی جی آئی ایس آئی بن چکے تھے…… ان کا اس عہدے پر برقرار رہنا کئی قسم کے تنازعوں کو جنم دے سکتا تھا مگر عمران خان کے لیے تو موصوف کی برطرفی وزیراعظم بہادر کے کئی خوابوں کو پریشان کر کے رکھ دینے والی تھی لہٰذا وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے ایسا ردعمل آیا کہ اس نے پورے ملک کی سیاسی صفوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا…… وہ دن اور آج کا دن عمران بہادر کی سول حکومت اور پاکستان کی فوجی قیادت ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا کھڑے نظر آتے ہیں …… اس ضمن میں قیاس آرائیوں نے جو آسمان کو سر پر اٹھا لیا ہے…… ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت صبح گئی یا شام گئی ایسا نہ بھی ہو تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سول ملٹری تعلقات میں جو دراڑ آئی ہے اسے دور کرنے کے لیے کسی بڑی اور غیرمعمولی جراحی سے کام لینا ہو گا…… اس سلسلے میں کئی پاپڑ بیلے گئے حکومت کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ فوجی قیادت زیادہ نہیں 6 ماہ کے لیے جنرل فیض حمید کو ان کے عہدے پر برقرار رکھنے پر آمادہ ہو جائے تاکہ وزیراعظم صاحب اگلے انتخابات کی کچھ نہ کچھ پیش بندی کر لیں …… ایک شب آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان خفیہ ملاقات بھی ہوئی…… ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ وقت تک جاری رہی…… وزیراعظم کی خواہش تھی ان کے پاس تین متوقع امیدوار جرنیلوں کی فہرست ہی بھجوا دی جائے جن میں سے ایک کا انتخاب کر کے وہ بنفسِ نفیس قوم کو بتا سکیں کہ تعیناتی کا اختیار رکھتے ہیں تو وہاں سے جواب ملا یہ فیصلے ہمیشہ سے ہمارے یہاں سے کیے گئے ہیں اب بھی پرانے طریق کار سے روگردانی نہ ہو گی…… اس کے باوجود حکومت کو صبح شام سمری کا انتظار رہتا ہے شاید آ جائے…… وزیرداخلہ شیخ رشید نے کہا ہے ایک ہفتہ انتظار کر لو کچھ نہ کچھ ہو جائے گا کس بات کا انتظار کیا جائے…… ایک سینئر فوجی آفیسر کی تعیناتی کا جس نے قوم کا پورا وقت حکومتی اہلکاروں کی صلاحیتیں اور فوجی فرمانرواؤں کی توجہات سب کچھ نچوڑ کر رکھ دیا ہے…… کیا کبھی کسی ملک میں ایسا بھی ہوا ہے وجہ اس کی ایک تو وہ ہے جو راقم ان کالموں میں بار بار لکھتا رہا ہے کہ نیم جمہوری نیم آمرانہ نظام ہمیشہ ناکام رہا ہے…… اب تو خیر اس کی ناکامی میں کوئی کسر باقی نہیں رہی اس کے باوجود ہمارے فرمانروا اسے بہت عزیز گردانتے ہیں …… اسی سوچ اور اپروچ میں خرابی کی اصل جڑ پائی جاتی ہے…… آپ نے ایک جمہوری نظام کو الٹا پھینک کر بلکہ بار بار بوٹوں تلے روند کر اس کی جگہ گدھا گاڑی لاکھڑی کی ہے جس کے نتائج پوری قوم بھگت رہی ہے…… اس کے باوجود آپ نئے کھوتے کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں …… پہلے بتایئے اس بے چاری قوم نے آپ کا کیا بگاڑا ہے دوسرا اس بات کا جواب دیجیے آپ کی لائی ہوئی نئی اور عظیم الشان تبدیلیوں کے شاخسانے کے طور پر مہنگائی اور بیروزگاری جو سرچڑھ کر بول رہی ہے کہ ماضی میں پاکستان کی کسی حکومت میں اپنی ایسی درگت بنتی نہ دیکھی ہو گی اس کا ذمہ دار کون ٹھہرے گا…… آپ جواب دیں گے کہ ذمہ دار عمران خان اور ان کے ساتھی ہیں مگر یہ وہ لوگ ہیں جن کی نااہلی انتخابات سے پہلے بھی پوری قوم کے باشعور لوگوں پر عیاں تھی…… آپ کو کیوں نظر نہیں آتی محض اس واسطے کہ تلاش آپ کو ایک تابعدار اور تابع مہمل کی تھی وہ تابع مہمل بھی سر کو آن چڑھا ہے…… نہ آپ کو اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا راستہ نظر آ رہا ہے نہ اسے اندھیرے میں کچھ سجھائی دے رہا ہے…… اندھیرے میں ٹکریں کھانے کے لیے صرف پاکستانی قوم باقی رہ گئی ہے…… نامرادیوں کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا…… براہ کرم آزادانہ انتخابات ہو لینے دیجیے قوم کے فیصلے کے آگے سر جھکا کر تو دیکھیے پھر آپ کتنے سرخرو ثابت ہوتے ہیں …… قوم بھی کامیابی سے سرشار ہو گی…… آپ بھی زیادہ اطمینان کے ساتھ اپنی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے پائیں گے……

تبصرے بند ہیں.