تعلیم اور اشتعال

94

جس کے طرزِ تکلم اور نشست برخواست پر تعلیمی اثرات نہیں وہ ڈگریاں ہولڈرتو ہوسکتاہے اُسے با علم نہیں کہہ سکتے کیونکہ تعلیم یافتہ دلیل سے قائل کرتا ہے پنجاب گروپ آف کالجز صوبے کا ایک بڑانجی تعلیمی نیٹ ورک ہے یہاں طلبا و طالبات کی تعداد سات لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے تعلیمی معیار کی بات کریں تو اگر مثالی نہیں تو بھی کافی حدتک بہتر ہے کیونکہ گزشتہ ایک عشرہ میں اس نیٹ ورک سے فارغ التحصیل نے کئی اہم پوزیشنزلی ہیں مگر یہ نجی تعلیمی اِداروں کانیٹ ورک آجکل عوامی نفرت وعتاب کا شکار ہے یہاں کے طالب علم طیش میں ہیں جبکہ سوشل میڈیا تیل ڈالنے کا کام کررہا ہے وجہ یہ ہے کہ لاہور میں قائم اسی نیٹ ورک کے ایک کالج میں ریپ ہونے کا الزام ہے جسے جواز بناپر لاہورمیں احتجاج شروع ہواجو اب پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جس کا اورکوئی نقصان ہو یا نہ ہو یہ تعلیمی نیٹ ورک متنازع ہوچکاہے اوردوبارہ ساکھ بنانے کے لیے صفائیاں دیتے ہوئے طویل عرصہ درکارہوگا واقعہ سچا ہے یا جھوٹا، ابھی تحقیقات ہونا ہیں لیکن خدشہ ہے کہ دلیل سے قائل کرنے کے بجائے اشتعال میں آنے سے صنفِ نازک کے لیے تعلیمی مواقع مزیدکم ہوجائیں گے لہذا بہتر ہے کہ تحقیقات سے قبل عدالت لگا کر مجرموں کا تعین کرنے اور سزا سنانے کا عمل ترک کر دیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اِداروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع ملے وگرنہ جس طرح کا ماحول ہے خدشہ ہے کہ کہیں مشتعل ہجوم سڑکوں پر سزائیں نہ دینے لگیں۔
کالج میں ریپ کے واقعہ بارے مظاہرین کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں چند ایک لڑکیوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے لڑکی کو روکتے دیکھا اور بعدمیں کمرے سے اُس کی چیخیں سنیں جسے بنیاد بنا کر طلبا و طالبات بپھر گئے اور پنجاب کالجزپرحملے شروع کر دیئے یہ ہوش مند طرزِعمل نہیں ویسے بھی جس واقعہ کا کوئی مدعی نہ ہو اُس پر کوئی اِدارہ کارروائی نہیں کر سکتا یہاں تو جس لڑکی کی آبروریزی کادعویٰ کیاجارہاہے اُس کے والدین ایسے کسی واقعہ کی پُرزور نفی کرتے کہتے ہیں کہ اُن کی بیٹی گھر میں سیڑھیوں سے گرکر زخمی ہوئی اِس وجہ سے ہسپتال لیکر گئے اور آجکل چھٹیوں پرگھرہے لیکن احتجاجی یقین کرنے کو تیار نہیں اور املاک کی توڑ پھوڑ کے ساتھ گاڑیوں کونذرِ آتش کرتے پھر رہے ہیں ایسا انصاف دنیا میں کہیں نہیں ہوتا جیسا آجکل پنجاب کی سڑکوں پر ہورہا ہے اگر ایک لمحے کو یہ تصور کر لیا جائے کہ واقعہ ہوا ہے تو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں مل جاتی یہ سراسر غنڈہ گردی ہے اور امن و امان کی فضا خراب کرنے کاسوچا سمجھامنصوبہ لگتا ہے جس پر قابوپانا اور ملوث رذیلوں کو بے نقاب کرنا حکومتی ذمہ داری ہے۔
صوبائی وزیرِ تعلیم رانا سکندرحیات نے اچھا کیا جو مشتعل طلبا و طالبات کو مطمئن کرنے چلے گئے لیکن ماحول دیکھ کر وہ بھی جذباتی ہوگئے نہ صرف کالج کی وابستگی معطل کردی اور گارڈ کی گرفتاری کاحکم صادر کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کرنے کی بھی ہدایت کر دی ایسے اطوار تو مراد راس جیسے کم فہم و دانش کے بھی نہ تھے جس کا مظاہرہ رانا سکندر حیات نے کیا بچگانہ باتیں اور احکامات سے انصاف خاک ہوتاالٹا آتشِ طیش کو پھیلانے میں مدد ملی کاش احکامات صادرکرنے سے قبل معلومات لے لی جاتیں مگر جو سنا اُس پر بغیر سوچے سمجھے یاکسی سے مشاورت کیے ہی تصدیق کرتے ہوئے کارروائی کرادی یہاں مدعی ہے نہ وکٹم، نہ ہی ملزم ہے اور نہ ہی ثبوت،مگروزیرکی تصدیق سے لوگوں کو باتیں کرنے اور جھوٹے بیانیے کو سچائی کاپیراہن پہنانے کا موقع ہاتھ آگیا رہی سہی کسر اے ایس پی شہربانو نے پوری کردی جو پہلے بھی ایک واقعہ سے شہرت کشیدکرچکیں لباس پر عربی زبان کی عبارت تحریر ہونے پر ایک لڑکی کو بپھرے ہجوم نے گھیر لیا توایک عیسائی نوجوان نے جان ہتھیلی پر رکھ کراُس کا تحفظ کیا مگر شہربانو منصب کے بل بوتے پرکریڈٹ لے گئیں یہ واردات واقفانِ حال سے چھپی نہ رہ سکی مگر حاکمانِ وقت اور بااختیار لوگوں نے جب شہربانو کی تحسین شروع کردی تو میڈیابھی اُسی روش پر چلنے لگا اب جب وہی خاتون آکر کہانی سنانے لگی توسچ پربھی کسی نے یقین نہ کیاجس نے ویڈیوزاور تصاویر پھیلانے پر ایکشن لینا تھا اُس نے میڈیا کوریج کو مسئلہ کاحل جانا اِس طرح جھوٹے افسانے پر سچائی کا لیبل چسپاں ہوتا گیا۔
کاروباری چپقلش اور حسد ہمارے ہاں عام ہے کیونکہ پنجاب گروپ آف کالجز کا تعلیمی معیار بہتر ہونے کی بناپراولاد کے لیے والدین کی اولیں چوائس ہے لیکن دیگرنجی تعلیمی اِداروں کو ایسی پذیرائی نہیں مل رہی اسی بناپر یہ امکان رَد نہیں کیا جا سکتا کہ بے بنیاد واقعہ کو اُچھالنے میں کاروباری چپقلش اور حسد کا عمل دخل ہویہ بات زبانِ زد عام ہے کہ میاں عامر محمود کے میاں منیر کاروباری شراکت دار ہیں جو مریم نواز کی صاحبزادی اسما نواز کے سُسر ہیں اور مریم نواز آج کل اپوزیشن کا ہدفِ تنقید ہے تو ممکن ہے کاروباری رقابت اور سیاسی مخالف نے رنگ دکھایا ہو جو بھی ہے دلیل کے بجائے مشتعل ہوکربزور بات منوانا کسی تعلیم یافتہ اور ذمہ دار کے شایانِ شان نہیں سنی سنائی بات پر بغیر تحقیق ماردھاڑ کرنا جہالت ہے حادثہ کہیں بھی ہو سکتا ہے جس کا حل ذمہ دار کا تعین اور سزا ہے لیکن من گھڑت واقعہ کو بنیاد بناکر تعلیمی اِداروں پر حملے کرنا،پولیس پر چڑھ دوڑنا اور جھوٹ پھیلانا جُرم ہے ایک بچی کی زندگی تباہ کردی گئی ہے اُس کے ساتھ واقعہ ہوا یا نہیں اینٹی ریپ ایکٹ تو نام شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا یہاں دھڑلے سے بیانیے کی تقویت کے لیے تصاویر دکھا ئی جارہی ہیں وقت آگیا ہے کہ پارلیمان ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر قانون سازی کرے۔
حالاتِ حاضرہ سے آگاہی نتیجہ خیز لائحہ عمل بنانے میں مددگار ہوتی ہے لیکن پنجاب کالج واقعہ کے حوالے سے صوبائی حکومت کے بڑے عہدوں پر براجمان لاعلمی کے شاہکار لگے وزیراعلیٰ نے ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں چوہدری پرویز الٰہی کو ق لیگ کاحصہ کہہ اپنی لاعلمی ظاہرکی حالانکہ وہ دوبرس قبل اِس جماعت سے کنارہ کش اور پی ٹی آئی کے مرکزی صدر ہیں چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان اِس حدتک کینہ پرورہیں کہ صرف منظورِ نظر ماتحتوں پر مہربان ہوتے ہیں جس سے خفا ہوں عین ترقی سے قبل سورس رپورٹ پر کیس بنوا کراُس کی ترقی رکوا دیتے ہیں اسی لیے گوشہ نشین کی مانند ہیں اِن حالات میں بھلا آگاہی کیسے ہو؟ جب کہ آئی جی ڈاکٹر عثمان انور کی کارکردگی صرف سوشل میڈیا تک محدودہے اور وہ اہم تعیناتیاں بھی اپنے ہم مزاج اور بچوں کی طرح ناراض ہونے والے لوگوں کوہی دیتے ہیں گجرات اِس کی واضح مثال ہے جہاں ایسے حالات ہوں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے جوآجکل پنجاب میں ہو رہا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ اپنے ہمرکاب بیوروکریسی کی بدنامیوں کا بوجھ اُٹھانے کے بجائے اہل اور باصلاحیت ایسے افراد کو اہم عہدوں پر لائیں جو نیک نامی کاباعث بنیں اور ہنگامی حالات میں ناکارہ ثابت نہ ہوں بلکہ بگاڑ پر قابوپانے میں معاونت کریں۔

تبصرے بند ہیں.