سرمیں سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتاہوں،تین مہینے پہلے چھٹی پرواپس آیاتھاآج واپسی تھی،کل کسی نے کہاکہ ڈی چوک پرتحریک انصاف کے احتجاج کے باعث راستے بندہورہے ہیں اس لئے میں رات کوہی گھرسے نکلا۔جیسے تیسے کرکے میں ایئرپورٹ توپہنچالیکن میرے پہنچتے ہی بہت دیرہوچکی تھی کیونکہ جہازمیرے پہنچنے سے پہلے ہی اڑان بھرچکاتھا۔اس لئے فلائٹ مس ہوگئی۔ابھی یہ میسج پڑھ رہاتھاکہ ایک دوست کی کال آئی فرما رہے تھے جوزوی صاحب پچھلے ایک گھنٹے سے ایمبولینس میں بیٹھاہوں،بڑے بھائی کی طبیعت بہت خراب ہے اسے ہسپتال لے جانے کے لئے نکلے تھے لیکن شاہراہوں کی بندش کے باعث کئی گھنٹوں سے ٹریفک مکمل جام ہے اورہم بھی ایک گھنٹے سے ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں،معلوم نہیں کب ہم ہسپتال پہنچیں گے۔یہ صرف ان دوبندوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ پی ٹی آئی اورحکومتی ڈرامے سے معلوم نہیں ان دو دنوں میں ایسے کتنے مجبور اور لاچار لوگوں اور انسانوں کو اس طرح کی اذیت، تکلیف، مشکلات اور امتحان سے گزرنا پڑا ہے۔ احتجاج، ہڑتال، جلسے، جلوس، مظاہروں اور دھرنوں کی وجہ سے شاہراہوں اور راستوں کی بندش یہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ پی ٹی آئی جیسے فارغ سیاستدانوں کا تو جب دل کرتاہے وہ چوکوں، چوراہوں اور ان راستوں و شاہراہوں پر اپنے لاؤ لشکر سمیت نکل آتے ہیں۔ اسی طرح حکمرانوں کا بھی جب جی میں آئے وہ خندقیں کھود کر یا ہیوی کنیٹینر و مشینری لگا کر ان راستوں اور شاہراہوں کو بند کرا لیتے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کیلئے توان راستوں اور شاہراہوں کی بندش کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ ان کے ساتھ اگر کوئی ایمرجنسی پیش آئے توان کے لئے ایک نہیں کئی ہیلی کاپٹرتیارکھڑے ہوتے ہیں۔ انہیں توان سڑکوں اورراستوں پرچلنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اس لئے یہ روڈاور راستے کھلے رہیں یابند۔۔؟ ان سے ان کاکوئی لینادینانہیں۔یہ مسئلہ توصرف ہمارے جیسے ان بدقسمتوں کے لئے ہے جن کے پاس اپنی گاڑیاں کیا۔؟ سائیکل تک بھی نہیں اورجن کاان راستوں اور شاہراہوں کے بغیر کوئی چارہ اور گزارہ بھی نہیں۔ غریبوں کے شب و روز کیا۔؟ ان کی تو پوری زندگیاں ان راستوں اور شاہراہوں پر چلتے پھرتے گزر جاتی ہیں۔ اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا اور انصاف کی نظروں سے دیکھا جائے تو یہ شاہراہیں اور غریب آپس میں لازم و ملزوم ہیں، جس دن یہ شاہراہیں بند ہوتی ہیں اس دن غریب کے گھر چولہا بھی نہیں جلتا، جس دن ان شاہراہوں پر سیاسی غنڈوں کاراج ہوتاہے اس دن غریب کے گھروں میں فاقوں کا ناچ ہوتا ہے۔ دو ہزار چوبیس کے عام انتخابات اورنئی حکومت کے قیام کے بعد یہ امیدہوچلی تھی کہ اب عوام کچھ سکھ کاسانس لے لیں گے لیکن پچھلے چندمہینوں سے حکومت اورپی ٹی آئی کے ڈراموں نے توعوام کی نیندیں تک حرام کر دی ہیں۔ ہر دوسرے دن ملک کے اہم شہروں اور بڑی شاہراہوں پر جیسے کسی فلم کی شوٹنگ ہو۔ کپتان کیا قید ہوئے کہ پی ٹی آئی والوں نے تو ملک کو خالہ جی کا گھر سمجھ لیا۔ احتجاج، جلسے، جلوس، مظاہرے اور دھرنے سب لوگ کرتے ہیں لیکن یہ کیا طریقہ ہے کہ ہر دوسرے دن تم اپنے لاؤ لشکر لیکر چوکوں، چوراہوں اور شاہراہوں پر نمودار ہونا شروع کر دو۔ کیا خیبرپختونخوا کے عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ اس لئے دئیے تھے کہ یہ ہر دوسرے دن چوکوں اور چوراہوں پر ملک کا تماشا لگائیں گے۔؟ پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا میں تیسری بارحکومت و اقتدار سنبھالے آدھے سے بھی زیادہ سال گزر گیا ہے لیکن ان سات آٹھ مہینوں میں کے پی کے کے اندرابھی تک کوئی خاطرخواہ کام نہیں ہوا۔جب سے پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی ہے تب سے انہیں احتجاج اورمظاہروں سے فرصت ہی نہیں۔جتنی توجہ صوبائی حکومت کی احتجاج پرہے اتنی اگرصوبے کی ترقی اورمسائل کے حل پرہوتی توآج صوبے کے عوام کایہ حال نہ ہوتا۔ صوبائی حکمران عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل نہیں کر سکتے اورہردوسرے دن پنجاب اوروفاق کوفتح کرنے نکل پڑتے ہیں۔ احتجاج کے نام پر جو کام اور طریقے تحریک انصاف والوں نے پکڑے ہیں یہی اگر سیاست اور جمہوریت ہے تومعذرت کے ساتھ ایسی سیاست اور ایسی جمہوریت پر ایک نہیں ہزار بار لعنت ہو۔ جس سیاست اور جمہوریت کی وجہ سے لوگوں کا جینا حرام ہو لوگوں کو ایسی سیاست اور جمہوریت کی ہرگز ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نے تو پڑھا اور بزرگوں سے سنا تھا کہ سیاست اور جمہوریت کی وجہ سے عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں۔یہ پھرکونسی سیاست یاکونسی جمہوریت ہے کہ جوغریب عوام کے لئے بذات خود مسائل کاباعث بن رہی ہے۔عوام نے نئی حکومت سے جوامیدیں اورتوقعات وابستہ کی تھیں وہ اس لئے نہیں کی تھیں کہ یہ حکومت ان کواس طرح سیاسی پارٹیوں اورسیاستدانوں کے ہاتھوں سڑکوں پر تماشا بنائے گی۔ مانا کہ پرامن احتجاج، جلسے، جلوس اور دھرنے یہ پی ٹی آئی کا حق ہے لیکن احتجاج کی آڑ میں عوام کا چین اور سکون غارت کرنا یہ نہ پی ٹی آئی کا حق ہے اور نہ ہی حکومت کا مینڈیٹ۔ یہ کونسا طریقہ اور کہاں کی سیاست ہے کہ آپ ہر دوسرے دن اکبر بادشاہ کے نکموں کولیکرکبھی لاہوراورکبھی اسلام آبادپرچڑھائی کریں۔معذرت کے ساتھ سلطان راہی والے ڈائیلاگ فلموں اورڈراموں میں بولے جاتے ہیں احتجاج اوردھرنوں میں نہیں۔ویسے یہ والااحتجاج بھی اگرپی ٹی آئی کاحق ہے تو پھر عوام کے لئے تکلیف، پریشانی اور مصیبت کا باعث بننے والے ہر بت کو جڑوں سے توڑنا اور گرانا یہ حکومت کا بھی حق ہے۔ پی ٹی آئی کے اس احتجاجی ڈرامہ بازیوں کو دیکھ کر لوگ تو اب کہتے ہیں کہ حکمرانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ طاقت اور اختیار رکھنے کے باوجوداس طرح کے ڈراموں پربھی چپھن چھپائی والاکھیل کھیلیں۔عوام پی ٹی آئی کے ان احتجاجی ڈرامہ بازیوں سے اب تنگ اور عاجز آگئے ہیں۔ حکمران ان ڈرامہ بازوں کوسنبھالیں نہیں توپھراس قیدی نمبراٹھ سوچارکوباہرنکالیں جن کے نام پرملک کے اندرایک سال سے یہ ڈرامے ہورہے ہیں۔عوام ان ڈراموں کواب مزیدبرداشت کر نے کے لئے تیارنہیں۔وقت آگیاہے کہ ان معاملات میںحکومت سنجیدہ ہویاپھرپی ٹی آئی۔ تاکہ ایک سال سے جاری ان ڈراموں کاکوئی نہ کوئی نتیجہ تونکلے۔
تبصرے بند ہیں.