رْت بدل رہی ہے دن ضرور پھریں گے

79

حالات ملکی ہوں یا غیر ملکی دونوں خراب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جس سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے ملک عزیز میں آئے روز کی احتجاج کی سیاست نے ایک بے چینی پھیلا رکھی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس احتجاج کا مقصد پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ہو سکتا ہے آگے چل کر ہدف واضح ہو جائے فی الحال کچھ نہیں ہونے والا لہذا پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئے اور کچھ لے اور دے کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے معاملات طے کرے۔اس کے کارکنان سے لیکر عہدیداران تک پہلے جیسے پر جوش نہیں رہے بعض تو اکتاہٹ محسوس کرنے لگے ہیں ۔
یادش بخیر ! جب عمران خان بقلم خود بڑے بڑے جلسے کیا کرتے تھے تو ہر جلسہ سے پہلے کسی بڑے انکشاف کا اعلان کرتے مگر جب جلسہ ہو جاتا تو وہ انکشاف ان کی دائیں جانب والی جیب میں ہی پڑا رہ جاتا جس سے کارکنان میں ناگوار سی کیفیت پیدا ہوتی اب ان کے عہدیداران بھی یہی کچھ کر رہے ہیں کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں جو ان کے ووٹرز اور سپورٹرز کو بدگماں کر رہی ہے۔انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہو رہا ہے کیا ہونے والا ہے ؟
حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی بھی احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے عوامی فلاحی منصوبوں پر بھر پور توجہ دے ریلیف پروگرام جاری کرے اس کا آغاز ہو بھی چکا ہے تیل کی قیمتیں کم ہونے لگی ہیں جس سے مہنگائی میں بھی کمی آرہی ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو یقیناً مہنگائی میں مکمل طور سے قابو پایا جا سکے گا مگر یہ بھی ہے کہ ایران اسرائیل حملے اگر باقاعدہ ایک جنگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو پھر تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔لگتا ہے یہ حملے جنگ میں نہیں تبدیل ہوں گے کیونکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس نے میزائل پھینک کر اپنے رہنماؤں کی شہادتوں کا بدلہ لیا ہے اور اگر اسرائیل نے جوابی وار کیا تو پھر وہ ایک تاریخ رقم کرے گا۔ بہر حال اسرائیل نے جو مظالم فلسطینیوں پر ڈھائے ہیں اور ڈھارہا ہے وہ بڑے ہولناک ہیں اس نے پوری دنیا کے لوگوں کے احتجاج کو مسترد کر دیا ہے۔اس نے وہی کیا جو وہ چاہتا تھا لہذا اب اسے یہ سبق ضرور مل گیا ہے کہ وہ جو اپنے دفاعی نظام پر اترا رہا تھا ایران نے اسے تہس نہس کر دیا ہے لہذا وہ مزید حماقتیں نہ کرے بصورت دیگر عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے پھر اس کی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی حکومتی اقدامات کی وہ بہتر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اب اس نے آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر منظور کروا لئے ہیں جنہیں اگر وہ خلوص نیت سے عوامی فلاحی منصوبوں پر خرچ کرتی ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جلسوں کی رونق ماند پڑ جائے گی کیونکہ عوام کے مسائل روزگار غربت اور مہنگائی ہیں ان سے متعلق حکومت ٹھوس اور جامع پالیسی اختیار کرتی ہے گونگلوؤں سے مٹی نہیں جھاڑتی تو سیاسی منظر نامہ ایک حد تک تبدیل ہو سکتا ہے۔یہ جو بعض دانشور اپنی دانش کی بنیاد پر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس میں انہیں کامیابی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ وہ عوام نہیں جو ان کی دانائی سے متاثر ہوں گے یہ سوشل میڈیا کی معلومات سے خود دانشور بن چکے ہیں آپ کسی بندے سے کسی موضوع پر بات کرکے دیکھ لیں وہ آپ کو مطمئن کرے گا لہٰذا حکومت ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ’’ذہین افراد‘‘ کا تعاون حاصل کرنے کے بجائے عملاً کچھ کرے۔ بڑے بڑے پروجیکٹس کا اجرا کرے تب ہی اسے کوئی کامیابی ملے گی۔ اس حوالے سے وہ متحرک ہو بھی چکی ہے اصلاحات بھی کرنے جا رہی ہے وقفے وقفے سے وہ کوئی نہ کوئی نئی اصلاحاتی کوشش کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ بالخصوص محترمہ مریم نواز صاحبہ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے صوبے میں کافی تبدیلیاں لا رہی ہیں وہ ہر محکمے میں عوام دوست اصلاحات کر رہی ہیں۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں گویا ایک انقلاب برپا کرنے جا رہی ہیں انہوں نے متعلقہ سر براہوں کو نئے سرے سے قواعد و ضوابط بنائے کی ہدایات دے دی ہیں تاکہ عوام کے لئے آسانیاں پیدا کی جا سکیں اس پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو شاباش ملنی چاہیے۔ انہیں یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ عوام کے دل جیتنے کیلئے تقریروں کی نہیں خدمت کی ضرورت ہے لہٰذا وہ جذبہ انسانی کے تحت اپنے رفقاء کے ہمراہ اپنے وعدوں کی تکمیل کرنے کے لئے پر عزم ہیں اگرچہ ان کی راہ میں مشکلات ہیں مگر انہیں ان کی پروا نہیں کرنی چاہیں۔ یہ جو جلسوں کی سیاست ہو رہی ہے اس سے بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جب لوگوں کو سہولتیں اور آسانیاں میسر ہوں گی تو وہ ضرور سوچیں گے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کی جانب سے بھی مشکل پیش آرہی ہے کہ اس کی شرائط پر عمل درآمد کیا جائے مگر حکومت اس کے باوجود لوگوں کا احساس کر رہی ہے جو اچھی بات ہے۔ ہماری رائے میں اگر حکومت پی ٹی آئی کو جلسہ یا احتجاج وغیرہ کرنے دے تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ عوام کی خدمت کرنے کا تہیہ کر چکی ہے اور اس راستے پر چل بھی پڑی ہے مگر اس کے کچھ مشیر اسے احتجاجیوں کو ’’ڈانگ سوٹے‘‘ کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ اس سے اس کی سیاست پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں مگر ایسا ہونا ناگزیر بھی ہے تو وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں محو رہے اور یہ اس کی بہترین حکمت عملی ہو گی اور بلا تخصیص وتفریق سب کو راحت وآرام پہنچانے کی کوشش کرے۔
بہر کیف ہمیں یہ بھی دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کہیں عالمی امن کو نقصان نہ پہنچنے پائے کیونکہ ہم پہلے ہی بقول شاعر
خدا کرے کہ اب آئے نہ آندھیوں کا موسم
ہم ہیں ریگ ساحل آبلہ پا کھڑے ہوئے

تبصرے بند ہیں.