گزشتہ سال 7 اکتوبر کے حماس خود کش حملوں کو ایک سال ہونے والا ہے اس واقعہ کے بعد ایران اور اس کے فلسطینی اور لبنانی اتحادیوں کی اعلیٰ شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہوائی حادثے میں ہلاکت بھی اس کھاتے میں ہے مگر ایرانی حکومت نے اس پر چپ سادھ رکھی ہے۔ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے میں پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل علی رضا زاہدی ساتھیوں سمیت ہلاک ہوئے اور سفارتخانے کی عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ اس کے بعد حزب اللہ کے بانی خواد شکر اور حماس کے سربراہ اسمیل ہانیہ کو دو مختلف مقامات پر ایک ہی دن نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کے سب سے بڑے مخالف حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی اپنے زیر زمین بنکر میں ہلاکت اس سیریز کا سب سے بڑا واقعہ ہے جس کے بعد اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس کے سارے دشمنوں کی کمر توڑ دی گئی ہے مذکورہ بالا ہائی پروفائل واقعات کے بعد اسرائیل حملوں میں جاں بحق ہونے والوں میں اب ان سے بڑا کوئی نہیں بچا جسے اسرائیل نشانہ بنائے۔ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد ایرانی روحانی رہنما علی خامنائی زیر زمین چلے گئے ہیں کیونکہ وہ بھی زد میں ہیں۔
لبنان میں پیجر پھٹنے کے واقعہ کے بعد حزب اللہ کے باہمی رابطوں کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ اسرائیل نے چن چن کر تمام اعلیٰ شخصیات جن کے ہاتھ میں جنگی قیادت تھی سب کو ختم کر دیا ہے اس وقت صورتحال پر ہے کہ غزہ کو ملیا میٹ کرنے کے بعد اسرائیلی ٹارگٹ بیروت ہے حسن نصر اللہ کے بعد حزب اللہ ان کے جانشین کا اعلان اس لیے نہیں کر رہے کہ انہیں خطرہ ہے کہ جسے جانشین بنایا جائے گا اسے اسرائیل ہوائی حملے میں مار ڈالے گا۔ فلسطین اور لبنان کی پوری ایئر سپیس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اب معاملہ یہ در پیش ہے کہ حزب اللہ کے فائٹرز کے پاس ہزاروں کی تعداد میں میزائل کے جو ذخائر ہیں وہ یا تو اسرائیل کی بمباری میں تباہ ہو جائیں گے یا اسرائیل گراؤنڈ فورسزآپریشن کے ذریعے ان پر قبضہ کرے گا۔ جو حزب اللہ فائٹر باقی بچے ہیں ان کا مواصلاتی نظام اور باہمی رابطے ختم ہو چکے ہیں اور انہیں کہیں سے کمانڈ اینڈ کنٹرول ممکن نہیں رہا۔ ان حالات میں یہ فائٹر یا تو ان میزائلوں کو نذر آتش کریں گے تا کہ یہ اسرئیلی قبضے میں نہ چلے جائیں یا پھر وہ یہ سارے میزائل مزید وقت ضائع کیے بغیر اسرائیل پر پھینک دیں اور اپنی قیادت کی ہلاکت کا بدلہ لے لیں۔
حزب اللہ کے لیے سبق ہے کہ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے آخری لمحات میں ڈھاکہ ایئر پورٹ انڈین بمباری سے تباہ ہو چکا تھا اور پاکستانی جہازوں کا اڑنا ناممکن ہو گیا تو وہاں مقامی فوجی کمانڈز کو حکم دیا گیا کہ دشمن کے قبضہ میں آنے سے پہلے پہلے یہ جہاز اور تمام گولہ بارود کو نذر آتش کر دیں لیکن بدقسمتی سے یہ نہ ہو سکا اور ہمارے جنگی جہاز اور اسلحہ پر بھارت کا قبضہ ہو گیا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں مذکورہ کمانڈر کے کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی تھی جس پر عمل درآمد نہ ہوا۔
اس جنگ میں حماس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ انہوں نے جو 200 کے قریب اسرائیلی یرغمال بنائے تھے ان کی رہائی کے لیے اسرائیل منہ مانگی قیمت دے گا لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ ماضی میں اسرائیل نے اپنے ایک ایک قیدی کے عوض سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کیے تھے لیکن اس دفعہ نیتن یاہو نے یرغمالیوں کو پس پشت ڈال کر موقع غنیمت جانتے ہوئے غزہ اور لبنان پر زمین تنگ کر دی۔ حما س اور حزب اللہ کی افرادی قوت اور جنگی ڈھانچے کو جتنا نقصان پہنچ چکا ہے یہ دونوں تنظیمیں اگلے 25 سال تک نہیں اٹھ سکیں گی اور سلسلہ ابھی جاری ہے۔
اسرائیل کی انٹیلی جنس بہت زیادہ متحرک ہے یہ سارے ہائی ویلیو ٹارگٹ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر نشانہ بنے ہیں۔ حسن نصر اللہ جس زیر زمین 14 منزلہ بنکر میں تھے اس کا کسی کو آج تک پتہ ہی نہیں تھا۔ اسرائیل نے مسلمانوں کی صفوں میں غدار خرید کر اپنے مقاصد حاصل کیے ہیں جس سے ان کی کامیاب مخبری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حزب اللہ اور حماس کے بعد اسرائیل نے اب یمن میں حوثی عسکریت پسندوں پر ہوائی حملے شروع کر دیے ہیں جو اسرائیل کا تیسرا ٹارگٹ ہے۔ اس سارے معاملے میں ایران کے لیے بہت بڑی مشکل آکھڑی ہوئی ہے۔ اسرائیل اپنی تمام تر اشتعال انگزیزی کے ذریعے کوشش کر رہا ہے کہ ایران اسرائیل پر حملہ کرے تا کہ وہ جواب میں امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں اس لیے ایران ابھی تک بیک فٹ پر ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ ایران ان پر کوئی ایک میزائل حملہ کر کے دکھائے مگر ایران محتاط ہے اسے پتہ ہے کہ خلیج میں امریکی بحری بیڑے اور ہزاروں فوجی موجود ہیں ایرانی معیشت کسی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایران کی پالیسی یہ ہے کہ خود کو بچا کر کسی آنے والی جنگ کے لیے تیاری کی جائے لیکن ایرانی عوام چاہتے ہیں کہ اسرائیل کو جواب دیا جائے کیونکہ اسرائیل بلا روک ٹوک غزہ اور لبنان کے بعد شام اور عراق کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس جنگ سے ان لوگوں کے ذہن بھی صاف ہو گئے ہیں جو سمجھا کرتے تھے کہ امریکہ اب سپر پاور نہیں رہا اور اگر حالات میں کشیدگی آئے گی تو روس جنگ میں کود پڑے گا ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یورپ اور امریکہ نے مل کر یوکرائن کی مدد سے روس کو ماسکو تک محدود کر دیا ہے۔ امریکی ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ حسن نصر اللہ کے قتل کے احکامات اسرائیل وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی سر زمین پر بیٹھ کر جاری کیے تھے اس دن میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک رہے تھے وہاں بھی انہوں نے یو این جنرل اسمبلی میں پوری دنیا کے سامنے کہا تھا کہ وہ حملے جاری رکھیں گے۔
مڈل ایسٹ کی موجودہ صورتحال اور دیگر مسلمان ممالک کی غیر جانبداری نے ثابت کر دیاہے حکومت اور ریاست میں مذہب سے زیادہ مفادات کو اہمیت حاصل ہے کوئی بھی مسلمان ملک فلسطین اور لبنان کی حمایت میں اسرائیل سے لڑنے پر آمادہ نہیں۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.