مکہ پہنچتے ہی جب پہلی اذان سنی تو مجھے حضرت بلالؓ ابن رباح کا اذان سے متعلق کہا ہوا تاریخ ساز واقعہ یاد آ گیا جو مجھے چشم تصور اور روحانی طور پر مجھے اس محفل میں لے گیا جہاں یہ تاریخی ساعتیں قیامت تک کے لیے گواہ بن رہی تھیں۔
بقول حضرت بلالؓ بن رباح مدینے میں ہماری مسجد سے بہتر بنی ہوئی کئی عمارتیں تھیں کہ ہم لوگ کون سے فن تعمیر کے ماہر تھے۔ ہمیں تو یہ عمارت ساری دنیا کی عمارتوں سے زیادہ اچھی لگتی تھی۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ یہی مسجد ایک دن اسلامی تمدن اور ریاست کا سرچشمہ بنے گی۔ مسجد جس دن مکمل ہوئی ہم لوگ تھک ہار کے مسجد کے فرش پر بیٹھ کر آرام کرنے لگے۔ ہلکی ہلکی دھوپ چھپر پر پڑے ہوئے کھجوروں کے پتوں کے درمیان سے چھن چھن کر نیچے آ رہی تھی۔ سبز پتوں کا سایہ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا۔ ہر شخص مسجد کی تعمیر کے مختلف مراحل پر اور ساخت کے مختلف پہلوؤں پر تبصرہ کر رہا تھا۔ سب بہت خوش تھے۔ اتنے میں جہاں تک مجھے یاد ہے علیؓ نے کہا: ’’میرے خیال میں مسجد میں ایک کمی ہے‘‘۔ سب اُن کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انہوں نے اوپر چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’وہاں کچھ ہونا چاہیے۔ کچھ ایسا انتظام جس سے لوگوں کو نماز کے لیے بلایا جا سکے‘‘۔ اس پر عمار ؓبولے:’’میرے خیال میں ہم وہاں ایک جھنڈا لگا دیں۔ نماز کے وقت لگا دیا، پھر اُتار لیا‘‘۔ اب سب اٹھ کر بیٹھ گئے اور گفتگو میں شامل ہو گئے۔ رسول کریمؐ یہ سب گفتگو نہایت دلچسپی سے سنتے رہے مگر خود کچھ نہیں بولے۔ ان کا انداز ایسا تھا گویا وہ گفتگو میں شریک ہیں بھی اور نہیں بھی۔ ’’ہم چھت پر گھنٹیاں کیوں نہ لگا دیں‘‘۔ ’’گھنٹیاں تو کلیساؤں میں لگاتے ہیں‘‘۔ ’’نقارہ لگانا چاہیے‘‘۔ ’’نقارہ جنگ اور خون کی یاد دلاتا ہے۔ ہمارا دین امن اور سلامتی کا دین ہے‘‘۔ ’’قرنا مناسب رہے گا، اُس کی آواز بہت دور تک جاتی ہے‘‘۔ ’’قرنے کی آواز سے مینڈھا ذہن میں آ جاتا ہے جس کے سینگ سے وہ بنتا ہے‘‘۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ جھنڈے، گھنٹیاں، نقارہ، قرنا کوئی بھی ان تجاویز سے پوری طرح مطمئن نہیں تھا۔ گھنٹیاں دیر تک کانوں میں جھنجھناتی رہتی ہیں، نقارہ دوران خون کو تیز کر دیتا ہے، جھنڈا ہوا کے رخ پر اڑتا ہے اور مخالف سمت سے نظر ہی نہیں آتا۔ پھر جھنڈا سوتے ہوؤں کو کیسے جگائے گا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن زیدؓ آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے کھسکتے ہوئے آگے آ رہے ہیں۔ عبداللہؓ انصار نے نہایت دھیمی آواز سے کہا: ’’یا رسول اللہؐ میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ سبز کپڑے پہنے ہوئے ایک شخص ہاتھ میں ناقوس لیے جا رہا تھا۔ میں نے اُس سے کہا اے اللہ کے بندے کیا تم مجھے یہ ناقوس بیچ دو گے۔اُس سبز پوش نے پوچھا کیا کرو گے اس کا…؟ میں نے جواب دیا اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤں گا۔ اس پر اس نے کہا نماز کے لیے بلانے کا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ بتاتا ہوں۔ تم یہ کہاکرو:
اللہ اکبر اللہ اکبر… اللہ اکبر اللہ اکبر … اشہد ان لا الہ الا اللہ … اشہد ان لا الہ الا اللہ … اشہد ان محمد رسول اللہ … اشہد ان محمد رسول اللہ … حی علی الصلوۃ… حی علی الصلوۃ… حی علی الفلاح… حی علی الفلاح… اللہ اکبر اللہ اکبر… لا الہ الا اللہ
میں نے رسول اللہؐ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس سے ایک دو روز قبل حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اسی قسم کا خواب حضورؐ کو سنایا تھا ۔یہ طے ہو گیا تو اب سوال یہ تھا کہ یہ الفاظ کس کی آواز انداز میں ادا کیے جائیں گے۔’’بلال تمہاری آواز میں‘‘۔ حضورؐ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا۔ مجھ نا چیز سیاہ فام حبشی کے ذمہ یہ خدمت سپرد کی گئی تھی کہ میں مسلمانوں کو نماز کی سعادت کے لیے بلایا کروں۔ یہ خود میرے لیے کتنی بڑی سعادت تھی۔ انہی باتوں میں نماز کا وقت ہو گیا تو اللہ کے رسولؐ نے مجھے حکم دیا: ’’جاؤ اُس چھت پر چڑھ جاؤ اور وہاں سے لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤ‘‘۔ جس چھت کی طرف انہوں نے اشارہ فرمایا تھا وہ مسجد سے ملحق بنو نجار کی ایک خاتون کے کچے گھر کی کچی چھت تھی۔ میں حسب حکم جوں توں کر کے اُس چھت پر چڑھ گیا،سب میری طرف دیکھ رہے تھے اور منتظر تھے۔ مگر وہ الفاظ، پہلے کیا تھا کہ اللہ کی توصیف، پیغمبر اسلامؓ کی شہادت، نماز کی دعوت سب کچھ گڈ مڈ ہو گیا تھا۔ سب مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ رسالت مآبؐ تیسرے ستون کے پاس کھڑے تھے اُن کی نظریں بھی مجھ پر تھیں۔ پھر نبی کریمؐ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور مجھے اس انداز سے اشارہ کیا گویا مجھے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر بلند کرنے کا کہہ رہے ہوں۔ اسی لمحے مجھے اپنی آواز سنائی دی۔ پہلے بہت دور سے اور پھر آہستہ آہستہ قریب آتی ہوئی۔ یہ ہماری پہلی اذان تھی۔ میں اذان دے کر نیچے اُترا تو حضورؐ نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ کہاں اللہ کا رسولؐ اور کہاں ایک غلام زادہ۔ بلالؓ اپنی خوش قسمتی پر جتنا ناز کرتے کم تھا۔ چاروں طرف لوگ ادھر اُدھر آ جا رہے تھے۔بہت دیر تک حضورؐ نے کچھ نہیں فرمایا۔ میں بھی ایک عجیب سرور سے سرشار تھا۔ اتنے میں میں اُن کی آواز پر چونکا: ’’بلال، تم نے میری مسجد مکمل کر دی‘‘…ان الفاظ پر میں نے وہیں شکرانے کے دو نفل ادا کیے۔ بلال حبشیؓ نے اپنی زندگی کا مقصد پا لیا تھا۔ لوگ اگر میرے بارے میں سب کچھ فراموش کر دیں، اور ویسے بھی میرے پاس یاد رکھے جانے کی کیا بات ہے مگر پھر بھی میں اسلام کے پہلے مؤذن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کیا جاؤں گا۔ سبحان اللہ
نوٹ: (مختلف مکاتب فکر کی متفقہ رائے ہے کہ اذان دینے کا اولین مشورہ بار گاہ رسالت مآبe میں فاتح عرب و عجم امیر المومنین سیّدنا عمر فاروقؓ نے دیا تھا جسے شرف قبولیت بخشا گیا۔ )
دراصل دنیا میں اِس سے پہلے اور اِس کے بعد بڑا انقلاب نہیں آیا جو آقا کریمؐ کی قیادت میں دنیا کی تاریخ بنا۔ حضرت بلالؓ بن رباح سے اذان دلانا ہی بذات خود ایک انقلاب تھا۔ برابری، مساوات، سب انسان برابر اور فوقیت تقویٰ کے سبب کا اعلان تھا۔ حضرت بلالؓ بن رباح جن کے تن پر کپڑے بھی پورے نہ تھے کی آواز، اذان پر دولت مند، قوی، جری، بڑے حسب نسب والے، بے نام، مردِ میدان، غریب امیر سبھی آ رہے ہیں جب تک دنیا رہے گی اذان کی آواز پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں ہر وقت آتی رہے گی۔ جب تک دنیا رہے گی بلالؓ کی اذان رہے گی۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.