ہم نے تاریخ سے بھی سبق نہ سیکھا

92

تاریخ کے اوراق پلٹتے رہیں تو انسان کے اندر مثبت سوچ، بہترین فکر اور تبدیلی کا عمل اپنی منازل طے کرتا ہے۔ انسان اپنی اصل اور اساس سے واقف رہتا ہے۔ انسان اپنی ذمہ داریوں سے آشنا رہتا ہے۔ انسان کے اندر خوف خدا اور اس کی مخلوق کا احساس گاہے بگاہے جنم لیتا رہتا ہے۔ ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ تاریخ سے منہ موڑنا ہے۔ قرآن و سنت محمدﷺ اور سیرت صحابہؓ سے نابلد ہو گئے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کی سات پشتوں میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا تھا۔ آپؓ بھیڑ بکریاں اور اونٹ چراتے چراتے بڑے ہوئے تھے اور آپؓ نے تلوار بازی اور تیر اندازی بھی کسی سے نہیں سیکھی تھی۔ سکندراعظم نے آرگنائزڈ آرمی کے ساتھ دس برس میں سترہ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا تھا۔ جبکہ حضرت عمر فاروقؓ نے دس برس میں آرگنائزڈ آرمی کے بغیر بائیس لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا اور اس میں روم اور ایران کی دو سپرپاور بھی شامل تھیں۔ آج کے سیٹلائٹ، میزائل اور آبدوزوں کے دور میں بھی دنیا کے کسی حکمران کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں جو حضرت عمر فاروقؓ نے نہ صرف گھوڑوں کی پیٹھ پر فتح کرائی تھی، بلکہ اِس کا انتظام و انصرام بھی چلایا تھا۔ الیگزینڈر نے فتوحات کے دوران اپنے بے شمار جرنیل قتل کرائے، بے شمار جرنیلوں اور جوانوں نے اِس کا ساتھ چھوڑا۔ اس کے خلاف بغاوتیں بھی ہوئیں اور ہندوستان میں اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار بھی کر دیا لیکن حضرت عمر فاروقؓ کے کسی ساتھی کو ان کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہ ہوئی۔ وہ ایسے کمانڈر تھے کہ آپؓ نے عین میدان جنگ میں عالم اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ کو معزول کر دیا اور کسی کو یہ حکم ٹالنے کی جرأت نہ ہوئی۔ آپؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو کوفے کی گورنری سے ہٹا دیا۔ آپؓ نے حضرت حارث بن کعبؓ سے گورنری واپس لے لی۔ آپؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کا مال ضبط کر لیا اور آپؓ نے حمص کے گورنر کو واپس بلا کر اونٹ چرانے پر لگا دیا، لیکن کسی کو حکم عدولی کی جرأت نہ ہوئی۔ الیگزینڈر نے 17 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا، لیکن دنیا کو کوئی نظام نہ دے سکا۔ جبکہ حضرت عمر فاروقؓ نے دنیا کو ایسے سسٹم دیئے، جو آج تک پوری دنیا میں رائج ہیں۔ آپؓ نے سن ہجری کا اجرا کیا۔ جیل کا تصور دیا اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ آپؓ نے مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کرایا۔ امن و امان کیلئے پولیس کا محکمہ بنایا۔ مکمل عدالتی نظام کی بنیاد رکھی۔ آب پاشی کا نظام قائم کرایا۔ فوجی چھائونیاں بنوائیں اور فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیوائوں اور بے آسرائوں کے وظائف مقرر کیے۔ دنیا میں پہلی بار حکمرانوں، سرکاری عہدیداروں اور والیوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا۔ بے انصافی کرنیوالے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ پہلی بار حکمران کلاس کا احتساب شروع کیا۔
آپؓ راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے اور فرمایا کرتے تھے جو حکمران عدل کرتے ہیں، وہ راتوں کو بے خوف ہو کر سوتے ہیں۔ آپؓ کا فرمان تھا قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے۔ آپؓ کی مہر پر لکھا تھا ’عمر! نصیحت کیلئے موت ہی کافی ہے‘۔ آپؓ کے دستر خوان پر کبھی دو سالن نہیں رکھے گئے۔ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سو جاتے تھے۔
آپؓ سفر کے دوران جہاں نیند آ جاتی تھی، کسی درخت پر چادر تان کر سایہ کرتے اور سو جاتے تھے۔ آپؓ کے کرتے پر چودہ پیوند تھے اور ان پیوندوں میں ایک سرخ چمڑے کا پیوند بھی تھا۔ موٹا کھردرا کپڑا پہنتے تھے۔ نرم اور باریک کپڑے سے نفرت تھی۔ کسی کو جب سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تو اس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور اگر سرکاری عہدے کے دوران اِس کے اثاثوں میں اضافہ ہو جاتا تو اس کا احتساب کرتے تھے۔ جب کسی کو گورنر بناتے تو اِسے نصیحت فرماتے تھے کہ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازے بند نہ کرنا۔ آپؓ فرماتے تھے، کہ ظالم کو معاف کر دینا مظلوموں پر ظلم ہے۔ آپؓ کا یہ فقرہ آج انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے انہیں کب سے غلام بنا لیا۔ فرمایا میں اکثر سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں۔ عمرؓ بدل کیسے گیا۔ آپؓ اسلامی دنیا کے پہلے خلیفہ تھے، جنہیں امیر المومنینؓ کا خطاب دیا گیا۔ دنیا کے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہے، اسلام کی سب سے بڑی خصوصیت عدل ہے اور حضرت عمر فاروقؓ وہ شخصیت ہیں جو اس خصوصیت پر پورا اترتے ہیں۔ آپؓ کے عدل کی وجہ سے عدل دنیا میں عدلِ فاروقی ہو گیا۔ آپؓ شہادت کے وقت مقروض تھے، چنانچہ آپؓ کی وصیت کے مطابق آپؓ کا واحد مکان بیچ کر آپؓ کا قرض ادا کر دیا گیا اور آپؓ دنیا کے واحد حکمران تھے، جو فرمایا کرتے تھے میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اِس کی سزا عمر (حضرت عمر فاروقؓ) کو بھگتنا ہو گی۔ میں دنیا بھر کے مورخین کو دعوت دیتا ہوں، وہ الیگزینڈر کو حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے رکھ کر دیکھیں، انہیں الیگزینڈر، حضرت عمر فاروقؓ کے حضور پہاڑ کے سامنے کنکر دکھائی دے گا، کیونکہ الیگزینڈر کی بنائی سلطنت اس کی وفات کے پانچ سال بعد ختم ہو گئی، جبکہ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور میں جس جس خطے میں اسلام کا جھنڈا بھجوایا، وہاں سے آج بھی اللہ اکبر کی صدائیں آتی ہیں، وہاں آج بھی لوگ اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ دنیا میں الیگزینڈر کا نام صرف کتابوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے جبکہ حضرت عمر فاروقؓ کے بنائے نظام دنیا کے 245 ممالک میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتا ہے، پولیس کا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، کوئی فوجی جوان چھ ماہ بعد چھٹی پر جاتا ہے، یا پھر حکومت کسی بچے، معذور یا بیوہ یا بے آسرا شخص کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ معاشرہ، وہ سوسائٹی بے اختیار حضرت عمر فاروقؓ کو عظیم تسلیم کرتی ہے، وہ انہیں تاریخ کا سب سے بڑا سکندر مان لیتی ہے، ماسوائے اِن مسلمانوں کے جو آج احساس کمتری کے شدید احساس میں کلمہ تک پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھتے ہیں۔ لاہور کے مسلمانوں نے ایک بار انگریز سرکار کو دھمکی دی تھی کہ اگر ہم گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آ جائے گا، اس پر جواہر لال نہرو نے مسکرا کر کہا تھا افسوس آج چنگیز خان کی دھمکی دینے والے مسلمان یہ بھول گئے ہیں، ان کی تاریخ میںایک (حضرت) عمر فاروق بھی تھا۔ جن کے بارے میں مستشرقین اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام میں اگر ایک عمرؓ اور ہوتا تو آج دنیا میں صرف اسلام ہی دین ہوتا۔ ہم آج بھی یہ بھولے ہوئے ہیں کہ ایک حضرت عمر فاروقؓ بھی تھے، جن کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ حضرت عمر بن خطاب ہوتے۔

تبصرے بند ہیں.