کسی نہ کسی وجہ سے لاہور کے چلڈرن ہسپتال جانا ہوتا، تو پاکستان کے دور دراز علاقوں سے آئے والدین کی بپتا سننے کو بھی ملتی، جو اپنے بچوں کے بروقت علاج کیلئے ڈاکٹروں کی منتیں کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ ڈاکٹر حضرات سہولیات کی کمی، مریضوں کے رش اور طویل ویٹنگ لسٹ کے سبب علاج معالجے کی لمبی لمبی تواریخ دیتے تو میں اکثر کڑھتا اور سوچتا کہ ایک بچہ اگر دل کا مریض ہے، اسے ٹیسٹ یا آپریشن کی ضرورت ہے، تو یہ ڈاکٹر لوگ کیوں والدین کی مجبوری نہیں سمجھتے اور جلد علاج کی تاریخ نہیں دیتے؟۔ اگر اسی انتظار میں خدانخواستہ بچے کا مسئلہ بڑھ گیا یا اس کا انتقال ہو گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟۔ مجھے ایسے معالج کی ’’سنگدلی‘‘ پر غصہ بھی آتا کہ یہ کیوں ہاتھ جوڑتے والدین کا احساس نہیں کرتے۔ میں نے اس پر چند ڈاکٹروں سے استفسار بھی کیا تو انہوں نے سہولیات کے فقدان، دل کے ڈاکٹروں کی کم تعداد اور مریضوں کی دن بہ دن بڑھتی تعداد کی ’’رام کہانی‘‘ ہی سنائی۔ سرکاری طبی مراکز سے مایوس اکثر لوگ اپنے بچوں کے جلد علاج کی خاطر پرائیویٹ ماہرین قلب سے بھی رجوع کرتے ہیں لیکن ان کے اخراجات کی سکت نہ رکھنے کے باعث علاج کروانے سے قاصر رہتے ہیں اور سرکاری ہسپتالوں کی ویٹنگ لسٹ میں شامل ہو کر اس لمبی تاریخ کا انتظار کرتے ہیں جو مطلوبہ دن آنے تک ان کی سانسیں چلتی رہنے یا بیماری کے نہ بڑھنے کی گواہی بھی نہیں دے سکتی۔ یہ کہانی صرف ایک چلڈرن ہسپتال کی نہیں، ہمارے تقریباً ہر سرکاری ہسپتال میں یہی صورتحال ہے۔ لوگ مجبور ہیں مگر ان کی شنوائی والا کوئی نہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 70 ہزار سے زائد بچے دل کی مختلف بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جبکہ 5 سال تک کی عمر کے 1000 میں سے 86 بچے دل کی بیماری اور بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے وفات پاتے ہیں۔ ان میں سے کم از کم 20 ہزار سے زائد بچوں کو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کی مذکورہ تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے ہاں علاج کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ امراض قلب کے ڈاکٹروں کی کمی بھی ایک تشویشناک امر ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام متعارف کروایا تو میرے دل کو اس تناظر میں طمانیت ہوئی کہ اب معصوم بچوں کو اپنے علاج کیلئے تکلیف دہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ اس پروگرام کے تحت ہر سال دل کے 5 ہزار کے قریب بچوں کا علاج ممکن بنایا جائے گا جبکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو جلد علاج کی سہولت سے مستفید کرنے کیلئے بتدریج اس دائرہ کار میں اضافہ بھی کیا جاتا رہے گا۔ یہی نہیں بلکہ امراض قلب کے ماہرین کی تعداد اور ہسپتالوں کی استعداد کار میں اضافہ کیلئے بھی خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
ہسپتالوں کو سہولیات سے آراستہ کرنا، قطار و انتظار کے نظام سے مریضوں کو نجات دلانا اور علاج کی بروقت سہولیات مہیا کرنا وزیر اعلیٰ مریم نواز کا ویڑن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں بچوں کو دل کے علاج کیلئے بروقت سہولت میسر نہ آنے کی صورت میں پرائیویٹ ہسپتالوں سے سرکاری خرچ پر ان کا علاج یقینی بنایا جائے گا۔ دوسری جانب مریم نواز کی جانب سے دل کے ماہر سرجنز، الائیڈ سٹاف اور ہسپتالوں کی استعداد میں اضافہ کی نوید بھی سنائی گئی ہے۔ وہ یہ فقدان کیسے دور کریں گے، یہ بہت بڑا چیلنج ہے جس پر یقیناً مؤثر منصوبہ بندی کر رہی ہوں گی۔
دل کی بیماری میں مبتلا فی بچہ علاج پر تقریباً 6 لاکھ روپے کم از کم خرچ آئے گا۔ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر ڈیپارٹمنٹ اس ضمن میں بنائے گئے ڈیش بورڈ اور ویٹنگ لسٹ کی مانیٹرنگ کرے گا اور تیز تر علاج کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے بھرپور کردار ادا کرے گا۔ اس حوالے سے والدین کی شکایات کے حصول کا بھی طریقہ کار طے کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کی کامیابی کیلئے ہر حوالے سے باقاعدہ نظام وضع کیا جائے گا۔
یہ امر شاہد ہے کہ پنجاب میں علاج معالجے کی سہولیات نسبتاً بہتر اور زیادہ ہونے کی بدولت دیگر صوبوں سے بھی افراد یہاں کے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں مریم نواز نے خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے مریض بچوں کو بھی ’’چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام‘‘ سے استفادہ کا برابر حق فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یوں اس اقدام سے دل کے مریض بچوں کو ایک بڑی سہولت اور آسانی فراہم کر دی گئی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اس انقلابی پروگرام کے بعد اب والدین کو جلد علاج کی باری آنے کیلئے ڈاکٹروں کے آگے نہ تو ہاتھ جوڑنے پڑیں گے، نہ ہی جھولی پھیلانی پڑے گی اور نہ ہی اس حوالے سے سفارش ڈھونڈنی پڑے گی۔ ان کے بچے بروقت علاج کے بعد صحت یاب ہو کر اپنے والدین کے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔ یقینا یہ پروگرام مریم نواز کیلئے صدقہ جاریہ بھی ثابت ہوگا۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.