شہناز شیخ…40سال بعد…! (حصہ اوّل)

74

ایک وہ میرا بھی زمانہ تھا جب میں فلم تو فلمی دنیا میرے ساتھ تھی۔ سٹوڈیوز میں بیتے دن بھی میرے تھے اور گزری راتیں بھی میری تھیں۔ 50سال یعنی ایک طویل عرصہ کرکٹ کے ساتھ ساتھ شوبز کی دنیا کی صحافت میں بھی گزرا۔ آج اگر اپنی یادوں کی یادداشتوں کا سلسلہ شروع کروں تو ایک نہیں کئی کتابیں لکھ ڈالوں۔ یہ بات آپ ضرور سوچیں گے کہ ماضی کی یہ باتیں آج کیوں یاد آئیں۔ گزشتہ دنوں میں ماضی کی پی ٹی وی اداکارہ شہناز شیخ کے بارے میں ایک خبر پڑھ رہا تھا۔ اس خبر میں اس نے اپنے ماضی کی صرف چند یادوں کا ذکر کیا کہ جب وہ ’’ان کہی‘‘ سیریل کرتے وقت سکرپٹ سائن کر رہی تھی تو پتہ چلا کہ مجھے ایک قسط کے آٹھ سو روپے ملیں گے… اس وقت یعنی 1980ء میں ہمارے پاکستانی روپے کی اسی طرح قدر ہوتی تھی جیسے آج کوئی اپنی محبوبہ کی قدر کرتا ہے اس لئے کہ وہ زمانہ سستا تھا، حالات بہت اچھے اور مہنگائی دور دور تک نہیں تھی۔ ایک روپے میں وہ کچھ آ جاتا تھا جو آج 500روپے میں نہیں آتا۔ کل کی نسبت آج ایک آرٹسٹ لاکھوں روپے صرف ایک سیریل کے لیتا ہے گو اس زمانے میں فلم نگری میں لاکھوں ملتے تھے۔ مگر پی ٹی وی ایک کمرشل ادارہ نہیں تھا وہ بہت کنجوس ہوا کرتا تھا۔ ماضی کی حسینہ شہناز شیخ کہ واقعی وہ بہت ہی خوبصورت تھی اور اس دور میں جب میں روزنامہ امروز کے سنڈے میگزین میں بطور فیچر رائٹر کام کرتا تھا۔ لاہور پی ٹی وی اسٹیشن پر اس خوبرو اداکارہ کے دو چار بڑے انٹرویو کئے تھے۔ ان دنوں اخبارات کے سنڈے میگزین چھوٹے سائز کے نہیں ہوا کرتے تھے البتہ روزنامہ امروز کی نئی پریس مشین جو کسی اخبار میں پہلی بار پاکستان لائی گئی بارہ یونٹ کی تھی اس پر پہلی بار چھوٹے صفحات کا سنڈے میگزین شائع ہوتا تھا۔ بات کر رہا تھا شہناز شیخ کی۔ میں نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے واقفان حال سے نمبر لیا۔ ایک طویل عرصہ کے بعد جب میں نے فون پر اس کو 1980ء کا دور یاد دلایا تو وہ بھول چکی تھی۔ اس کا یہ کہنا کہ میں بہت سا ماضی بھول چکی ہوں، اس دوران میرے بہت سے ساتھی بچھڑ گئے اور بہت گم تو نئے بہت ہو گئے۔ آپ 1980ء کی یاد دلا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ بڑے عرصہ کے بعد پھر سے بطور اداکارہ نہیں بطور اینکر میدان فن میں اتری ہیں۔ آج نہ پی ٹی وی نہ وہ ان کہی کا زمانہ نہ وہ لوگ نئی نسل نہ وہ ماحول تو وہ بولی میں بھی تو اسی زمانے کا حصہ ہوں، جس کا ذکر آپ کر رہے ہیں،سب کچھ دیکھ رہی ہوں، سب کچھ جانتی ہوں، سب کچھ پرانا اور نیا ہے البتہ اب اداکاری کی بجائے ایک پروگرام ہوسٹ کرنے کا آنے والا ہے اور پھر چند باتوں کے بعد لائن کٹ گئی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ شہناز شیخ اپنے زمانے کی نہ صرف خوبصورت بلکہ ذہین ترین اداکارہ تھیں۔ ’’ان کہی‘‘ میں اس کا کردار ثناء کے نام سے بڑا مشہور ہوا۔ ایک مڈل گھرانے کی بہادر لڑکی کے اس کردار نے آج سے 40سال پہلے لوگوں کو راتوں کو سونے نہیں دیا۔ ’’ان کہی‘‘ بلا شک و شبہ پی ٹی وی کا ایک بہت بڑا ڈرامہ تھا اور آج 40سال گزرنے کے بعد بھی بھی لوگوں کے ذہن میں جس طرح ’’ان کہی‘‘ نقش ہے اسی طرح وہ حسینہ معین کی ثناء یعنی شہناز شیخ کو بھی نہیں بھول پائے۔ گو اس دور میں ایک نہیں کئی شہناز شیخ تھیں۔ کئی سائرہ کاظمی سے لے کر ثمینہ پیرزادہ سے روحی بانو سے لے کر خالدہ ریاست سے لے کر عظمیٰ گیلانی تک ایک سے بڑھ کر ایک بڑے خوبصورت چہرے تھے۔ یہ اس دور کی نامور ہیروئنیں تھیں۔ فلمی سکرین پر آسیہ، انجمن، نادرہ، افشاں تو چھوٹی سکرین کی یہ ملکائیں تھیں۔ اس وقت لوگوں کے دلوں پر بھی حکمرانی کرتیں تھیں۔
اب کم از کم چار دہائیوں کے گزرنے کے بعد شہناز شیخ ایک دفعہ پھر سکرین پر بحیثیت ٹاک شو ہوسٹ کرتی نظر آئے گی۔ اس کا کہنا ہے کہ بڑی شخصیات کے انٹرویوز تو سب چینل ہی کر رہے ہیں مگر میری یہ کوشش ہوگی کہ میں جن مقبول شخصیات کو اپنے شوز پر بلاؤں اور ان سے زندگی بھر یہاں تک پہنچنے کے سفر سے متعلق گفتگو کروں۔ خبر کے مطابق گیسٹ لسٹ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی کہانیاں پی ٹی وی کے آرکائیوز کا حصہ بن جائیں گی۔ شو کی چند اقساط جو ریکارڈ ہوئی ہیں۔ میں نے گزشتہ دنوں ان کی جھلک انسٹاگرام پر دیکھی۔ ان میں انور مقصود، ثانیہ سعید اور ماورہ حسین کو بطور گیسٹ دیکھا گیا ہے۔ شاید اس زمانے کے لوگوں کو ذرا ذرا یاد ہو جب شہناز شیخ نے پہلی دفعہ انٹرویوز کرنا شروع کئے تھے جب پی ٹی وی ورلڈ لانچ ہوا تھا۔ بحیثیت اداکار اس کے لیے کیمرہ کی طرف دیکھنا مشکل تھا لیکن اس نے خود کو بہتر ثابت کیا۔ وقت کے ساتھ خود کو تبدیل کرنا بہت اہم ہے جبکہ اس زمانے کے بدلے آج کے دور میں اچھی چیزیں اور بری چیزیں بھی ہو رہی ہیں۔ ماضی کتنا خوبصورت ہوتا ہے جب اس دور کی خوبصورت اداکاراؤں کا پھر سے ذکر ہوتا ہے جو اس نسل کے لوگوں کی جان تھیں اور اگر آج کے دور میں پی ٹی وی کے ڈراموں کی بات کروں تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاک دھرتی کے زمانے تھے۔ وہ میرے گاؤں سے لے کر شہر تک کے ڈرامے تھے۔ دہلیز… وارث… دوریاں… دشت… چاند گرہن… اندھیرا اجالا… ان کہی یعنی کس کس ڈرامے کا ذکر کروں۔ ایک طویل فہرست حالانکہ ایک ٹی وی تھا ان دنوں تو بڑے برینڈز بھی نہیں تھے اور یہی وہ دور تھا جب آرٹسٹ محنت کرتے۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.