آئینی ترمیم کے بجائے آئین پر عمل کر لیں

24

ریاستہائے متحدہ امریکہ کے آئین میںگزشتہ 225 سال میں تریسٹھ ترامیم کی تجاویز کانگرس کی طرف سے پیش کی گئیں لیکن آج تک صرف 27 ترامیم امریکی آئین کا حصہ بن سکیں ۔ 4 مارچ 1789 کو نافذ ہونے والا امریکی آئین آج بھی اپنی پوری شان سے اقوام ِ عالم کے سامنے ہے ۔تمام ترامیم امریکی عوام کے مفاد میں کی گئیں یا پھر کسی غلط آئینی ترمیم کو درست کرنے کیلئے کیاگیا ۔ پہلی دس ترامیم کو تو نام ہی’’ بل آف رائٹس‘‘ کانام دیا گیا ۔ 13ویں، 14ویں اور 15ویں ترامیم کو اجتماعی طور پر تعمیر نو کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ آئین ایک طویل اور خوفناک خانہ جنگی کے بعد معرض وجود میں آیا۔امریکی آئین کے برعکس وطن ِ عزیز کی حالت تو یہ ہے کہ1947 ء میں ریاست ِ پاکستان کے معرض ِ وجود میں آنے کے بعدبھی 1956 ء تک ہم کوئی آئین نہ بنا سکے اور جو بنایا وہ چلا نہ سکے اور پھر 1962 ء کا آئین صرف ایک جنرل کی خواہش پر نافذ کردیا گیا لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ وہی جنرل اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی پاسداری نہ کرسکا اور اقتدار سے رخصت ہوتے وقت اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کے مطابق حکومتی نظم و نسق بجائے سپیکر قومی اسمبلی محمد مالک کے سپرد کرنے کے ایک جرنیل یحییٰ خان کے سپرد کر گیا اور یہ جرنیل کسی آئین کے بغیر اپنی فوجی ضابطوں کے بل بوتے پرریاست ِ پاکستان کو چلاتا رہا ۔قومی اسمبلی کے سپیکر کے سپردحکومت نہ کرنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ اُس کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ سنا ہے کہ یحییٰ خان نے شفاف الیکشن کرائے تھے لیکن وہ اپنے ہی کرائے ہوئے الیکشن کے نتائج سے خوفزدہ ہو گیا اور اقتدار منتقل کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتا رہا جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان میں بسنے والوں نے 23 مارچ 1971 ء کو یوم ِ پاکستان کے بجائے یومِ سیاہ کے طور پر منایا جس کے نتیجہ میں 26 مارچ کو فوجی آپریشن شروع ہوا جس کا دائرہ بڑھتے بڑھتے سارے مشرقی پاکستان میں پھیل گیا اور رہی سہی کسر بھارتی حملے نے پوری کردی ۔ مشرقی پاکستان میں ایک ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا گیا لیکن یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے دنیا میں جغرافیہ بدلتا رہتا ہے حیران کُن تو یہ ہے کہ ہم نے ملک دو لخت ہونے کے بعد بھی اُس سے سبق نہیں سیکھا ۔ مجیب نے بنگلہ دیش میں نئے الیکشن کرا دیئے جبکہ مغربی پاکستان میں 70 ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کر دیا گیا۔ حالانکہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھی یحییٰ خان ابھی رخصت ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے اور اُنہوں نے جسٹس کارنیلیس سے ایک اسلامی آئین لکھوا کر رکھ لیا تھا لیکن بچے کھچے پاکستانیوں کے بدترین رد عمل میں یحییٰ خان کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا ۔ بھٹو نے 1973ء کا متفقہ آئین پاکستانی قوم کودیا گو کہ بھٹو کے پاس بھی آئین بنانے کا کوئی اختیار نہیں تھا کیونکہ جب کسی ریاست کا جغرافیہ اور آبادی بدل جائے تو وہاں نیا الیکشن ناگزیر ہوتا ہے لیکن شکست خوردہ فوج کے پاس اُس وقت بھٹو ہی بہترین آپشن تھا ۔
گزشتہ باون سال میں پاکستان میں 25 ترامیم ہو چکی ہیں اور اِن میں ایک بھی ترمیم پاکستان کے عوام کیلئے نہیں کی گئی۔ کبھی سپیڈی کورٹس بنانے کیلئے اور کبھی انہیں توثیق دینے کیلئے ترامیم وجود میں آئیں ۔ کبھی ججوں کی عمر کا تعین کرنے کیلئے اور کبھی کوٹہ سٹم بڑھانے کیلئے۔ یہاں تک کہ مسلمان کی تعریف کیلئے بھی آئینی ترمیم کی ضرورت پیش آ گئی جبکہ بہتر تھا کہ مسلمان کی تعریف کرنے کے بجائے غیر مسلم کی تعریف کر دی جاتی ۔ ایک بار پھر پاکستان کا آئین ترمیمی حملے کی زد میں ہے ۔ عمران نیازی اُسے اگلے چیف جسٹس کی تعیناتی تک روکنا چاہتا ہے جبکہ حکومت اُسے موجودہ چیف جسٹس کی موجودگی میں کرانے پر ادھارے کھائے بیٹھی ہے۔ اس ہنگامہ آرائی میں ملک و قوم کا کتنا وقت اورایسے ایسے منحوس بیانات سننا پڑ رہے ہیںکہ روح کی روح پر موت طاری ہو رہی ہے ۔کھلے عام افواج ِ پاکستان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔ ایک صوبے کا وزیر اعلی افغان سفارت کاروں سے مل رہا ہے وہی افغان سفارت کار جو تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی سرزمین پر ہونے والی سرکاری تقریب میں قومی ترانے پر کھڑا نہ ہونے کا غیر عقلی جواز رکھتا ہے جبکہ اُسی وزیر اعلیٰ کااپنا سابق وزیر اعظم بظاہر پاکستان کے علاقہ غیر کو پاکستان میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ضم کرکے گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس نے افغانستان سے گوادر تک بغیر کسی بائونڈری کے شمالی علاقہ جات کو ایک ہی زمین کا ٹکرا بنا دیا ہے تاکہ کل کو افغانیوں کی بلاک ریاست کو گوادر کا سمندر میسر آ سکے ۔میں انتہائی ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان تحریک انصاف ایک علیحدگی پسند جماعت بن کر سامنے آئے گی اور یہ سب کچھ ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دینے کے بعد ہو گا ۔ ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ مجیب الرحمان بھی مغربی پاکستان کی جیل میں ہی تھا جب بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا اور ازاں بعد ہمیں اُسے بھی نہ صرف رہا کرنا پڑا بلکہ عزت آبرو کے ساتھ اُس کی نوزائیدہ ریاست کے سپرد کرنا پڑا ۔
براق کی رفتار سے گزرتا ہوا وقت ہمیں آہستہ آہستہ ایک ایسی کھائی کی طرف لے جا رہا ہے جہاں یہ رستہ بند ہو کر دونوں طرف کھائیوں میں تبدیل ہو جائے گا ۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی فوج مخالف کمپین کو روکنے میں ہم ابھی تک بُری طرح ناکام ہو چکے ہیں جس سے نیازی کے لونڈے لپاڑوں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں ۔ گنڈا پور ممکن ہے اسٹیبلشمٹ کے رابطے میں ہو لیکن جب نوجوان جو تحریکوں کا انجن ہوتے ہیں بغیر کسی پروگرام اور منصوبہ بندی کے نکلتے ہیں توپھر علی امین گنڈا پور کی کیا اوقات رہ جاتی ہے انہیں گنڈا پور کا بارڈبھی روکنے کیلئے ناکافی ہو جاتا ہے ۔ ریاست نرم دل اور بیوقو ف آدمی کبھی چلا ہی نہیں سکتا حکومت کے سینے میں دل ہوتا ہے لیکن دنیا کی کوئی ریاست کبھی ماں جیسی نہیں ہوتی ۔یہ سب سے بڑا فکری مغالطہ ہے جس سے ہم جتنا جلد نکل آئیں گے پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے بہتر ہو گا ورنہ جو جال ہمارے چاروں اطراف میں اندر کی طرف سے پھیلایا جا رہا ہے وہ ہر جسم اور ذہن کو اپنی مضبوط گرفت میں لے لے گا اورہمارے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا ۔ آئینی ترمیم کرنے کے بجائے آئین پر عمل کرلیا جائے تو یہ زیادہ سود مند ثابت ہو گا کیونکہ آئین کے آرٹیکل 6 سے بالاتر تو کوئی بھی نہیں خواہ مخوا ہ آئینی تاریخ مزید آلودہ کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔

تبصرے بند ہیں.