حالات بے قابو، خوفناک خبریں، خانہ جنگی کی سازش، اسلام آباد میں صرف اجلاس ایک ہی اعلان دہشتگردوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ دہشتگرد معصوم لوگوں کو نہیں چھوڑ رہے، حکومت پھنس چکی امن و امان کی صورتحال ابتر بلکہ بد ترین مبینہ طور پر ٹیکس چور تاجروں کی ملک گیر ہڑتال۔ بلوچستان تعصبات اور سازشوں کی آگ میں جل رہا ہے۔ وفاق توڑنے کی گھنائونی سازش میں پانچ طاقتیں ملوث، بلا شبہ حکومت اور فوج آرمی چیف کی قیادت میں اس سازش کو ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن پورا صوبہ زخم زخم ہے۔ کہاں کہاں مرہم رکھی جائے لوگ الزام لگا رہے ہیں کہ ملک کی ایک بڑی جماعت ان طاقتوں کی فرنچائز شکل ہے۔ 26 اگست کو بلوچستان میں جو کچھ ہوا اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دہشتگردی نہیں کھلی بغاوت تھی، بلوچ دہشتگرد تھے یا بھارت کے تربیت یافتہ کرائے کے سپاہی جنہوں نے سالہا سال سے بلوچستان میں محنت مزدوری کرنے والے 23 افراد کو قاضی خیل کے مقام پر گاڑیوں سے اتار کر شناختی کارڈ چیک کیے اور قطار میں کھڑے کر کے گولیوں سے بھون ڈالا۔ دس گاڑیاں جلا ڈالیں 6 گھنٹے رقص ابلیس جاری رہا، حیرت ہے وزیر اعلیٰ، وزیر، ارکان اسمبلی، آئی جی، ایس ایچ او سمیت کسی کے کانوں میں تڑ تڑ کی آواز سنائی نہ دی بچانے والے صرف لاشیں گننے پہنچے۔ جنازے ترتیب سے رکھے نماز جنازہ پڑھی جن بندوقوں سے دہشتگردوں کے پرخچے اڑانے تھے ان سے ’’شہدائ‘‘ کو سلامی دی اور انہیں حساب کتاب کے فرشتوں کے حوالے کر کے رخصت ہو گئے کہانی ختم، سوال کرنے والے برسوں پوچھتے رہیں گے کہ ان 23 پاکستانیوں کا قصور کیا تھا جو اپنے پیچھے بیوائوں، یتیموں اور بے آسرا ماں باپ کی آہیں اور سسکیاں چھوڑ گئے۔ عجیب تماشا ہے کہ اسلام آباد میں تقریر کی گونج ختم نہیں ہوتی اور بلوچستان یا خیبر پختونخوا میں ’’میرے دس بارہ ڈھول سپاہی‘‘ دہشتگردوں کے حملوں میں شہید ہو جاتے ہیں۔ پنڈی اسلام آباد والے جہاز بھر کر کوئٹہ پہنچے، ایپکس کا اجلاس ہوا لارج سکیل اور بے رحم آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ایک انفنٹری ڈویژن فوج تعینات کر دی گئی۔ 12 ارب جاری، جب اللہ چاہے گا ان فیصلوں پر عملدرآمد ہو گا۔ وفاقی وزیر داخلہ تو ان دہشتگردوں کو ایک ایس ایچ او کی مار قرار دیتے ہیں۔ ’’پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے‘‘ حکومت کو تو خان نے اپنے دام میں الجھا رکھا ہے۔ پوری سیاست خان کے گرد گھوم رہی ہے۔ کیا یہ خان کی کامیابی نہیں کہ ملکی سیاست کا محور فرد واحد بنا ہوا ہے۔ بنیادی خرابی کیا ہے؟ جیل میں مقدمات کی سماعت کے دوران انہیں ٹی وی چینلز کے رپورٹرز، وکلا اور لا تعداد ملاقاتیوں سے بات چیت کی سہولت حاصل ہے۔ میڈیا کو سامنے پا کر وہ روز ایسا شوشا چھوڑ دیتے ہیں جس سے حکام بالا کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں اور ’’بے چاروں‘‘ کو دیگر فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے وقت ہی نہیں ملتا، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں لمبی لمبی چھوڑنا آسان لیکن ملک دشمنوں پر قابو پانا مشکل یہ کام فوج کرے، فوج کیا کیا کرے، حکومت کو گرنے سے بچائے، بیرونی ملکوں سے قرضے دلائے، سرحدوں کا دفاع کرے، گزشتہ چند ماہ کے دوران خوارج کے حملوں میں درجنوں دہشتگرد جہنم واصل کیے گئے مگر اپنے افسران سمیت متعدد قیمتی بہادر جوان بھی شہید ہوئے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر بھی کچے کے ڈاکوئوں کا قلع قمع نہ کر سکیں۔ گزشتہ دنوں ڈاکوئوں نے ایک اے ایس آئی کو اغوا کر لیا، پُر اسرار طور پر موت کی سزا پانے والے ایک ڈاکو کو رہا کر کے اے ایس آئی کو بازیاب کرایا گیا۔ بلوچستان میں سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ ایجنسیوں نے تین ہفتے قبل الرٹ جاری کر دیا تھا کہ 26 اگست کو اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پر دہشتگردی کا خطرہ ہے۔ کسی ایس ایچ او، ڈی آئی جی نے ناکہ بندی نہیں کی۔ وفاقی حکومت کو دو تہائی اکثریت نہیں مل رہی کہ وہ مستقبل کے لیے قانون سازی کر سکے توسیع ضروری ہے لیکن توسیع کے لیے مزید 15 ارکان درکار ہیں۔ مولانا فضل الرحمان گلے لگا کر گلے شکوئوں کے دفاتر کھول دیتے ہیں۔ صدر وزیر اعظم کے قابو نہیں آ رہے۔ 25 اکتوبر کو کیا ہو گا؟ وفاقی وزیر قانون کو بھی پتا نہیں، پنجاب حکومت کو بجلی کے بلوں نے الجھا رکھا ہے۔ بلاول بھٹو ان اقدامات سے پریشان ہیں۔ خیبرپختون خوا کے وزیر اعلیٰ کو نت نئی بڑھکوں، دعوئوں اور پھر اوپر والوں کے اپنے طریقہ سے سمجھانے کے بعد مونچھیں نیچی کر لینے سے فرصت نہیں، غرض وطن عزیز دہشتگردوں، ملک دشمنوں، مفاد پرستوں 32 لاکھ تاجروں (جن میں سے صرف ڈیڑھ لاکھ گوشوارے جمع کراتے اور نقصانات ظاہر کر کے ٹیکسوں سے بچ جاتے ہیں) اور ملک میں اپنی گندی سیاست کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے والوں کی زد میں ہے۔ لوگوں کو شاید علم نہیں کہ بلوچستان میں امن کا قیام ملکی خوشحالی کی کنجی ہے۔ امن قائم نہ ہوا تو ریفائنری نہیں لگے، سعودی عرب کی جانب سے 12 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نہ ہو سکے گی۔ چین کی طرف سے کوسٹل ہائی وے پر گوادر تک ایکسپورٹ سولرائزیشن پلانٹ نہیں لگے گا۔ پراسینگ زون نہیں بنیں گے۔ ریکوڈک سیندک منصوبے فائلوں میں پڑے رہیں گے اور ملکی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ ضروری ہے جن سے مذاکرات کرنے ہیں جلد مذاکرات کیے جائیں جن دہشتگردوں کا خاتمہ کرنا ہے وقت ضائع کیے بغیر انہیں نیست و نابود کیا جائے ورنہ کہیں سے سرمایہ کاری نہیں ہو گی اور بالآخر وزیر خزانہ گلہ کریں گے کہ ’’اس نے مجھے وزیر خزانہ بنا دیا، اس وقت جب وطن میں خزانہ تو ہے نہیں‘‘
جہاں تک خان کا تعلق ہے ان کا مسئلہ وہی پرانا ہے۔ مجھے جیل سے نکالو نہلا دھلا کر وزیر اعظم بنا دو پہلے ڈھائی تین سال میں معیشت اور کشمیر کا مسئلہ حل کر دیا تھا اب سی پیک کو ہمیشہ کے لیے پیک کر دوں گا۔ اس کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننے جا رہا ہوں، کاغذات جمع کرا دئیے مگر خرم بٹ سمیت کئی مخالفین مقدمات، کرپشن، سیتا وائٹ، ٹیریان کو بیٹی تسلیم نہ کرنے سمیت دیگر جرائم کی فہرستیں لے کر پہنچ گئے لوگ کہتے ہیں گورے اپنے تعلیمی اداروں میں ایسے لوگوں کو سربراہ نہیں بناتے جو 90 ملین پائونڈ جیسے مقدمات کے علاوہ اپنی بیٹیوں کی ولدیت تسلیم نہیں کرتے، اڈیالہ جیل میں مقیم خان اور باہر بیٹھے خود ساختہ لیڈروں کو یقین ہے کہ خان جلد باہر آ جائیں گے ایک یوتھیے نے لکھا کہ 29 اگست اہم ہے خان باہر ہوں گے ستمبر سے آگے بات نہیں جائے گی۔ آر یا پار ہونا ہے ایک کا دیا بجھنا ہے۔ (کس کا بجھے گا ہَوا کسی کی نہیں) یوتھیوں کو چھوڑیں فیس بک پر کسی نے اچھی بھلی شہرت کے حامل حامد میر سے منسوب خبر چلا دی کہ خان 28,27,26 میں سے کسی بھی دن رہا کر دئیے جائیں گے۔ ساری تاریخیں گزر گئیں، ستم گر ستمبر آن پہنچا، خان جیل سے باہر کا سورج نہ دیکھ سکے خوابوں کی تعبیر الٹی ہو گئی، جیل کا عملہ تبدیل، نگرانی سخت، ملاقاتیوں اور رپورٹروں کی تعداد محدود، تین نئی تقرریاں خان کو اب قید تنہائی کا احساس ہو رہا ہے۔ چند دن بعد ملٹری کورٹ میں چلے گئے تو سہولت کاریاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت دو ماہ بعد ختم ہو جائے گی۔ بجا فرمایا لیکن پہریداروں کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.