گُھپ اندھیرے میں سُلگتے سگریٹ کی روشنی نمایاں نظر آتی ہے اورٹمٹماتا جگنوبھی بہت روشن لگتاہے مگر ارشد ندیم کی تو ایسی مثال ہے جیسے طویل اندھیرے کے بعد ایسی روشنی ہو جس سے ہر چہرہ کِھل اُٹھے کٹھن حالات میں ارشدندیم نے گولڈ میڈل جیتا وہ پوری دنیا کے کھلاڑیوں کو پچھاڑکر آئے ہیں جو بہت پُرمسرت ہے جب اولمپکس میں پاکستانی اتھلیٹ کی جیت کا اعلان ہواتو یقین کریں آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے اور بے اختیارلبوں پر دعاآگئی کہ اللہ کرے ہمارے وطن کا سبز ہلالی پرچم ہمیشہ ہرمیدان میں سربلندرہے اور اَس کے ہر شہری کا دنیا میں ہیرو جیسا مقام ہو یہ وطن کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے آباؤ اجدادنے آگ وخون کا دریا پار کیاجب بچوں،بوڑھوں،جوانوں اور خواتین کوتہہ تیغ کیا جارہا تھا تو بھی سب کی زبان پر،لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان، کا ورد جاری تھا وطنِ عزیز کا یومِ آزادی محض تین روز کی دوری پر ہے ایسے میں ارشد ندیم کی جیت کے اعلان نے عجب سی طمانیت کا احساس دلایا ہے ٹھیک ہے کہ میرے وطن کے حصے میں اولمپکس سے ایک ہی گولڈ میڈل آیا ہے لیکن محنت وکوشش کی جائے تو آئندہ مقابلوں میں یہ تعدادبڑھ بھی سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ محنت و کوشش میں کمی نہ کی جائے اور کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے وقت ذمہ داران سفارش کو خاطر میں نہ لائیں صرف اہلیت وصلاحیت پیشِ نظر رکھیں تو اِس زرخیز مٹی میں ایسے جوہرِ قابل ہیں جو دنیا سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں قرآن مجید میں اللہ کا فرماتاہے بے شک انسان کو وہی کچھ ملتاہے جس کی وہ کوشش کرتاہے۔
ارشد ندیم جیت گیا میرا ملک پاکستان جیت گیا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر پاکستانی جیت گیا کیونکہ پاکستان ہی تو ہماری شناخت ہے یہ اللہ کا کرم اور ہمارے ہیرو ارشد ندیم کی شب و روز محنت کا ثمر ہے کہ اُس نے درجنوں ممالک میں پاکستان کا نام سربلند کیا یہ ہر پاکستانی کے لیے عزت کا مقام ہے اِس عزت افزائی کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے بلاشبہ لگن سچی اور جیت کا جذبہ ہو تونا مساعد حالات بھی رکاوٹ نہیں بنتے یاد رکھیں حالات کا بیٹھ کر رونا رونے والے کے بجائے تاریخ صرف اُنھیں یاد رکھتی ہے جو اپنی صلاحیتوں سے تاریخ کا دھارا موڑنے کی کوشش کریں اور پھر جب بندہ کسی کام کا صمیمِ قلب سے اِرادہ کر لیتا ہے تو منزل خودبخود آسان ہو تی چلی جاتی ہے ارشدندیم نے تویہ ثابت کر دیا ہے۔
جو بیٹھ کرحالات کا ماتم کرتے اپنی ناکامیوں کا دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے اور جدوجہد کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں وہ دراصل خود مایوسی اور خوف کا شکار ہوتے ہیں ایسے لوگ نہیں چاہتے کہ کوئی کامیابی کے زینے طے کرے اور اگر کوئی آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو سہولت کار بننے کے بجائے راہ میں روڑے اٹکاتے اُسے بھی مایوس کرنے کی سعی کرتے ہیں ایسے لوگ معاشرے کا کچرا ہوتے ہیں یہ کہنے کو تو جسمانی طورپر زندہ ہوتے ہیں مگر روحانی طورپر مُردوں کی مانند ہوتے ہیں فرق بس اتنا ہوتا ہے کہ مٹی کے نیچے دفن نہیں ہوتے بلکہ مٹی پر بوجھ کی طرح رہتے ہیں وطن میں آجکل کچھ لوگ شکوے کرتے نظر آتے ہیں کہ ریاست نے یہ نہیں دیا وہ نہیں دیا مگر ارشد ندیم ایسے ناکام لوگوں میں کسی عجوبہ سے کم نہیں یہ شاندار اور بے مثال نوجوان ہے جو وطن سے ہزاروں میل دور جا کر بھی ہم وطنوں کے لیے خوشی کا ایسا سندیسا لایا ہے جس نے سرشاری کی کیفیت پیداکردی ہے اِس میں یہ پیغام بھی ہے کہ کامیاب ہونا ہے تو شکوے وشکایات چھوڑ دیں ہمت و جرأت سے کام لیں اور منزل کے حصول کی عملی طورپر کوشش کریں۔
پیرس اولمپکس میں پاکستانی ہیروارشدندیم نے جونہی جیولن تھرومیں آخری تھرو 91میٹر سے زیادہ دور پھینکی تو 32برس بعد پہلی مرتبہ پاکستان کے ایک اتھلیٹ کے گولڈمیڈل حاصل کرنے کا اعلان کیا گیا جو پوری دنیا میں سناگیا اِس علان پر پوری دنیا میں پھیلے پاکستانیوں نے خوشی ومسرت کا اظہارکیا جبکہ ہمارے ہیروارشدندیم نے گولڈ میڈل جیتنے کے بعد میدان میں ہی خداکے روبروسجدہِ شکرادا کرکے اپنی بندگی کا اظہار کیامزیدخاص بات یہ کہ پاکستان کے اِس فرزند نے گولڈ میڈل حاصل کرنے کے ساتھ اِس حوالہ سے قائم چالیس سالہ ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے جوکڑی محنت وریاضت کے سواکسی صورت ممکن نہ تھا ارشد ندیم کی جیت کئی حوالوں سے منفردویادگارہے پاکستانی ایک تو گولڈ میڈل جیتنے پر خوش ہیں دوسرا چالیس سالہ قائم ریکارڈ توڑنے پر بھی بے پایاں مسرت سے سرشار ہیں عرصے بعد پاکستانیوں نے ایسی خوشخبری سنی کرکٹ کی طرح سکوائش، باکسنگ، تیراکی و دیگر کھیلوں پر توجہ دی جائے تووطنِ عزیز ماضی کی تابناک تاریخ دوبارہ دہرا سکتاہے لیکن اِس کے لیے ہمارے اربابِ اختیار کو ذمہ داری کا مظاہرہ اور میرٹ کی پاسداری کویقینی بنانا ہو گا تبھی اقوامِ عالم کے مقابلوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے وقت رشتہ داری، تعلق داری اور سفارش کو خاطر میں لانے سے گریز کیا جائے۔
27سالہ ارشد ندیم میاں چنوں میں دو جنوری 1997 کو پیدا ہوئے یہ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں بچپن سے ہی سپورٹس سے دلچسپی تھی جب ساتویں جماعت میں تھے تو رشید احمد ساقی نے اُن کی صلاحیتوں کو بھانپا اور ڈویژنل مقابلوں میں شامل ہونے کی راہ ہموار کی ابتدامیں اِن کا رجحان بھی کرکٹ کی طرف تھا لیکن جلدہی دیگر کھیلوں کی طرف بھی مائل ہوتے گئے انھوں نے پنجاب یوتھ فیسٹول میں بھی گولڈ میڈل لیے اور اِس کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر شناخت بنانے کی کوشش جاری رکھی اِس دوران مختلف محکموں واپڈا، ائرفورس اور آرمی کی طرف سے پیشکشیں بھی آئیں اُن کے والد محمد اشرف نے جیولن تھرومیں جانے کی حوصلہ افزائی کی 2015میں باقاعدہ جیولن تھرو کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا 2016میں ورلڈ اتھیلٹ سے سکالرشپ حاصل کی اور فروری 2016 میں جنوبی ایشیائی مقابلوں منعقدہ گوہاٹی براؤن میڈل حاصل کیا اسی برس مزید مقابلوں میں بھی کئی ایک انعامات حاصل کیے۔
اگر کامیابیاں کی طرف سفر شروع کرنا ہے تو ماضی کی ناکامیاں بھلا کر آگے کی طرف بڑھنا ہوگا رویے میں بھی تبدیلی لانا ہوگی کسی بجھتے ہوئے کو دیکھ کر مزید مایوس نہ کریں بلکہ اُس کی خوبیاں بیان کریں تاکہ مایوس کے شکارفردمیں بھی جینے کی اُمنگ پیداہوآج تک جتنے ٹوٹے بکھرے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے بنیادی وجہ یہی محسوس کی ہے کہ لوگوں کا ہجوم ہوتے ہوئے بھی کوئی دلاسہ نہیں دیتا بلکہ سبھی مایوسی کی باتوں میں لذت پاتے ہیں مبادا کوئی کامیابی کی طرف سفر شروع نہ کردے یادرکھیں تنقید سے گریز اور حوصلہ افزائی بہتر ہے لہٰذا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کریں مایوسی کی نہیں۔
تبصرے بند ہیں.