نئے انتخابات کی تیاری

80

قومی اسمبلی میں لیڈر آف د ی اپوزیشن، ملک کے پہلے آمر کے پوتے، پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان نے اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ قوم نئے انتخابات کی تیاری کرے۔ دوسری طرف اسی پارٹی کے رہنما اسد قیصر کا موقف یہ بھی ہے کہ عدالتیں انہیں ان کی ہاری اور چیلنج کی ہوئی پچاس سے زیادہ سیٹیں دینے جار ہی ہیں جن کے بعد انہیں قومی اسمبلی میں اکثریت مل جائے گی اور دسمبر تک ان کی حکومت قائم ہوجائے گی۔ اسی پارٹی کا ایک تیسرا موقف بھی ہے جو سوشل میڈیا سے سامنے آتا ہے اور وہ اس لئے اہم ہے کہ پی ٹی آئی بنیادی طور پر سوشل میڈیا پر بننے اور چلنے والی پارٹی ہے۔پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ اس رائے پر متفق ہیں کہ وکیلوں پر مشتمل موجودہ قیادت ان کے بانی کو کسی قسم کی کوئی رعائیت دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکی لہٰذا خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سمیت تمام ارکان اسمبلی کو مستعفی ہوجانا چاہئے کہ ایسے ایوانوں میں ایسی موجودگی کا کوئی فائدہ نہیں جو عمران خان کو اڈیالہ سے نکال کر ایوان وزیراعظم تک لے جا سکے۔ یہ تینوں موقف ایک ہی پارٹی کے ہیں اور ایک ساتھ ہیں مگر یہ علم نہیں کہ ان میں سے کون سا حقیقی ہے اور کون سا غیر حقیقی، بس جس کے دل میں جو آجائے وہ بول دیتا ہے۔

اب ہم ان خواہشات کو باری باری لے لیتے ہیں۔ پہلا یہ کہ قوم نئے انتخابات کی تیاری کرے واضح کر رہا ہے کہ پی ٹی آئی اسمبلیاں تڑوانا چاہتی ہے مگر کیا وہ اس کی اہلیت رکھتی ہے تواس کا جواب ہے کہ ایک فیصد بھی نہیں۔ یہ درست کہ پی ٹی آئی نو مئی اور بنوں جیسے واقعات کے ذریعے لاشیں چاہتی ہے یعنی امن و امان کے مسائل پیدا کر کے حکومت کا خاتمہ مگر اس سازش کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی سات، آٹھ برس پہلے اس وقت بھی اسمبلیاں نہیں تڑوا سکی تھی جب اس نے پینتیس پنکچروں کا نعرہ لگایا تھا، لانگ مارچ کئے اور دھرنے دئیے تھے حالانکہ اس وقت ان کے ساتھ ان کے کزن طاہر القادری بھی تھے جو اسلام آباد میں قبریں کھود کے اور کفن پہن کے بیٹھ گئے تھے۔ اس وقت پی ٹی آئی کو نئے کزن حافظ نعیم الرحمان کی صورت مل گئے ہیں جو پی ٹی آئی سے محبت کی وہ وراثت کندھوں پراٹھائے پھر رہے ہیں جو سید منور حسن اور سراج الحق جیسے پہلے امیروں نے انہیں سونپی ہے۔ وہ طاہر القادری ثانی بننے کے ایسے شوقین ہیں کہ انہوں نے بھی قادری صاحب کی طرح احتجاج کے لئے وہی دن چنا ہے جو پی ٹی آئی نے باہر نکلنے کی کال دینے کے لئے رکھا تھا حتیٰ کہ اپنا پہلا دیا ہوا دن تبدیل بھی کیا۔ سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ تب پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے ساتھ بھی اسمبلیاں نہیں تڑوا سکی تھی تو اب سر مار کے دیکھ لے، اسے ہی پھڑوا  لے گی۔

سچی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو عدالتی فیصلوں سے حوصلے مل رہے ہیں۔ ہماری عدالتیں اور جج آزاد ہیں اور وہ جو چاہے فیصلے دے سکتے ہیں۔ یہ آزادی اتنی زیادہ ہے کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں چیف جسٹس سمیت دیگر کو لکھنا پڑ گیا کہ ہم آئین کو ری رائیٹ نہیں کر سکتے مگر اس کے باوجود انہی کے فیصلوں کے مطابق ایسا کیا گیا مگر میرے پاس ان تمام فیصلوں کے حوالے سے ایک مختلف نکتہ نظر بھی موجودہے۔ تازہ فیصلوں کو پی ٹی آئی کی بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے مگر سوال یہ ہے ان سے عملی طور پر زمینی حقائق کتنے تبدیل ہوئے۔ ابھی کل الیکشن کمیشن نے انتالیس ارکان کوپی ٹی آئی کا ڈیکلئیر کیا ہے تو اس سے نمبر گیم کیا تبدیل ہوئی، کچھ بھی نہیں، نقصان تو بچاری سنی اتحاد کونسل کا ہوا جو انہیں اپنا بنا کے بیٹھی ہوئی تھی۔ دوسری طرف یہ لوگ قومی اسمبلی میں پہلے بھی اپوزیشن میں تھے اور اب بھی ہیں۔ایک بڑی عدالتی کامیابی یہ بھی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا نو مئی کے مقدمات میں جسمانی ریمانڈ ختم کر دیا گیا تو اس سے عملی طور پر کیا فرق پڑا۔ وہ پہلے بھی جیل میں تھے اور اب بھی ہیں۔ پہلے بھی پولیس کی دسترس میں تھے اور اب بھی ہیں۔ ماضی میں حکومتوں کے خاتمے میں ایک ٹرائیکا میں طاقت کا بگڑا ہوا توازن کام دکھاتا تھا۔ اس ٹرائیکا میں فوج، عدلیہ اور حکومت ہوتے ہیں۔ یہ بچوں کے کھیل کے میدان میں لگے ہوئے سی سا جیسا کھیل ہے۔ دو ایک طرف ہوتے ہیں تو تیسرے کو آسمان پر پہنچا دیتے ہیں۔ پہلے ہمیشہ فوج اور عدلیہ اکٹھے ہوتے رہے ہیں۔ عدلیہ آمروں کو جائزیت ہی نہیں آئین میں ترمیم تک کے اختیارات دیتی رہی ہے۔ وہ اب بھی بہت سارے فیصلے ماورائے آئین اور قانون کر رہی ہے اور انہیں ضمیر کے فیصلوں کانام دیا جا رہا ہے جس کی تردید اور وضاحت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کر دی ہے۔ عدالتوں کے طاقتور ججوں نے دو تہائی اکثریت والی صورتحال تو تبدیل کی ہے مگر کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر سادہ اکثریت یا حکومت بھی ختم کرسکتے ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو مارشل لا بھی لگ سکتا ہے اور ایمرجنسی پلس بھی، جس کا اشارہ طاقتور اور باخبر صحافی دے رہے ہیں۔

آخری حکمت عملی استعفوں کی ہے تو پی ٹی آئی یہ کام پہلے بھی کئی مرتبہ کرچکی ہے۔ اس سے کیا ملا؟ کچھ بھی نہیں۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی بہت کچھ تبدیل ہوتا رہا اور اب بھی ہوسکتا ہے مگر میرا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کے لئے پہلے سے’ہوا‘ تیار ہوتی تھی، ’فضا‘ بنتی تھی۔ کچھ ملاقاتیں ہوتی تھیں، کچھ مداخلتیں ہوتی تھیں مگر اب پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات طے نہیں پاسکتے۔ اسٹیبلشمنٹکا صرف ایک مطالبہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی معافی مانگ لے مگر یہ معافی عملی طور پر پی ٹی آئی کے غبارے سے تمام ہوا نکال دے گی۔ بانی پی ٹی آئی اقتدار مانگتے ہیں جو دوسرے انہیں دے نہیں سکتے اور دوسرے ان سے سرنڈر مانگتے ہیں جو وہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں سو یہ معاملہ تو ختم ہے۔ یہاں اسٹیبلشمنٹ کی ربع صدی سے جاری ایک اور پالیسی کو حالات و واقعات میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس نے مشکل بلکہ نامساعد حالات کے باوجود چار اسمبلیوں کی مدت پوری کروائی ہے سو اس امر کا کوئی امکان نہیں کہ پانچویں کو گھر بھیج دیا جائے اور اگر بھیجنے کی بات بھی ہو تو سوال ہے کیوں۔ یہ ماضی کی ان اسمبلیوں سے کہیں بہتر اسمبلی ہے جہاں ایک،دو ارکان کی اکثریت سے حکومت بنانا پڑی اور وہ بھی فلور کراسنگ سے۔ یہاں نہ فلور کراسنگ ہے اور نہ ہی کوئی دوسری غیر اخلاقی بات۔ ایک بہترین صدر اور بہترین وزیراعظم کام کررہے ہیں۔نئی اسمبلی کے قیام کا خواب، معذرت کے ساتھ، کوئی احمق ہی دیکھ سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.