(گزشتہ سے پیوستہ)
ہوٹل کے کمرے میں ہم (میں اور اہلیہ محترمہ) پہنچے ہی تھے کہ اس دوران مسجد الحرام میں ظہر کی اذان کا وقت ہو گیا۔ہمیں اپنے عزیزوں بھتیجے عمران ملک، اُس کی والدہ (میری بڑی بھابی) اُس کی ہمشیرہ (راضیہ) اُس کی خالہ اور اُس کے خالہ زاد بھائی واجد ملک کی جدہ سے آمد کا انتظار تھا کہ وہ آئیں تو پھر عمرے کی ادائیگی کے لیے حرم ِ کعبہ کا رُخ کریں۔ اس دوران ہماری کوشش تھی کہ کچھ وقت کے لیے آرام کر سکیں۔ کمرے میں اے سی چلنے کے باوجود گرمی کا احساس ہو رہا تھا۔ بلا شبہ 17 جولائی بدھ ایک گرم دن تھا لیکن مجھے شاید گرمی کا احساس کچھ اس بنا پر بھی زیادہ ہو رہا تھا کہ دل میں ایک بے چینی اور گھبراہٹ سی تھی کہ پہنچ تو گیا ہوں اللہ کریم کے گھر کی حاضری کے لیے، لیکن اُس پاک ذات کا سامنا کیسے کر سکوں گا۔ کعبہ مشرفہ پر نظر پڑے گی تو دامن پھیلا کر کی جانے والی دعائیں، التجائیں اور ربِ کعبہ کے سامنے احساسِ ندامت کے ساتھ حضوری کتنے کام آئے گی؟ اندیشے، وسوسے، ڈر، نافرمانی اور گناہوں کا احساس دامن گیر تھا۔ اکتالیس برس قبل 1983ء میں اپنی والدہ محترمہ بے جی مرحومہ و مغفورہ کے ہمراہ حج کے لیے آیا تھا(بڑے بھائی حاجی ملک غلام رزاق،ریاض سعودی عرب سے ہمارے ساتھ حج کے لیے آن شامل ہوئے تھے) تو شاید یہ کیفیت نہیں تھی۔ احساسِ ندامت اس طرح نہیں تھا۔ خطاؤں، لغرشوں، کوتاہیوں، نافرمانیوں اور نامہ اعمال کی سیاہی کا احساس جو اسلام آباد سے عمرے کے سفر پر روانگی کے وقت سے دامن گیر تھا اب مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگا تھا۔ تاہم اُمید کی کچھ کرن تھی کہ اللہ رحیم کریم کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اُس کے گھر خانہ کعبہ اور مسجدِ حرام کی زیارت اور عمرے کی ادائیگی کی توفیق اور پھر نبی پاک ﷺ کے شہر مدینہ منورہ کی حاضری اور روزہِ اقدس پر درود وسلام کی توفیق حاصل ہو رہی ہے تو یقینا یہ ایسے پہلو ہیں کہ بارگاہِ رب العزت سے کچھ نہ کچھ خیر مل جائے گی اور دامن خالی نہیں رہے گا۔
میں ان خیالات اور سوچوں میں گم تھا اہلیہ
محترمہ وضو کرنے کے بعد تیار بیٹھی تھیں کہ ہم حرمِ کعبہ کا رُخ کریں، اسی دوران کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ عمران، واجد اور تینوں خواتین کمرے میں داخل ہوئیں۔ سامان وغیرہ رکھا اور یہ طے پایا کہ ہم دو کمرے لینے کے بجائے اسی ایک ہی کمرے جس میں 7 بیڈ لگے تھے اٹیچ باتھ روم تھا، باہر گیلری میں صوفے بچھے تھے اور ساتھ ایک واش بیسن اور ایک دوسرا اٹیچ باتھ بھی تھا میں اکٹھے رہیں گے۔ عمران لوگ ذرا سی دیر میں تازہ دم ہوئے اور پھر عمرے کی ادائیگی کے لیے ہم سب حرم شریف جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ لفٹ میں بیٹھ کر نیچے ہوٹل کی لابی میں آئے۔ شیر افضل صاحب کے صاحبزادے بلال سے پوچھا کہ مسجدِ حرام میں جانے کے لیے کوئی مختصر راستہ ہو تو سمجھا دیجئے۔ اُس نے راہنمائی کی کہ ہوٹل سے باہر نکلنے کے بعد بائیں طرف مُڑ جائیں گلی میں ڈھلان میں آگے چلتے جائیں، ایک دو موڑ آئیں گے اور پھر کشادہ گلی آجائے گی اُس سے گزر کر آپ بڑی سڑک شاہراہِ ابراہیم خلیل پر پہنچ جائیں گے۔
شاہراہِ ابراہیم خلیل کا علاقہ جس کے ساتھ مکہ مکرمہ کے قدیم محلہ مسفلہ کی آباد ی ہے میرے لیے کوئی زیادہ اجنبی نہیں تھا کہ 1983ء میں جب ہم حج کے لیے آئے تھے تو اسی علاقے میں جہاں آج کل باب الملک فہد کی وسعت پہنچی ہوئی ہے کے سامنے سڑک پر الفتح کے نام سے ایک ہوٹل کے پچھواڑے میں دو منزلہ ایک پرانی عمارت میں قیام کیا تھا۔ قیام کے لیے یہ حرم شریف کے قریب ترین جگہ تھی۔ اس کے لیے ہم نے 1300 ریال فی کس رہائش کا کرایہ ادا کیا تھا جو اس وقت رہائش کے عمومی کرائے سے تقریباً دُگنا تھا۔ رہائش کے لیے اتنی قریبی جگہ لینا اس لیے ضروری تھا کہ والدہ محترمہ بے جی مرحومہ و مغفورہ جو انتہائی کمزور اور دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کی مریضہ تھیں انہیں حرم شریف آنے جانے میں سہولت حاصل رہے۔
خیر ہم شاہراہ ابراہیم خلیل پر آئے۔ دن اڑھائی تین بجے کا وقت تھا سخت گرمی اور دھوپ میں چلنا بلا شبہ انتہائی مشکل تھا افسوس ہوا کہ چھتریاں جو کمرے میں چھوڑ آئے کیوں ساتھ نہیں لائے لیکن اب واپس جانا آسان نہیں تھا۔ آگے بڑھے اور شاہراہ ابراہیم خلیل پر چلتے ہوئے سڑک کی دائیں طرف آگے سامنے برقی سیڑھیاں اُوپر جاتی ہیں اُن سے اوپر آئے تو آگے نواح حرم میں مکہ مکرمہ کی معروف جگہ ”کبوتر چوک“ میں پہنچ گئے۔ بلاشبہ وہاں سیکڑوں بلکہ کئی زیادہ چمکیلے پروں والے، سیاہی مائل، بھورے رنگ کے کبوتر مزے کے ساتھ دانہ دُنکا چگنے اور باہم اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ کبوتر چوک سے گزر کر ہم مکہ رائل کلاک ٹاور (جسے زم زم ٹاور بھی کہتے ہیں) اور اُس کے سامنے فندق التوحید کے درمیان سڑک پر آگے بڑھے تو ہمارے دائیں طرف 6 نمبر وضو خانوں یا واش رومز کی عمارت اور نماز کی ادائیگی کے لیے کچھ کھلے احاطے جن کی عارضی حد بندی کی گئی ہے نظر آتے ہیں۔ ان احاطوں کے کناروں پر ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے میں اُونچے اُونچے پولز (کھمبوں) پر خاص طرح کے بڑے بڑے گول چوڑے پنکھے لگے ہوئے ہیں جو چاروں طرف گھوم کر فضا میں اور نیچے فرش تک مسلسل ٹھنڈی ہوا اور آبی بخارات پہنچاتے رہتے ہیں۔ سامنے مسجدِ حرام کا عظیم الشان گیٹ نمبر 79 جسے باب الملک فہد بھی کہا جاتا ہے پوری آب و تاب اور اپنی وسعت اور رعنائیوں کے ساتھ دامن پھیلائے نظر آتا ہے۔ ہم اس گیٹ سے گزر کر مسجدِ حرام کے اندر داخل ہوئے۔ آگے چلے اور بائیں طرف آبِ زم زم کے ترتیب سے قطار میں رکھے کولروں سے آبِ زم زم پیا کچھ آگے اُوپر نیچے آنے جانے کے لیے برقی سیڑھیاں اور عام روائتی سیڑھیاں موجود ہیں، ان سے نیچے اُتر کر مسجدِ حرام کے نچلے گراؤنڈ پر آ گئے۔ دائیں بائیں خواتین کے بیٹھنے کے احاطے، ان کے ساتھ آبِ زم زم کے قطاروں میں لگے کولر اور ہمارے سامنے اللہ کریم کا مقدس گھر پوری آب و تاب، حرمت اور تقدس کے ساتھ موجود تھا، جس کے بارے میں قرآنِ حکیم کی سورہ آل عمران کی آیات 96 اور 97 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی، وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیرو برکت دی گئی (تھی) اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا (تھا)۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ابراہیم ؑ کا مقامِ عبادت ہے۔ اس کا حال یہ ہے کہ اس میں جو داخل ہوامامون ہو گیا۔
اب ہماری نظریں خانہ کعبہ پر جمی تھیں اور زبان پر انتہائی عاجزی کے ساتھ ربِ کریم کے حضور دعاؤں اور التجاؤں کا سلسلہ جاری تھا۔ (جاری ہے)
Prev Post
تبصرے بند ہیں.