ایک دانشور بیوروکریٹ سے ملاقات

161

 

ٹوٹنے کے بعد رروسی ریاست شدید انحطاط کا شکار ہو چکی تھی۔ کرپشن عروج پر پہنچ چکی تھی۔ حکومت اور خفیہ ادارے انتہائی پریشان تھے کہ ایک جانب کرپشن کا زور ہے تو دوسری طرف ملک میں بیوروکریسی کی پرفارمنس زیرو ہو چکی تھی۔ کے جی بی کا ایک انتہائی محنتی اور ایماندار افسر کئی برسوں سے اس کی کھوج میں تھا کہ اس پیمانے پر نااہلی اور کرپشن کی وجہ کیا ہے۔ اس نے ایک ایک کر کے تمام نااہل اور نالائق افسروں کی فائلیں جمع کرنا شروع کیں تو اس کو ان تمام فائلز میں ایک بات کامن نظر آئی۔ ان تمام افسروں کی بھرتی ایک ہی شخص نے کی تھی۔ کے جی بی کے افسر اس سینئر بیوروکریٹ کا کھوج نکالا تو پتہ چلا کہ وہ ایک نہایت شاندار زندگی بسر کر رہا ہے۔ ابتدائی تفتیش کے لئے اسے گرفتار کیا گیا۔ دو دن میں ہی اس نے اپنی ناجائز دولت اور نالائق افسروں کی بھرتی کا اعتراف کر لیا۔ اس سینئر بیورو کریٹ نے اعتراف کیا کہ اس نے جان بوجھ کر بیرونی فنڈنگ لے کر یہ کام کیا۔ انتہائی نالائق اور کرپٹ بندے ڈھونڈ کر بیورو کریسی میں بھرتی کیے۔ جن پاس کوئی انتظامی صلاحیت تھی اور نہ ہی کوئی ویژن۔ اس شخص نے دشمنوں سے ملنے والی دولت کی لالچ میں دنیا کی سابقہ سپر پاور کو انتظامی بحران سے دوچار کر دیا۔ اگر تھوڑ سا غور کریں آج پاکستان بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہے۔ کچھ دن پہلے چائے پر ملاقات ہوئی۔ ملتے ہی بولے مجھے طرح معلوم ہے کہ تم جو لکھتے ہو وہ ہمارے حکمرانوں کو شاید پسند نہیں آتا۔ تم اپنے کالم میں کبھی چائنہ ماڈل کی بات کرتے ہو۔ کبھی ترکیہ کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کی ترقی کے راز بتاتے ہو۔ ملک میں ایک ایسے نظام کی بات کرتے ہو جہاں فوری انصاف ملے۔ کاروبار کی جدید آسانیاں ہوں۔ زرعی ترقی کے لئے نئے آئیڈیاز دیتے ہو۔ رول آف لا کی بات کرتے ہو۔ بھولے بادشاہو ایسے بندے کو بھلا کون پسند کرتا ہے۔ میں ان کی ساری باتیں سن کر مسکرا دیا۔ ان کی گفتگو میں ایک عجیب طرح کا سوز تھا۔ بولے میں اپنی عمر کے آخری حصے میں ہوں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ میں ساری ساری رات سونہیں پاتا کہ اتنی بڑی پوسٹ پر جا کر بھی میں ملک کے لئے کچھ نہیں کر سکا۔ مجھے صوبائی وزراء، وزیراعلیٰ اور وفاقی وزراء کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ جو کچھ
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس وقت بھی میرا دل کڑھتا تھا کہ ان لوگوں کو عوام نے جو مینڈیٹ دے کر ان اعلیٰ عہدوں پر بٹھایاہے۔ کہ یہ ملک اور قوم کی تقدیر سنواریں گے یہ اپنی اور اپنے خاندان کی تقدیر سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ میں نے عادت سے مجبور ہو کر ان کی گفتگو کے دوران ہی سوال داغ دیا۔ میں نے کہا سر آپ تو بہت طاقتور بیورو کریٹ رہے ہیں۔ اتنے اختیارات کے باوجود بھی آپ کوئی کام نہیں کر سکے۔ انھوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے الیاس وقت آگیا ہے کہ ہمیں یہ سسٹم بدلنا ہوگا۔ انھوں نے نام لئے بغیر ایک وزیر موصوف کا واقعہ سنایا کہ ایک دور میں پاکستان میں شپنگ کی صنعت عروج پر تھی۔ یہ صنعت پاکستان کے ان اداروں میں سے تھی جو کہ منافع میں چل رہے تھے۔ میں نے بطور سیکرٹری اس شعبے ترقی اور بہتری کے لئے نئی ٹیکنالوجی کی سمری موو کی۔ لیکن منسٹر صاحب نے اعتراض لگا کر وہی سمری واپس کر دی۔ چند برسوں میں ہی ہماری شپنگ کی صنعت تباہ حال ہونا شروع ہوگئی۔ بعد ازاں میری ذاتی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ سمری واپس کرنے کی وجہ منسٹر کے بھائی کو ایک فارن کمپنی سے ملنے ولے رشوت تھی۔ اسے اس کام کے لئے اس کمپنی نے کروڑوں روپے دیئے۔ لیکن ملک کا اربوں کا نقصان کرا دیا۔ بات کرتے ہوئے شاہ جی جذباتی ہوگئے اپنے کانپتے ہاتھوں سے انگلی لہرائی اور بولے میں آپ کو گارنٹی سے کہتاہوں۔ ایسے کردار جنھوں نے ملک کا یہ حال کیا ہے۔ انھیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے تو تین مہینے میں پاکستان کے حالات بدل جائیں گے۔ اس ملک میں اصلی ریاست مدینہ قائم ہو جائے گی۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو بے شک مجھے مینار پاکستان پر پھانسی دے دی جائے۔ شاہ جی تواتر سے بولے جارہے تھے کہ آپ جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں۔ سعودی عرب، دبئی، قطر کی بادشاہوں پر غیر جمہوری ہونے کا اعترض کرتے ہیں۔ ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں اور دیکھیں یہاں آپ کو ہزاروں بادشاہ ملیں گے جنہوں نے اپنی بادشاہت قائم کی ہوئی ہے۔ ریاست کے اندر غیر اعلانیہ ریاستیں بن چکی ہیں۔ہرایم این اے، ہر منسٹر، سینیٹر اپنے اپنے علاقے کا بادشاہ ہے۔ اب شاہ جی نے مجھ سے سوال کردیا۔ کہ مجھے بتاؤ پچھلے 76 برسوں میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ میں خاموش رہا۔ تو بولے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سیاست کے نام پرجو کھیل کھیلے گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مخصوص خاندان سیاست اور معیشت کے اجارہ داربن گئے ہیں۔ سیاست میں خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ بھٹو خاندان، شریف خاندان، عمرانی ٹولہ یہ سب کے سب اندر سے باہمی مفادات میں جڑے ہوئے ہیں۔ بظاہر ہمیں جو نظر آتا ہے وہ تو بس کرسی پر بیٹھنے کی جنگ ہے۔ گفتگو کرتے ہوئے شاہ جی بولے کہ الیاس پتہ ہے کہ میں نے تمہیں کیوں چائے پر بلایا ہے۔کیونکہ تمہارے اندر مجھے ایک محب وطن پاکستانی کا درد نظر آتا ہے۔ شاہ جی نے اپنی توپوں کا رخ سیاستدانوں سے ہٹا کر بیوروکریٹس کی طرف کر دیا۔ بولے ان کا وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے لئے انٹرویو ہوا۔ انٹرویو لینے والے میری شہرت سے واقف تھے۔ مجھ سے ایک سوال ہوا کہ آپ ایک ایماندار افسر ہیں۔ لیکن جو لوگ آپ کے ساتھ کام کریں گے۔ اگر وہ آپ جیسے نہ ہوئے تو؟ میں اس کے جواب میں صرف مسکرا دیا اور وہ میرا جواب سمجھ گئے۔ انٹرویو وہیں ختم ہو گیا۔ پاکستان پر کرپٹ مافیاز کا راج ہے۔ہمارے بیورو کریٹ ان مافیا کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ انھوں نے مل کر سسٹم کو کنٹرول کر لیا ہے۔ یہ کسی ایماندارافسر کو اوپر نہیں آنے دیتے۔ کیونکہ انھیں معلوم یہ خود کھائے گا نہ کسی کو کھانے دے گا۔ یہ سلسلہ ٹاپ بیورو کریسی سے نیچے تک ایک ضلع کی بیوروکریسی، ڈپٹی کمشنر اور اس سے نیچے تک پھیل چکا ہے۔ سب نے اپنا اپنا نیکسس بنا لیا ہے۔ اب میں اسے مافیا نہ کہوں تو کیا کہوں۔ اس ملک میں سرمایہ کاری کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایکسپورٹ بڑھانے کے پلان دیئے جا رہے ہیں۔ جس ملک میں بجلی کے میٹر کے لئے منسٹر اور سیکرٹری کی سفارش چاہئے ہو یا رشوت سے کام کرایا جائے وہاں ایسے خواب دیکھنا جرم ہے۔ اس پہلے کہ اس ملک کے ساتھ مزید کچھ برا ہو۔ ہمیں فوری کچھ کرنا ہو گا۔ ڈیموکریسی کے نام پر جو کچھ اس ملک کے ساتھ کیا جارہے وہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں۔ ہمیں فوری طور پر اس نظام کو بدلنا ہوگا۔ ملک لوٹنے والوں کو نشان عبرت بنائیں۔ غلط بلڈنگ اور سڑک بنانے والے ٹھیکیدار کو موقع پر سزا دیں۔ ایک عبوری ٹیکنو کریٹ عبوری سسٹم لائیں جس میں انتہائی ایماندار لوگوں کو لایا جائے جو ایک مخصوص مدت میں ملک میں تمام مسائل کا حل تلاش کریں۔ شاہ جی کے ساتھ ملاقات کے بعد میں گھر آکر دیر تک سوچتا رہا کہ اس ملک کا کیا بنے گا؟۔

تبصرے بند ہیں.