پارلیمنٹ سپیکر کی کرسی تاریخ کے ہر دور میں تنازعات کا شکار رہی ہے جمہوریت کے موجودہ فریم ورک سے پہلے برطانیہ میں سپیکر بادشاہ اور نمائندگان پارلیمنٹ کے درمیان ایک پل کا کام کرتا تھا لیکن اس کے عہدے کی شفافیت تقدس اور غیر جانبداری کی صورتحال بڑی نازک تھی برطانوی بادشاہ ہنری ہشتم کے دور میں جب بادشاہ اور پارلیمنٹ کے درمیان اختیارات کی جنگ عروج پر تھی تو تاریخ بتاتی ہے کہ جانبداری کے الزام میں بادشاہ نے مختلف اوقات میں تین سپیکرز کے سر قلم کرا دیئے تھے سپیکر کی سیٹ پر بیٹھ کر جانبداری اور غداری کے درمیان بہت پتلی لکیر ہوتی ہے۔ ہماری دیسی جمہوریت میں بھی ہر اپوزیشن کی طرف سے ہر سپیکر پر جانبداری کے الزامات لگنا ایک معمول بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جو بھی پارٹی اپنا سپیکر منتخب کراتی ہے اپنے عہدے کے تقدس اور تقاضوں کے برخلاف وہ کھلم کھلا جانبداری کا مظاہرہ کرتا ہے جس کی وجہ سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے اور کوئی بھی سپیکر ان الزامات سے بچ نہیں سکتا۔
برطانیہ میں ایک سیاسی روایت آج بھی قائم ہے کہ جب ہاؤس آف کامنز کے سپیکر کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو سپیکر کو اپنی کرسی پر جب بیٹھنے کا کہا جاتا ہے تو وہ ہچکچاہٹ کا اظہار کرتا ہے جس کے پیچھے یہ انسانی سوچ ہوتی ہے کہ وہ اتنے بڑے منصب پر بیٹھ کر کس طرح انصاف اور غیر جانبداری اور ذاتی پسند نا پسند کو بالائے طاق رکھ سکے گا۔ چنانچہ برطانوی پارلیمنٹ کی یہ روایت آج بھی جاری ہے کہ نو منتخب سپیکر کو ارکان پارلیمنٹ دونوں طرف سے بازؤں سے پکڑ کر زبردستی اس کو ایک طرح سے گھسیٹ کر dagging کرتے ہوئے کرسی تک لے جاتے ہیں اور اسے وہاں بٹھا دیا جاتا ہے۔ سپیکر کی طرف سے تاثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کرسی پر اپنی خوشی سے نہیں بیٹھ رہا بلکہ وسیع تر قومی مفاد میں اسے قبول کر رہا ہے۔
ہماری یہ تمہید ذرا لمبی ہو گئی ہے بلوچستان نیشنل پارٹی (BNP) مینگل گروپ کے صدر سردار اختر مینگل نے اس ہفتے پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا جس کا پس منظر یہ تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے انہیں بلوچستان میں دہشت گردی اور لاپتہ افراد کے موضوع پر اظہار خیال کی اجازت نہیں دی۔ قومی اسمبلی میں اپنی رائے کا اظہار کرنا ہر ممبر کا حق ہے۔ مینگل صاحب کہتے ہیں کہ انہیں جب اپنے لوگوں کی آواز ایوانوں تک پہنچانے کا اختیار نہیں تو پھر ان کا ایوان میں بیٹھنا بے معنی ہے۔
ہمارے سپیکر کے اختیارات میں یہ درج ہے کہ اس کا اختیار ہے کہ وہ جسے چاہے بولنے دے اور جسے چاہے نہ بولنے دے۔ یہ اختیار بنیادی طور پر جمہوریت کی نفی ہے لیکن یہ ہماری بحث کا موضوع نہیں کیونکہ اس کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ لیکن اپنے اختیارات کو ایسے پختہ انداز میں استعمال کرنا کہ کم از کم اخلاقی تقاضے پورے ہو سکیں یہ سوچ سپیکر کے عہدے کی عزت میں کمی نہیں بلکہ اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ ہمارے سپیکر صاحب نے اختر مینگل کو بولنے کی اجازت نہ دے کر اپنی پارٹی کی کوئی خدمت کی ہے اور نہ ہی جمہوریت یا ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری میں اضافہ کیا ہے اور نہ ہی سیاسی پختگی کا ثبوت دیا ہے بلکہ اپنی پارٹی کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ بلوچستان میں جاری علیحدگی پسندی اور سیاسی افراتفری کے اس دور میں ایک ایسے قد آور سیاسی لیڈر جو دو دفعہ ایم این اے ایک دفعہ ایم پی اے اور سابق وزیر اعلیٰ بھی رہے ہوں انہیں ایوان میں بولنے نہ دینا تو بلوچستان میں جاری شورش پر پٹرول پھینکنے کے مترادف ہے۔ اختر مینگل کے والد بھی وزیراعلیٰ رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے 12 الیکشن لڑے ہیں کیونکہ وہ جمہوریت کے حامی ہیں وہ برائے فروخت ہیں اور نہ ان کا صوبہ برائے فروخت ہے۔
بہرحال اختر مینگل کے استعفے کے بعد خطے کی گھنٹیاں بج چکی ہیں حکمران ن لیگ کو اس Blunder کا احساس ہو گیا ہے جو دانستہ یا نادانستہ ہوئی ہے۔ رانا ثنا اللہ نے وفاق کی نمائندگی کرتے ہوئے مینگل صاحب سے ملاقات کر کے ان کی منت سماجت کی ہے کہ وہ ایوان میں واپس آجائیں مگر ابھی تک وہ اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ ن لیگ کی سیاست Hit & Trial کے فارمولے پر چلتی ہے یہ پہلے غلطی کرتے ہیں اور جب ان کی سلگائی ہوئی غلطی جب بھڑک اٹھتی ہے تو پھر یہ آگ بجھانے کی تدبیرسوچتے ہیں اختر مینگل کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔
کسی بھی جمہوری معاشرے میں جب بات چیت اور ڈائیلاگ کا راستہ بند کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں یہ باورچی خانے میں چولہا پھٹنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ جو mainstream اپوزیشن پارٹی ہے لیڈر آف اپوزیشن تقریباً روزانہ ہی ایوان کو جمہوری انداز میں نہ چلائے جانے پر احتجاج کرتے ہیں اس ماحول میں BNP جیسی چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ ملانے کے بجائے انہیں باہر دھکیلا جارہا ہے مگر انہیں اتنا باہر نہ دھکیلیں کہ وہ لکیر سے باہر چلے جائیں بلوچستان کا معاملہ پہلے ہی اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے اربوں ڈالر کے غیر ملکی منصوبے صرف اس لیے شروع نہیں کیے جا سکے کہ غیر ملکی کمپنیاں سکیورٹی کی ضمانت مانگتی ہیں لہٰذا سپیکر قومی اسمبلی کو ایوان چلانے سے زیادہ آگے جا کر ملک چلانے میں در پیش رکاوٹوں کا ادراک کرنا ہو گا۔ ویسے بھی سپیکر کا عہدہ جس تقدس کا حامل ہے اس کا تقاضا ہے کہ انصاف اور امانتداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ عدلیہ کا کام قانون کی تشریح اور قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ ہے یہاں قانون جنم لیتا ہے ان دونوں سے زیادہ سپیکر کی اہمیت اس لیے ہے کہ وہ قانون سازوں کا قانون ساز ہے۔ اس کے دائرہ قدرت میں ہے کہ کس قانون ساز کو بات کرنے کی اجازت ہے اور کس کو نہیں ہے۔ اگر یہاں انصاف نہ ہو تو قانون کی ساری عمارت ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔
تبصرے بند ہیں.