یہ دنیا جائے عبرت ہے

124

میری پہلی ملاقات 1994ء میں ہوئی، غالباً مارچ کا مہینہ تھا، وہ گلبرگ کے بہت بڑے بنگلے کے سرونٹ کوارٹر میں رہتا تھا، بنگلہ اگرچہ پرانا تھا تاہم اس کے خدوخال بتا رہے تھے کہ وہ اپنے دور کا خوبصورت بنگلہ تھا۔ جب ہم اس کے پاس پہنچے تو اس کے چہرے پر چھائی ہوئی مایوسی اور پریشانی کی گھٹائیں چند لمحوں کے لیے ختم ہوئیں۔ اس نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔

ہم پاس رکھی ہوئی ایک ٹوٹی، بوسیدہ چارپائی پر بیٹھ گئے، اس نے میرے دوست سے سرگوشی کے انداز میں میرے بارے میں دریافت کیا۔ میرے دوست نے میرا تعارف ایک وکیل کی حیثیت سے کرایا۔ اس نے میرے لیے چند دعائیہ کلمات ادا کئے اور پھر اپنی مضطرب نگاہیں میرے چہرے پر مرکوز کیں۔
تھوڑی دیر بعد وہ اور میرا دوست دوبارہ محو گفتگو ہو گئے۔ میں دل ہی دل میں اپنے دوست کو کوس رہا تھا کہ مجھے کہاں لے آیا ہے، میں اپنے دل میں خیال کر رہا تھا کہ یہ کوئی پرانا ملازم ہوگا جس کو اس بنگلے کے مالک نے اپنی طویل خدمت اور وفاداری کے صلے میں اپنے ہاں سر چھپانے کے لیے جگہ دے رکھی ہے اور اس بڑھاپے میں علاج معالجے کا خرچہ اٹھا رکھا ہے، میں اسی تذبذب میں ہی تھا کہ میرے دوست نے اس بزرگ سے کہا کہ آپ خود اپنے بارے میں انہیں بتایئے، پہلے تو وہ راضی نہ ہوا مگر میرے دوست کے اصرار پر بہت رنجیدہ ہو کر، اپنی کہانی شروع کر دی، وہ آہستہ آہستہ بولتا، سانس پھولتا تو پھر کچھ دیر توقف کرتا اور پھر دوبارہ بولنا شروع کر دیتا۔
وہ قیام پاکستان کے تھوڑے عرصے بعد نائب تحصیلدار پرموٹ ہو گیا، ابھی ابتدائی ایام تھے، تقریباً ہر سرکاری محکمے میں عملے کی بہت کمی تھی اس لئے بہت سے سرکاری ملازمین کو پرموشن مل گئی، پوسٹنگ کے لیے بھی کسی بھاگ دوڑ کی ضرورت نہ تھی، ابھی انگریز سرکار کے تربیت یافتہ افسران موجود تھے، میرٹ پر عمل ہو رہا تھا، اسے پوسٹنگ اچھی مل چکی تھی، اس دور میں نائب تحصیلدار کا بڑا رعب اور تحکم ہوا کرتا تھا۔

اختیارات اور منصب نے کرپشن کی دلدل میں ایسا دھکیلا کہ مڑ کر نہ دیکھا، حالانکہ یہ وہ دور تھا کہ لوگ کرپشن کے نام سے واقف نہ تھے، معاشرتی اقدار بہت مضبوط تھیں، مگر جب کسی کا ضمیر مردہ ہو جائے اور دولت کی ہوس میں اندھا ہو جائے تو پھر کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا، دولت کی ہوس دن بہ دن بڑھتی چلی گئی، اس نے خوب ہاتھ رنگے، بہت سی جائیدادیں بنائیں، صرف لاہور شہر میں کوئی ایسا پوش علاقہ نہ تھا جہاں اس کی جائیداد نہ ہو۔

اللہ رب العزت نے اولاد کی نعمت سے نوازا، 3بیٹے اور 3بیٹیاں تھیں۔ بچوں کو اعلیٰ سکولز میں تعلیم دلوائی، تمام جائیدادیں بچوں کے نام پر تھیں۔ زندگی عیش و عشرت سے گزر رہی تھی، ہر دن عید اور ہر رات شب برأت تھی گویا زندگی رنگینیوں سے بھرپور تھی۔

سماج کے تمام بڑے مراتب کے لوگوں سے بھی راہ و رسم بن چکی تھی۔ حرام کی کمائی کی وجہ سے انسانیت، اصول، قانون کی اہمیت ختم ہو چکی تھی، اگر کوئی شخص ضمیر، اصول کی بات کرتا تو اس کی تذلیل کی جاتی۔ ویسے بھی جب بندے کے پاس دولت ہو تو اسے نصیحت اچھی نہیں لگتی۔
وقت گزرتا گیا، بچے اب بڑے ہو گئے، ان کی شادیوں کی فکر لاحق ہوئی، پیسے کی کمی نہ تھی، بڑی دھوم دھام سے شادیاں کی گئیں۔ بچوں نے جونہی شادیاں ہوئیں، قدرت کا نظام بھی حرکت میں آ گیا۔ بڑے بیٹے کی شادی چونکہ ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی تو بہو نے آتے ہی گھر میں نقص نکالنا شروع کر دیئے۔ وہی روایتی لڑائی، ساس بہو کا جھگڑا، نوبت یہاں تک کہ بڑے بیٹے نے جائیداد فروخت کی اور بیرون ملک چلا گیا، انہیں اس وقت پتہ چلا جب وہ دوسرے ملک جا چکا تھا، وہاں سے فون کرکے بتایا کہ بیرون ملک ہوں۔ بیٹے کا بیرون ملک شفٹ ہونا بڑا اذیت ناک تھا تاہم صبر کرکے خاموش ہو گیا، اب ریٹائرمنٹ بھی قریب تھی۔ 1974ء میں وہ سروس سے ریٹائرڈ ہو گیا، جونہی اس کی ریٹائرمنٹ ہوئی گویا ہر سہولت ختم ہوگئی، لوگ جو صبح و شام گھر کے چکر لگاتے تھے، رفتہ رفتہ کم گئے۔ دامادوں نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا۔ مختلف قسم کی ڈیمانڈز بڑھنے لگیں حتیٰ کہ تینوں بیٹیوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔

ریٹائرمنٹ کے بعد وہی سرکاری محکمہ اجنبی سا ہو گیا، نئے نئے لوگ آ گئے۔ ایک دفعہ اسے اپنے سابق آفس جانے کا اتفاق ہوا تو اسے یوں محسوس ہوا کہ وہ کبھی اس آفس میں آفیسر نہیں تھا، اسے اس وقت بہت شرمندگی اور تکلیف ہوئی جب ایک نائب قاصد سرگوشی کے انداز میں دوسرے اہلکار سے کہہ رہا تھا کہ یہ بہت کرپٹ آفیسر تھا، کوئی کام بغیر رشوت کے نہ کرتا تھا۔
حالت یہ تھی کہ اب ٹیلیفون کی گھنٹی بجنا بھی بند ہو گئی۔ کوئی فون آتا بھی تو خبر اچھی نہ ہوتی، دامادوں نے بیٹیوں کی جائیداد ہتھیانا شروع کر دی۔ ایک بیٹی نے اپنے روزانہ کے لڑائی جھگڑوں اور سسرال کے طعنوں سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔

ایک داماد کے رویے نے باقی دامادوں کو بھی حوصلہ دیا اور وہ بھی مختلف حیلے، بہانوں سے جائیداد کے پیچھے پڑ گئے۔

منجھلا بیٹا جس کے ساتھ بہت پیار تھا وہ چھت سے گرا اور فوت ہو گیا، جوان بیٹے کی موت اور بیٹی کی خودکشی سے اس کی اہلیہ بھی چل بسی، اب گھر میں اکیلا کوئی پرسان حال نہ تھا۔

چھوٹے بیٹے اور بہو کا رویہ بھی سخت ہوتا گیا، جیسے جیسے عمر بڑھتی بہو کا رویہ تلخ اور توہین آمیز ہوتا گیا جو جائیداد اس کے نام تھی، وہ بہو اور بیٹے نے زبردستی اپنے نام کرا لی۔ بڑھاپے کی وجہ سے مزاحمت کرنے کی سکت نہ تھی، پنشن واحد سہارا تھی، وہ بھی اسے اپنی مرضی سے خرچ کرنے کی اجازت نہ تھی۔ گھر کے ملازموں کو حکم تھا کہ یہ ذہنی مریض ہے لہٰذا اس کی کوئی بات نہ مانی جائے۔ حالات یہاں تک آ گئے کہ وہ گھر جس کو اس نے بڑے شوق سے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا آج اسی گھر کے سرونٹ کوارٹر میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔

اقتدار و اختیار انسان کی اصل آزمائش ہے اگر صاحب اختیار شخص اللہ کے قوانین کو اپنا لے، اپنے جیسے دیگر لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے، انہیں کسی بھی لحاظ سے اذیت نہیں دیتا تو یقینا وہی شخص کامیاب ہے، اگر وہ خیانت، بددیانتی، فریب، دھوکا اور لوگوں پر ظلم کرتا ہے، ان کا استحصال کرتا ہے، ان کے ساتھ زور زبردستی کرتا ہے، وہ وقتی فائدہ تو حاصل کر سکتا ہے مگر دائمی ہرگز نہیں۔

خیانت، فریب، ظلم سراسر خسارے کا سودا ہے۔

تبصرے بند ہیں.