مریم نواز ۔ احمد فراز اور فہمیدہ ریاض کا لطیفہ

28

مریم نواز نے جب پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو ان کے مخالفین کو بہت اعتراضات تھے جن میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں لیکن آج کے کالم کا مقصد وہ اعتراضات دہرانا یا ان کے جوابات لکھنا ہرگز نہیں ہے بلکہ مریم نواز کو ایک خطرے سے آگاہ کرنا ہے جو بہت ہی معمولی نظر آتا ہے لیکن سیاسی جان لیوا ہوتا ہے۔ آئیے پہلے مریم نواز پر اٹھنے والے اعتراضات اور ان کے جوابات کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آخر میں بتائے گئے خطرے کی شدت کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ مریم نواز کے مخالفین کو اعتراض تھا کہ وہ سیاسی سرکاری عہدے میں ناتجربہ کار ہیں۔ اس لیے پنجاب جیسے بڑے اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے صوبے کو کیسے چلا پائیں گی؟ اس کے جواب میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ عثمان بزدار کو یاد کریں تو باقی سب ان سے بہت بہتر لگیں گے۔ جہاں تک مریم نواز کی ذاتی صلاحیتوں کا معاملہ ہے تو اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جب 1999ء میں نواز شریف کا تختہ الٹایا گیا اُس وقت سے مریم نواز اپنے والد کی سیاسی بصیرت سے براہِ راست مستفید ہوتی آرہی ہیں۔ اس کے علاوہ مریم نواز کے اندر سیاسی سوجھ بوجھ اور سیاسی جدوجہد کا وہ ڈی این اے بھی موجود ہے جو اُن کی والدہ کلثوم نواز کی طرف سے انہیں وراثت میں ملا تھا۔ مریم نواز کے مخالفین کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ وہ وزارت اعلیٰ کے دفتر کے لیے ناتجربہ کار ہیں لہٰذا اپنی ناتجربہ کاری کے خلا کو اپنے والد نواز شریف اور دیگر پارٹی کارکنوں کی تجربہ کاری سے پُر کریں گی۔ یہ بات درست ہے کہ مریم نواز کی وزارت اعلیٰ کی ناتجربہ کاری کو بہتر تجربہ کاری میں بدلنے کے لیے ان کے والد نواز شریف بھرپور اور بابرکت سہارے کے طور پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مریم اورنگزیب، پرویز رشید اور ملک محمد احمد خان سمیت کئی گھریلو وفادار بھی ان کے لیے دن رات محنت کررہے ہیں۔ ایسی سہولت کاری حمزہ شہباز کو اپنے مختصر وزارت اعلیٰ کے عرصے کے دوران نہیں مل سکی تھی۔ یہ اپنی اپنی قسمت ہے۔ مریم نواز کے مخالفین کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ بیوروکریسی ایک ایسی بارودی چٹان ہے جو بظاہر آئس کریم جیسی میٹھی ٹھنڈی نرم خوش رنگ اور لذیذ نظر آتی ہے لیکن دراصل یہ سمندر میں موجود نظر نہ آنے والے آئس بر گ کی طرح ہوتی ہے جس سے دنیا کے بہترین اور چالاک آلات رکھنے والے ٹائی ٹینک بھی ٹکراکر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ مریم نواز کے مخالفین کی اس بات کے آگے ادب سے دوزانو بیٹھنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ پاکستان کے سیاسی حکمرانوں کے لیے بیوروکریسی ایسا مہلک ہتھیار ہے جسے وہ سیاست دان ہربار خود سلیکٹ کرتے ہیں، خود نشانے پر چلاتے ہیں اور خود ہی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب سیاسی مخالفین کو اپنے مخالف کے خلاف کوئی برتری نظر نہیں آتی تو وہ ہاتھ اٹھا کر یہی بددعا دیتے ہیں کہ خدا کرے تمہیں بیوروکریسی لگے اور اس بددعا کے قبول ہونے میں عموماً زیادہ وقت نہیں لگتا۔ مریم نواز نے اپنے سو دنوں کے اقتدار کی کارکردگی پیش کی تو ڈیٹا کا گراف بہتر تھا لیکن مریم نواز کی زیرقیادت پنجاب کے ترقی کرتے ہوئے اس گراف کے اعلان کے فوراً بعد چند ایسی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں جو حکمرانوں کے قد سے بہت چھوٹی اور معمولی تھیں اس لیے حکمرانوں کے نزدیک ان کی اہمیت نہیں تھی اور جب ایسی خبریں مستقبل میں آئس برگ بن کر بربادی پھیلا دیتی ہیں تو حکمران انہیں بیوروکریسی کے ہتھکنڈے کہنا شروع کردیتے ہیں۔

حکمرانوں کی اِس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ بیوروکریسی سیاسی رہنماؤں کو کام نہیں کرنے دیتی۔ اب یہ خبر لیجئے جس کا ذکر ممتاز سکالر، دانشور، استاد، صحافی، رائٹر اور میڈیا ایکسپرٹ ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر نے اپنے ایک سٹیٹس میں کیا ہے۔ وہ خود بھی ایک سینئر بیوروکریٹ رہ چکے ہیں لیکن اس خبر پر افسردہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور حکومت پنجاب کو خطرے سے آگاہ کرنے لگے۔ انہوں نے لکھا کہ ”تھانوں میں ایئر کنڈیشن لگائے جارہے ہیں جبکہ پنجاب کی لائبریریاں تندور بنی ہوئی ہیں“۔ ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کا روزگار تو بیوروکریسی سے وابستہ تھا لیکن ان کا دل اور دماغ ہمیشہ سے علم اور کتاب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک روشن ضمیر اور صاحب علم لائبریریوں کی حالت پر آنسو نہ بہائے تو کیا کرے؟ ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر صاحب کو یہ معلوم ہی ہوگا کہ تھانوں میں ایئر کنڈیشن لگاکر بیوروکریسی نے حکومت پنجاب سے کتنی شاباش لی ہوگی اور مریم نواز کو یہ یقین دلایا ہوگا کہ جب لوگ تھانے آئیں گے تو وہ ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر مریم نواز کی کتنی تعریف کریں گے۔ بیچاری مریم نواز کو یہ کیا معلوم کہ بیوروکریسی کی اونچی گردن تھانوں کی بنیاد پر ہی ہے۔ بیوروکریسی یا ان کی اولاد کا لائبریریوں سے کیا تعلق۔ لائبریریاں تو اُن ناکارہ لوگوں کے لیے ہوتی ہیں جنہیں ہم دانشور اور علم دوست کہتے ہیں۔ ایسے ناکارہ لوگوں کو کچھ آرام پہنچانے یا ان پر پیسہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ دوسری طرف یہی دانشور اور علم دوست ترقی یافتہ ملکوں کے ہیروز ہوتے ہیں اور ہوتی ہیں، تاریخ انہیں اپنے روشن ستارے لکھتی ہے۔ مہذب اقوام ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر جیسے سب دانشوروں اور علم دوست شخصیتوں کو دنیا کی ہر سہولت مفت پہنچانے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ آئس برگ میں تبدیل ہوسکنے والی ایک اور چھوٹی سی خبر ملاحظہ ہو۔ اس پر بھی بیوروکریسی نے حکومت سے خوب داد پائی ہوگی۔ وہ یہ کہ ”لاہور ریلوے سٹیشن میں ایئر کنڈیشنڈ واش روم عوام کے لیے کھول دیئے گئے“۔ اس خبر کو پڑھتے ہی معمولی سوجھ بوجھ کا انسان بھی ضرور حیران ہوگا۔ پہلی بات یہ کہ باتھ روم ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں مختصر وقت کے لیے جانا ہوتا ہے۔ غریب ملکوں میں اس جگہ کا ایئر کنڈیشن کی بجائے صرف صاف ستھرا ہونا ہی کافی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ریلوے سٹیشن پر ایئر کنڈیشن باتھ روم لگانے سے سب سے زیادہ فائدہ پاؤڈریوں، افیونچیوں اور نشے بازوں کو ہوگا جو مزے سے بہت دیر تک ایئر کنڈیشن باتھ روموں کا دروازہ بند کرکے بیٹھے رہیں گے۔ کیا سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اِن نشے بازوں کے لیے ایئر کنڈیشن باتھ روم جلدی خالی کرانے پر ٹائمر لگانے والا قانون بنانے کے لیے کوئی بل لائیں گے؟ ایسی ہی کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں اور بھی ہیں جن کو سمجھانا مشکل ہے لیکن تجربہ ہونے پر بڑے بڑے تجربہ کار پچھتاتے رہ جاتے ہیں۔ اس تباہ کن خطرے کو سمجھنے کے لیے آخر میں ایک سچا ادبی لطیفہ ملاحظہ ہو۔ پنجابی کے مشہور مزاحیہ شاعر عبیر ابوذری شاعری سنا رہے تھے جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا کہ

پولس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کیہہ
پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کیہہ

فہمیدہ ریاض نے احمد فراز سے پوچھا کہ اس کا ترجمہ کیا ہے؟ احمد فراز نے کہا اس کا ترجمہ نہیں ہو سکتا، تجربہ ہو سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.