عوام کے مقابلے میں منظم کاروباری گروہ زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور ہماری حکومت کو ان گروہوں کا خوف عوام کی نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ 25 کروڑ کی آبادی پر جب حکومت ٹیکسوں کا بوجھ لادنا چاہتی ہے اسے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی کیونکہ عوام سیاسی طور پر تقسیم ہیں لہٰذا وہ حکومت کے خلاف متحد ہونے سے قاصر رہتے ہیں جبکہ اس کے برعکس دوسری طرف چھوٹے چھوٹے کاروباری گروہ اتنے طاقتور ہیں کہ وہ کسی بھی حکومت کو ان کے مفاد کے خلاف فیصلہ کرنے سے باز رکھتے ہیں آپ آج کی پٹرولیم ڈیلرز کی ہڑتال کے اعلان کو لے لیں اس وقت ملک میں مجموعی طور پر 14000 پٹرول پمپ ہیں جن کے مالکان کا مفاد 25 کروڑ سے متصادم ہے حکومت نے ان پر 0.5 فیصد ٹرن اوور ٹیکس لگایا جو ان کے منافع کا محض آدھا فیصد ہے تو انہوں نے ہڑتال کر دی وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہ آدھا فیصد بھی پٹرول کی قیمت میں جمع کر کے ہمیں عوام پر منتقل کرنے کی اجازت دی جائے۔ دوسری طرف آئل مارکیٹنگ کمپنیاں جن کا پرافٹ مارجن 7 روپے سے کچھ زیادہ ہے وہ اسے 12 فیصد کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں یعنی منافع میں 60 فیصد اضافہ چاہتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں عوام کی منتشر سوچ عدم اتفاق رائے اور مہنگائی سے بے نیازی کا عالم یہ ہے کہ قیمتیں جتنی چاہے بڑھا لو ٹیکس جتنے مرضی لگا لو ان کے کان پر جون نہیں رینگتی شاید ان میں اب احتجاج کی سکت باقی نہیں رہی پرانے زمانے میں پھر بھی عوام الناس کچھ نہ کچھ آواز بلند کر لیتے تھے مگر سوشل میڈیا کی آمد کے بعد ان کا سارا احتجاج گھر بیٹھے فیس بک پر پوسٹ لگانے تک محدود ہو گیا ہے یہ صورتحال ہر حکومت کے لیے خوش کن ہے حکومتیں سوچتی ہیں کہ کاروباری گروپوں سے الجھے بغیر اپنی آمدن عوام سے پوری کریں یہی وجہ ہے کہ پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن سے تو آدھا فیصد ٹیکس بڑھانے پر مذاکرات جاری ہیں مگر عوام پر کئی گنا ٹیکسوں کے باوجود ان سے مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پٹرول پمپ مالکان کی کافی تعداد صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں بیٹھی ہے جو ہر حکومت سے وابستہ ہوتے ہیں اور اپنے خلاف قانون پاس نہیں ہونے دیتے جبکہ عوام کے لیے ایسا کوئی نمائندہ نہیں جو ان کے ووٹ لینے کے باوجود ان کے حقوق کے تحفظ کی بات کرے۔
اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات کا زور اس بات پر ہے کہ کہیں کوئی توہین عدالت کرتا پکڑا جائے تو وہ سزا سے نہ بچ سکے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا زور اس بات پر ہے کہ نیب یا کسی ریاستی ادارے کو سپیکر کی اجازت کے بغیر کسی رکن کی گرفتاری کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ آج کل ایک اور کمپین چل رہی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں خاطر خواہ اضافہ کر کے اسے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے برابر کیا جائے۔
وزیراعظم نے کچھ عرصہ قبل سرکاری اداروں اور وزارتوں میں سادگی اپنانے کے لیے کمیٹی یا کوئی کمیشن تشکیل دے رکھا ہے جو جائزے لے رہا ہے۔ ان کے جائزے میں اربوں روپے کا فری پٹرول فری بجلی اور مراعات ان کے ریڈار پر نہیں آ رہا۔ حکومت کہتی ہے کہ ہمارے کابینہ ارکان تنخواہ نہیں لے رہے مگر ان کی مراعات تنخواہوں سے کہیں زیادہ ہیں ملک میں اخراجات کم کرنے کی مد میں آج تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم نے سادگی مہم میں وزراء اور سیکرٹریوں سے بڑی گاڑیاں واپس لے کر انہیں چھوٹی گاڑیوں میں بٹھا دیا مگر ان کا انجام یہ ہوا کہ جب وہ ایک غیر ملکی دورے پر تھے تو انہیں معزول کر دیا گیا وہ کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو کہا جاتا ہے کہ انہیں ٹیکسی لے کر اپنے گھر جانا پڑا تھا۔
ملک کی تاریخ میں پہلی بار درجہ حرارت نے نصف سنچری مکمل کی ہے اور آنے والے برسوں میں پیش گوئی یہ ہے کہ یہ 60 ڈگری تک جا سکتا ہے لیکن اس موسم میں بھی آپ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران ان کی ویسٹ کوٹ اور ان کے پوشاک ملاحظہ کریں ایوان کے سنٹرل اے سی سسٹم اتنے یخ بستہ ہیں کہ انہیں گرم کپڑے پہن کر اجلاس میں آنا پڑتا ہے۔
موسمیات کے ماہرین کے مطابق ملک میں گرمی کی وجہ ایک تو اے سی یونٹس کی تعداد میں اضافہ اور دوسرا درختوں کی تعداد میں تیزی سے ہوتی ہوئی کمی ہے۔ اگر اگلے سات سال میں اس کا سدباب نہ ہوا اور ملک میں وسیع پیمانے پر شجرکاری نہ کی گئی تو پنجاب اور سندھ میں درجہ حرارت 60 کو عبور کر جائے گا۔
دوسری طرف سرتوڑ کوشش میں ہے کہ 6 ارب ڈالر کا قرض آئی ایم ایف سے مل جائے تا کہ موجودہ حکومت کم از کم اپنے تین سال نکال لے جس کے لیے آئی ایم ایف کی ساری شرائط عوام کش ہیں۔ ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات کے بجائے سارے ٹیکس عوام پر لادے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں ایک بہت بڑے معاشی بحران کا پیش خیمہ صاف نظر آ رہا ہے۔ ملک اس وقت تاریخ کے ظالم ترین قرضوں کے جال میں جکڑا جا چکا ہے۔ جس سے باہر آنے کا کوئی قابل عمل ذریعہ نظر نہیں آتا۔ آئی ایم ایف نے قرضوں کی Re Profiling کے بجائے یہ کہا ہے کہ ٹیکسوں کے ذریعہ جہاں سے بھی پیسہ نکل سکتا ہے وہ نچوڑ کر نکال لیں لیکن حکومت نے امیروں پر ٹیکس لگانے کے بجائے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کے ذریعے عوام کے خون سے سرنجیں بھرنا شروع کر رکھی ہیں یہ سلسلہ دیکھیں کب تک چلے گا۔
انقلاب فرانس سے پہلے جب وہاں حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا تو وزیر خزانہ نے مزید بے رحم ٹیکسوں کی منظوری کی قرار داد پیش کی تو وہاں کے ایک پارلیمنٹیرین Mirabeaue نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک بچانے کی خاطر سارے عوام کو ڈبونے سے بہتر ہے کہ ملک کے کاروباری طبقے پر بھاری ٹیکس لگا دیے جائیں اگر ملک بچانے کے لیے 20 ہزار تاجروں اور صنعتکاروں کی قربانی دینا پڑے تو وہ زیادہ مناسب ہے مگر اس کی اس تجویز کی اس لیے مخالفت کی گئی کہ ان تاجروں کی اکثریت اس پارلیمنٹ کا حصہ تھی جس میں یہ قانون سازی ہو رہی تھی۔
دنیا بھر کی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اس وقت پاکستان پر Red Alert کا لیبل لگا کر اس انتظار میں ہیں کہ اس معاشی آئی سی یو سے کیا خبر آتی ہے لیکن ہمارے حکمران اور اپوزیشن آپس میں اقتدار کی تقسیم پر آپس میں دست و گریبان ہیں انہیں نہیں پتہ کہ جب یہاں کچھ بچے گا ہی نہیں تو کس پر حکومت کرو گے۔ ملک سے بہت بڑی تعداد میں نوجوانوں کا دوسرے ممالک کی طرف انخلاء کئی سال سے جاری ہے۔ دوسری طرف دوبئی لیکس کے کرداروں نے اپنے لیے ملک سے باہر محفوظ پناہ گاہوں کا انتظام کر لیا ہوا ہے سب سے زیادہ مشکل میں وہی آئیں گے جن کا سارا انحصار پاکستان پر ہے۔ سری لنکا کی بات اور تھی وہاں حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنے یہاں ہیں انہوں نے واپسی کا سفر شروع کر دیا ہے مگر ہمارے مقتدر طبقوں کو ابھی تک احساس نہیں ہو رہا ہے کہ وہ کتنے بڑے معاشی گڑھے کے کنارے پر ہیں اور ریت کے ان کناروں سے زمین سرک رہی ہے۔
تبصرے بند ہیں.