اگر ہم جمہوری ادوار کا بغور جائزہ لیں تو ہر دور میں جمہوری خدوخال کوئی تسلی بخش نہیں رہے اسی طرح اب سیاسی ماحول میں ایک تناؤ دکھائی دے رہا ہے۔ اب تک بانی پی ٹی آئی کو مختلف کیسز کا سامنا ہے کیسز سے بری ہوتے ہیں تو ایک نئی فائل کھل جاتی ہے ہمیشہ سے ارباب اختیار یہی کچھ کرتے چلے آرہے ہیں اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
اب جو کیس پھر سے سامنے آرہے ہیں وہ کچھ یوں ہیں پی پی سی سیکشن 121، 121 اے،123 اے، 131،153 کے تحت کارروائی کی سفارش، کریمنل لاایکٹ کے تحت غیر قانونی جماعت قرار، کریمنل پروسیڈنگ کوڈ کا بھی اطلاق۔اب ان تمام لاء کے تحت پی ٹی آئی کے گرد ایک ایسا بیرئیر لگایا جا رہا ہے کہ مکمل طور پہ اس جماعت کو ہی بین کر دیا جائے۔اگر ہم زمینی حقائق دیکھیں تو صورتحال یکسر مختلف ہے پی ٹی آئی کے فین فالورز، ووٹرز، سپورٹرز میں بے انتہا اضافہ ہو چُکا ہے۔ اس پہ اگر میں روشنی ڈالوں تو بانی پی ٹی آئی نے جو جیل میں رہتے سزا کو پورا کیا جس سے پاکستانی عوام اور اُن کے مداحوں پہ پوزیٹو اثر ہوا۔
بانی پی ٹی آئی کے میڈیا ٹاک، قومی اداروں، عدلیہ، سینئر افسران کیخلاف جھوٹے بیانات پر کیس بنائے جانے کی اطلاع ہے، صورتحال کی مشرقی پاکستان سے تشبیہ، عوام میں منفی پروپیگنڈہ پیدا ہوا۔اب جس بات کو لے کے ایک ہنگامہ ہو رہا ہے تو دلچسپ بات بتاتی چلوں کہ 2011 میں وہ اپنے انٹر ویو میں بہت سی ایسی باتیں کر چُکے ہیں اُس کے بعد اُنہوں نے اقتدار کو بھی انجوائے کیا۔
پنجاب کا بینہ کی دستاویزات کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے ریاست مخالف بیانیے پر پنجاب حکومت کار روائی کی منظوری کی تفصیلات سامنے آگئیں، دستاویزات میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی پاکستان کو توڑنے کی منتظم سازش کر رہے ہیں۔ سیاسی مقاصد کے لیے بانی پی ٹی آئی، پی ٹی آئی ورکر ز ریاست مخالف کام کر رہے ہیں۔ جہاں بانی پی ٹی آئی موجودہ صورتحال کو مشرقی پاکستان اور 1971 کی سیاسی صورتحال سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ یاد کریں جب نواز شریف کی ”مجھے کیوں نکالا“ سیریز چل رہی تھی 17ستمبر 2017 کو نواز شریف نے بیان دیاجب اُنہیں مداخلت اور مشکلات کا سامنا تھا اُس وقت نواز شریف کے یہ الفاظ تھے کہ مجھے مجبور نہ کیا جائے کہ مشرقی پاکستان جیسے شیخ مجیب الرحمان جیسی راہ اختیار کر وں لاہور جلسے کی تقاریر میں بھی اداروں کے خلاف بیان ملتے ہیں اس لئے انصاف کا تقاضا یہی کہتا ہے کہ ان سب پہ کارروائی ہو۔ پی ٹی آئی جماعت کے ترجمان نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا کہ انہیں اطلاعات مل رہی ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جارہی ہے، دو برس سے مسلسل ہونے والے حکومتی اقدامات ان اطلاعات کی توثیق کرتے ہیں۔ پاکستان میں پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ یہ پابندی کچھ مہینوں سے نافذ ہے اور اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں: پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور ان کی پارٹی حکومت کی شدید مخالفت کر رہے ہیں اور ملک میں عدم استحکام پھیلا رہے ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں قانون و نظام کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے کارکنان اور حامی سماجی میڈیا پر حکومت اور اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد شیئر کر رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ پی ٹی آئی کے کچھ کارکنان قانون و نظام کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں اور ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ ان پر پابندی ضروری ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے عدالت میں پیش کردہ دستاویزات میں اعتراف کیا ہے کہ ایکس (پرانے ٹوئٹر) پر پابندی کا حکم وفاقی وزارت داخلہ نے دیا تھا۔
پاکستان کی حکومت پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ خان کے مطابق، پی ٹی آئی سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے اپنا استحقاق کھو چکی ہے۔ پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی روشنی میں، پی ٹی آئی کو غیر قانونی جماعت قرار دے کر اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں موزوں وقت پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جائے گا۔ رانا ثناء نے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے بارے میں کابینہ کمیٹی کی رپورٹ سے ثابت ہو چکا ہے کہ پی ٹی آئی نے 9 مئی کے ملک گیر حملوں کے لئے مکمل منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ بیرون ملک پناہ لینے والے پاکستانیوں کو پاسپورٹ جاری کرنے پر پابندی کے نوٹی فکیشن کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ صائم چوہدری نے 184(3) کے تحت درخواست دائر کی ہے، جس میں وفاقی حکومت اور ڈی جی پاسپورٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس طرح، پاسپورٹ جاری کرنے پر پابندی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
کیا اس پابندی کو لگائے جانے کا کوئی معاشی اثر ہوگا؟۔ جی ہاں، پی ٹی آئی پر سماجی میڈیا پر پابندی کا معاشی اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ اثرات کچھ حد تک محدود ہوں گے لیکن کچھ طریقوں سے معاشی نقصان ہوسکتا ہے:
پی ٹی آئی پر پابندی سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھ گیا ہے۔ سرمایہ کاروں کو اس طرح کے حالات سے خوف ہوتا ہے جس سے ملک میں سرمایہ کاری میں کمی آسکتی ہے۔پاکستان میں سیاسی عدم استحکام سے سیاحت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ کاروباری سرگرمیوں میں کمی سے روزگار کے مواقع بھی کم ہوسکتے ہیں۔ یوں معیشت پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ سرمایہ کاری میں کمی، سیاحت میں کمی اور روزگار کے مواقع میں کمی سے معیشت متاثر ہوتی ہے۔ تاہم یہ اثرات کچھ حد تک محدود ہوں گے کیونکہ پی ٹی آئی پر پابندی صرف سماجی میڈیا تک محدود ہے اور پارٹی یا اس کے سربراہ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر پابندی طویل عرصے تک جاری رہی تو معاشی اثرات زیادہ شدید ہوسکتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.